مظفر نگر فسادات: عدالت نے ریاستی حکومت کو سنگیت سوم سمیت 12 بی جے پی لیڈران کے خلاف مقدمہ واپس لینے کی اجازت دی
مظفر نگر، مارچ 28: اترپردیش کی ایک خصوصی عدالت نے 2013 میں ہونے والے مظفر نگر فسادات کے معاملے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے 12 رہنماؤں سمیت مختلف ملزموں کے خلاف تشدد کو بھڑکانے کے مقدمات واپس لینے کے لیے ریاستی حکومت کی درخواست کو اپنی منظوری دے دی۔
ان مقدمات میں نامزد ملزمین میں ریاستی وزیر سریش رانا، بی جے پی کے ایم ایل اے سنگیت سوم، سابق ممبر پارلیمنٹ بھارتیندر سنگھ اور وشو ہندو پریشد لیڈر پراچی شامل ہیں۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق بی جے پی کے ان لیڈروں پر الزام تھا کہ انھوں نے ننگلہ منڈوڑ گاؤں میں ایک پنچایت کے دوران اشتعال انگیز تقریریں کیں جس کی وجہ سے مظفر نگر اور شاملی اضلاع میں فرقہ وارانہ تشدد ہوا۔ مظفر نگر ضلعی حکومت کے وکیل راجیو شرما نے کہا کہ ملزمان کے خلاف ممنوعہ احکامات کی خلاف ورزی کرنے کے، سرکاری ملازمین کو اپنے فرائض کی انجام دہی سے روکنے اور غلط رکاوٹوں کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ستمبر 2013 میں پیش آنے والے اس واقعے میں کم از کم 60 افراد ہلاک اور ہزاروں مسلم خاندان بے گھر ہوگئے تھے۔ کئی دن بعد، جنسی زیادتی اور بدسلوکی کی اطلاعات بھی سامنے آنا شروع ہوگئی تھیں۔
جمعہ کو جسٹس رام سدھ سنگھ نے حکومت کو کیس واپس لینے کی اجازت دے دی۔ مظفر نگر کے اضافی ضلعی حکومت کے وکیل للت بھاردواج نے کہا کہ ریاستی حکومت نے گذشتہ سال اس معاملے کو واپس لینے کے لیے ایک خط بھیجا تھا۔
بی جے پی کے مظفر نگر ضلع صدر وجے شکلا نے عدالت کے فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے دعوی کیا کہ ’’سماج وادی پارٹی کی حکومت کے دوران پارٹی لیڈران کے خلاف جعلی مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ہم عدالت کے فیصلے کو سراہتے ہیں۔‘‘
وہیں سماج وادی پارٹی کے رہنما سدھیر پنوار نے کہا کہ عدالت کے ذریعے ’’اس طرح کے گھناؤنے جرائم‘‘ کے مقدمات واپس لینے کے فیصلے سے معاشرے میں غلط پیغام جائے گا۔
انھوں نے مزید کہا ’’یہ ایک خطرناک نظیر قائم کی جارہی ہے کیوں کہ بی جے پی اپنے قائدین کا احتساب کیے بغیر دوبارہ معاشرے کو پولرائز کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔‘‘
مارچ کے شروع میں اسی خصوصی عدالت نے سنگیت سوم کے خلاف ریاستی پولیس کی خصوصی انوسٹی گیشن ٹیم کی ٹیم کے ذریعہ دائر کلوزر رپورٹ کو قبول کر لیا تھا۔