مطالعہ تصوف ۔قرآن و سنت کی روشنی میں

اسلامی عقیدے کو درست رکھنے میں معاون ایک اہم کتاب

کتاب کا نام: مطالعہ تصوف (قرآن و سنت کی روشنی میں)
مصنف: ڈاکٹر غلام قادر لون
صفحات605:
قیمت : 340 روپے
ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز دہلی
مبصر:سہیل بشیر کار

ماضی میں مسلمانوں پر تصوف کے گہرے اثرات رہے ہیں۔ دور حاضر میں بھی فلسفہ تصوف کے اثرات موجود ہیں۔ہمارے ہاں صوفیاء کرام کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا، کیونکہ لاکھوں لوگوں نے ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا، بے شمار افراد کی زندگی کی کایا صوفی حضرات نے بدلی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تصوف کے ذریعہ جو اسلام پھیلا وہ چند پہلوؤں سے اُس اسلام سے مختلف تھا جو قرآن و سنت میں پیش کیا گیا۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ اس حساس مگر اہم موضوع پر محققانہ نقد ہو اور تصوف کے بنیادی ماخذ سے استفادہ کرکے قرآن و سنت پر اس کو پرکھا جائے لیکن یہ کام آسان نہیں تھا۔ فکری رہنما مولانا صدر الدین اصلاحی اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے اپنی شاہکار کتاب دین کا قرآنی تصور میں لکھتے ہیں کہ ’’پہلی رکاوٹ تو دینی شخصیتوں کی عقیدت کے غلو کی ہے ۔ یہ ایک مانی ہوئی بات ہے کہ ذہنی اصلاح و تعمیر کی اس مہم کے سلسلے میں ملت کی بہت سی عظیم المرتبت اور قابل احترام ہستیوں کے افکار و اعمال بھی زیر بحث آجائیں گے اور پھر ان کے بارے میں لازماً ایسے فیصلے بھی کرنے پڑیں گے جو ہماری عقیدتوں کے لیے بڑے صبر آزما ثابت ہوں گے لیکن دین کی سچی بہی خواہی اور متبع قرآن ہونے کی واقعی ذمہ داری کہتی ہے کہ اس ناگوار اور صبرآزما فرض کو انجام دینا ہی چاہیے ۔ کیوں کہ اس کے بغیر دین کا حق ادا نہیں ہوسکتا ۔ ہم پر اگر بزرگان دین کا یہ حق ہے کہ ان کا ادب واحترام کریں اور ان سے محبت وعقیدت رکھیں تواللہ کے دین اور اس کی کتاب کا بھی کچھ حق ہے، اور انصاف کی بات یہی ہے کہ واقعی حق ہر ایک کا ادا کیا جائے ۔
نہ کسی کا حق نظرانداز ہونے پائے نہ کسی کے حق میں غلو سے کام لیا جائے ۔ جس طرح کسی صالح اور عابد وزاہد انسان کی تنقیص اور بے ادبی بڑی بدبختی کی بات ہے اسی طرح رسول خدا کے سوا کسی بھی شخص کو فکری اور عملی ہر حیثیت سے مکمل پیروی کا مستحق ٹھیرالینا عقیدت کا غلو ہے۔ غیر نبی کا حق صرف یہ ہے کہ اس کے ساتھ حسن ظن رکھا جائے ۔ اس کے لیے مقبولیت کی امید رکھی جائے اور ترقی درجات کی دعا کی جائے۔ ‘‘(صفحہ 256)
605 صفحات پر مشتمل زیر تبصرہ کتاب ’’مطالعہ تصوف (قرآن و حدیث کی روشنی میں)‘‘ اس سلسلے کی محققانہ کوشش ہے۔ کتاب کے مصنف عالم اسلام کے مشہور و معروف محقق ڈاکٹر غلام قادر لون ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا تعلق ضلع بارہمولہ سے ہے، وہ آپ اپنے آپ میں ایک انسائیکلوپیڈیا ہیں۔ عالمی سطح پر ان کی کتابیں بطور ریفرینس تسلیم کی جاتی ہیں۔ ان کا حافظہ کمال کا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی خوبی یہ ہے کہ جس موضوع پر بھی قلم اٹھاتے ہیں، بنیادی ماخذ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب میں ڈاکٹر غلام قادر لون نے کہیں پر بھی ثانوی ماخذ کا حوالہ نہیں دیا ہے۔ کتاب کے مقدمہ میں مشہور عالم دین و محقق مولانا سلطان احمد اصلاحی لکھتے ہیں: ’’برادرعزیز غلام قادرلون کی یہ کتاب دراصل ان کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جسے کئی سال کی مزید محنت ، ترمیم و تنسیخ اور حذف واضافے کے بعد موجودہ صورت میں پیش کر رہے ہیں۔ روایتی مدرسی تعلیم سے دور خالص یونیورسٹی کی پیداوار کسی طالب علم کاعربی زبان میں اس درجہ رسائی اور درک حاصل کرلینا جس سے کہ وہ تصوف کے ساتھ اسلامیات کے پھیلے ہوئے ذخیرے کے بنیادی مآخذ سے براہ است اخذ و استفادہ کر سکے، اپنے آپ میں حد درجہ لائق قدر ہے ۔ اس سے زیادہ خوشی اس بات سےکہ فکر اسلامی کے اہم ترین شعبے تصوف کے اولین بنیادی مآخذ سے وہ پھیلا ہوا مواد جو اس کتاب کے ذریعہ سامنے آرہا ہے ۔ غالباً اب تک کے مطبوعہ اردو ذخیرے میں اس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔ ‘‘
(صفحہ 5)
برصغیر کے مشہور دانشور خورشید ندیم صاحب زیر تبصرہ کتاب کو معرکۃ الآرا کتاب کہتے ہیں۔ پیش گفتار میں مصنف لکھتے ہیں ’’پیش نظر کتاب میں محدثین، فقہاء، مفسرین، مورخین، صوفیا اور ناقدین تصوف کی تحریروں سے استشہاد کیا گیا ہے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب میں انتہائی عرق ریزی سے کام لیا ہے، خود لکھتے ہیں: ’’کتاب کی تیاری میں عربی اور فارسی زبان کے مستندد و معتبر مآخذ سے مدد لی گئی ہے اور دوران تصنیف اس کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ تصوف سے متعلق موافقت اور مخالفت کا تمام نہ سہی اہم مواد سامنے آئے‘‘ (صفحہ 10)
یہ بات سچ ہے کہ تصوف کو جہاں بہت زیادہ پزیرائی ملی وہیں علماء حق کے بڑے طبقہ نے تصوف کے غلط افکار کی مخالفت کی۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:’’ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ مقبولیت کے باوجود تصوف کی حیثیت ہر عہد میں متنازعہ رہی ہے، علماء اسلام کا ایک طبقہ جہاں تصوف کو اسلام کی روح اور مغز سے تعبیر کرتا ہے وہیں دوسرا اسے غیر اسلامی رہبانیت قرار دے کر مسترد کردیتا ہے۔ ‘‘(صفحہ9)
مزید لکھتے ہیں ’’ تصوف کی مخالفت میں بہت کم لکھا گیا ہے لیکن جن علماء نے تصوف کی مخالفت کی ہے وہ علم و عمل کے پہاڑ تھے، ان کے تبحر علمی، خلوص اور نیک نیتی کو نظر انداز کرنا ناانصافی ہوگی۔ ‘‘(صفحہ10)
تصوف کی وجہ سے اسلام کے حلیہ میں جو تبدیلی آئی اس پر کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے، یہ تصوف ہی ہے جس کی وجہ سے دین اسلام کے حرکی تصور کو نقصان پہنچا، اسلام ظاہر پرستی میں قید ہوکر رہ گیا اور غیر اہم باتیں اہم بن گئیں مثلا حضرت نظام الدین اولیاء ہفت کورہ دستار باندھتے تھے، ایک دن محفل سماع کے دوران ایک کورہ کھل گیا تو محفل سے باہر نکلے اور کورہ باندھ کر آئے۔ لوگوں نے استفسار کیا تو فرمایا کہ میرے دستار کا ایک کورہ ایک اقلیم کے قیام سے مربوط ہے، اگر اسے نہ باندھتا تو احتمال تھا کہ ایک اقلیم درہم برہم ہو جاتی، (لطائف اشرفی) موجود دور کے عالم اسلام کے چوٹی کے عالم دین اور فکری رہنماشنقیطی کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’مشرقی اقوام کو اپنے پنجہ استعمار میں گرفتار کرنے کے لیے برسر پیکار مغربی اقوام کے لیے اور تاک میں بیٹھے اسلام کے حریفوں اور دشمنوں کے لیے سب سے زیادہ خوش نصیبی کا دن وہ ہوگا جب وہ، اللہ نہ کرے مسلمانوں کو دیکھیں گے کہ انہوں نے غزالی کا مسلک اختیار کرلیا ہے اور ان کی بتائی ہوئی غایت کو اپنی غایت بنالیا ہے اور ان کے کھینچے ہوئے منہج کو اپنا منہج بنالیا ہے اور وہ عدم یا عدم نما ہورہے ہیں، اس زندگی میں جو کمزور پر ترس نہیں کھاتی۔‘‘(اسلامی تمدن میں آئینی انقلاب)
شنقیطی اسی کتاب میں محمد اسعد کے حوالے سے لکھتے ہیں’’ اسلام انسان کو زندگی کے تمام پہلوؤں کو ایک کردینے پر آمادہ کرتا ہے۔ اور وہ اخلاقی و عملی نظام بھی ہے اور شخصی و اجتماعی نظام بھی۔ اسلامی عبادت کی حقیقت پر غور کرتے ہوئے محمد اسد نے ادراک کیا کہ وہ ایک انوکھا نظام ہے جو روحانی تزکیے اور اجتماعی تنظیم کا مرکب ہے۔ وہ لکھتے ہیں: “عبادت کے سلسلے میں اسلامی آئیڈیا صرف نمازوں پر مشتمل نہیں ہے، بلکہ پوری زندگی پر مشتمل ہے۔ اس کا ہدف ہماری روحانی ذات کو اور ہماری مادی ذات کو ایک کل میں یکجا کردینا ہے‘‘ مشہور مفکر ڈاکٹر محمد مختار شنقیطی اپنی کتاب اسلامی تمدن میں آئینی بحران میں لکھتے ہیں: ’’کہا جاسکتا ہے کہ صوفی شعور جو فرد کی نجات تک محدود ہے، اسلام کو غار حرا کے مرحلے میں ہی منجمد کر دیتا ہے، صوفی غار حرا کی خلوت میں اسرا ومعراج کے معجزے میں جس چیز کو انجام کار سمجھتا ہے حضرت محمد ﷺ کی نبوت کی ترازو میں وہ محض آغاز ہے، یہ ابتدائی مرحلہ ہے جس میں روحانی توانائی جمع کرنی ہے اور جسے اگلے مراحل میں بروئے کار لانا ہے، رخ کائنات اور انسان کی اجتماعی اور سیاسی زندگی کو بدلنے کے لیے۔‘‘ (صفحہ 454)
زیر تبصرہ کتاب کو مصنف نے مقدمہ، پیش گفتار، مراجع اور انڈکس کے علاوہ 11 ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ کتاب کے پہلے باب ’’تصوف‘‘ میں مصنف نے صوفی اور تصوف کے اشتقاق کے بارے میں تفصیل سے بحث کی ہے، یہ لفظ کہاں سے لیا گیا اور تصوف کی ابتداء کیسے ہوئی، تصوف پر مختلف لوگوں کی آرا کو پیش کرنے کے بعد مصنف لکھتے ہیں :
’’اگر چہ یہ تمام تعریفیں جامع ہیں لیکن ہمارے نزدیک تصوف کی سب سے جامع تعریف یہ ہے:
’’ھو علم تعرف بہ احوال تزکیۃ النفوس و تصفیۃ الاخلاق و تعمیر الظاہر والباطن لنسیل السعادۃ الابدیۃ‘‘
ترجمہ : یہ وہ علم ہے جس سے سعادت ابدی کے حصول کی خاطر تزکیہ نفوس تصفیہ اخلاق اور ظاہر و باطن کی تعمیر﴿ یعنی اس کی اصلاح ﴾ کے احوال جانے جاتے ہیں۔
اس باب میں مصنف نے تصوف کی تاریخ اور ارتقاء بھی بیان کیا ہے؛ لکھتے ہیں: ’’جس طرح افلاطون کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ فلسفہ کو آسمان سے زمین پر لے آئے، اسی طرح شیخ ذوالنورین کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ تصوف کو آسمان سے زمین پر لے آئے شیخ ذوالنورین مصری نے احوال و مقامات کی ترتیب سے متعلق مصر میں سب سے پہلے لب کشائی کی جس پر انہیں زندیق کہا گیا، بغداد میں سب سے پہلے شیخ ابوحمزہ بغدادی نے صفا، ذکر، محبت، عشق اور انس کے بارے میں گفتگو کی، سب سے پہلے شیخ سری سقطی نے توحید، حقائق، اشارات پر زبان کھولی، فنا و بقا کے مسئلہ میں سب سے پہلے شیخ ابو سعید انحرار نے کلام کیا، تصوف کی تدوین سب سے پہلے شیخ جنید بغدادی نے کی اور سب سے پہلے اسے شیخ ابوبکر شبلی نے منبر پر بیان کیا، فنا اور وحدت الوجود کا اظہار سب سے پہلے بایزید بسطامی کی زبان سے ہوا، تصوف کی پہلی کتاب شیخ حارث محاسبیالرعایت فی الاخلاق والزھد نے لکھی اگرچہ اس سے پہلے زہد پر کئی کتابیں لکھی جا چکی تھیں، فارسی زبان میں تصوف پر سب سے پہلی مستند تصنف کشف المحجوب لکھی گئی جو شیخ علی ہجویری کی تصنیف ہے۔ ‘‘(صفحہ 63)اس باب میں مصنف نے بیعت ارادت، طریقہ بیعت، اصول بیعت پر اہل تصوف کی آراء پیش کی ہے اور سب کا جائزہ بھی لیا ہے، اصحاب صفہ جن سے صوفی حضرات اپنی نسبت باندھتے ہیں کی مختلف روایات کا بھی احسن طریقے سےڈاکٹر صاحب نے جائزہ لیا ہے، اور اصحاب صفہ کی صحیح تصویر بھی پیش کی ہے۔
کتاب کے دوسرے باب ’علم باطن‘ میں مصنف نے صوفیا کی طرف سے پیش کیے گئے ان دلائل کا جائزہ لیا ہے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ علم باطن الگ علم ہے۔ علم باطن کے بارے میں صوفیا کہتے ہیں: ’’یہ وہ علم نافع ہے جو بندہ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہے اور یہی ان دونوں کے درمیان واسط ہے۔‘‘(قوت قلوب) شیخ محی الدین ابن عربی کے حوالے سے مصنف لکھتے ہیں: ’’اہل ذوق اسے اللہ تعالیٰ سے حاصل کر لیتے ہیں، وہی ان کے معاملہ میں اپنی خاص رحمت اور مہربانی کے طور پر اس علم کو اپنے پاس سے اس کے سینوں میں ڈال دیتا ہے جیسا کہ اس نے اپنے بندہ خضر کے بارے میں بتایا ہے۔‘‘ (صفحہ 149)اس باب میں مصنف نے ان احادیث کا بھی جائزہ لیا ہے جو صوفی حضرات اپنے حق میں استعمال کرکے علم باطن کو الگ علم ثابت کرتے ہیں، صوفیا نے علم شریعت اور علم باطن کو الگ الگ علم قرار دیا ہے، مصنف لکھتے ہیں:’’علم لدنی اورعلم شریعت کاباہمی ربط پوری تاریخ اسلامیہ کے دوران موضوع بحث رہا ہے ۔ ایک طرف علماء شریعت کو صوفیا نے ہمیشہ علماء ظاہر کانام دے کر ان کی تحقیرکی ہے ۔ دوسری طرف بعض علماء شریعت نے علم لدنی کے حاملین کو ہر ہدف تنقید بنایا ہے علم لدنی کے حاملین اپنے آپ کو اعتراض سے بچانے کے لیے دعوی کرتے ہیں کہ علم باطن، علم شریعت سے کوئی مختلف چیز نہیں ہے لیکن اس دعوی کی حیثیت ویتی اور عارضی ہے اور صرف معترض کا منہ بند کرنے کے لیے اسے پیش کیاجاتا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ارباب حال کے یہاں طریقت کا معاملہ شریعت سے بالکل جداگانہ اور مختلف ہے اور دونوں میں تطبیق دینے کی کوئی صورت نظرنہیں آتی، نہ ہی چنداقوال کے مواد سے دونوں کے درمیان موجود وسیع خلیج کو پاٹا جاسکتا ہے۔‘‘ (صفحہ 157) ڈاکٹر صاحب قران کریم کی تعلیمات، احادیث پاک، آثار صحابہ سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ علم لدنی یا علم باطن رسول اللہ ﷺ نے کسی صحابی کو عطا نہیں کیا۔
اسلام میں تزکیہ نفس کی کافی اہمیت ہے، نفس کو قابو میں رکھنے میں دین میں جو طریقے بتائے گیے ہیں وہ فطرت کے عین مطابق ہے، اسلام ترک دنیا کا قائل نہیں ہاں یہ بات صحیح ہے کہ انسان کو دنیا کی محبت اس قدر غالب نہیں آنی چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور لوگوں کے حقوق چھوڑے۔ صوفیا کے ہاں زہد کے سلسلے میں ہمیں اعتدال نظر نہیں آتا وہاں حلال چیزوں سے بھی اجتناب کیا جاتا ہے، ڈاکٹر صاحب نے تیسرے باب ’’زہد و مجاہدہ‘‘ میں صوفیانہ تعبیر کا جائزہ لیا ہے۔
مصنف نے صوفیانہ مجاہدہ نفس کی تفصیل بھی بیان کی ہے اس سلسلے میں صوفیانہ تزکیہ، فاقہ کشی، قلت منام (کم سونا) اور قلت کلام (کم باتین کرنا) کی تفصیل پیش کی ہے اور جائزہ بھی لیا ہے۔ کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ صوفیا کے ہاں کس قدر بے اعتدالی پائی جاتی ہے، تکبر اور غرور نفس کو توڑنے کا امام غزالی کا نسخہ کچھ وقت بھیک مانگنے کا عمل بھی ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں: ’’امام غزالی کہتے ہیں کہ کچھ وقت تک بھیک مانگنے کا عمل جاری رکھا جائے تاکہ تکبر اور غرور نفس کا نام نہ رہے۔ اسی اصول کے تحت غصہ دور کرنے کے لیے ایسے انسان کی صحبت اختیار کرنی چاہیے جو بد خلق ہو۔‘‘ (صفحہ 261)صوفی حضرات کی سختی کے بارے میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں: ’’قرآن و حدیث اور سیرت نبوی ﷺ کے میزان عدل میں مجاہدہ نفس کے ان طریقوں کو تولا جائے جن پر صوفیا عمل پیرا رہے ہیں تو یقیناً مایوسی ہو گی‘‘ (صفحہ 278)
اسلام جس دین کی تعلیم دیتا ہے اس میں لوگوں کے ساتھ مل کر رہنے کی تلقین کی گئی ہے، وہاں نکاح کو بھی عبادت میں شامل کیا گیا ہے، یہاں خاندان کی تشکیل کا خوبصورت منظر ملتا ہے اس کے برعکس جو دین صوفیا پیش کرتے ہیں وہاں دنیا سے نفرت ملتی ہے، ترک نکاح کے اشارے ملتے ہیں۔ مصنف نے’’ تجرد‘‘ کے عنوان سے اسلام کی تعلیم پیش کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں :’’تجرد یا ترک نکاح کو تاریخ کے ہر دور میں رہبانیت کی علامت تسلیم کیا گیا ہے۔ بعثت نبوی سے پہلے عیسائی راہبوں میں اس کا چلن تھا، مسلمانوں میں جب دوسری صدی ہجری میں تصوف کی نشو ونما ہوئی تو ترک نکاح کوبھی مستحسن نظروں سے دیکھا جانے لگا۔ سواد اعظم نے عملاً کبھی اسے سند قبولیت تو نہیں دی لیکن مجرد اور تارک نکاح زاہدوں کوعزت واحترام کا مقام ضرور نصیب ہوا۔ ’’اس باب میں مصنف نے وحدت الوجود پر خوبصورت بحث کی ہے، قرآن کریم کی تعلیمات اور احادیث مبارکہ سے جو تعلیم ملتی ہے اس میں کسب معاش کو ایک فرض کے طور پر بتایا گیا ہے، یہاں creation of wealth کا تصور ملتا ہے، یہاں دینا والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے، اس کے برعکس جو تصور صوفیا نے پیش کیا ہے اس میں فقر (محتاجی) کا تصور ملتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کتاب کے پانچویں باب میں فقر کے صوفیانہ تصور اور قرآن و سنت کا تصور پیش کیا ہے۔ کتاب کے چھٹے باب کا عنوان ’’توکل‘‘ ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ صوفیا کے نزدیک توکل وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر ایک صوفی اسباب و علائق سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور وہ اللہ کی مرضی پر اپنے آپ کو چھوڑ دیتا ہے۔ رزق کی فکر اور تلاش معاش کا خیال اس کے دل سے یک لخت نکل جاتا ہے اور وہ اپنی کشتی حیات کو تقدیر کے حوالے کرتا ہے۔ (صفحہ 346) صوفیا کے نزدیک زاد راہ ساتھ لے کر چلنا بھی خلاف توکل ہے، اسی طرح مرض کا علاج کرنا بھی صوفیا کے یہاں خلاف توکل ہے، اسی طرح نامساعد حالات سے نکلنا بھی خلاف توکل ہے، حتی کہ صوفیا کے ہاں جنت اور جہنم میں تمیز کرنا یا جنت کی لالچ اور جہنم کے خوف کی بناء پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا توکل کے خلاف ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں: ’’صوفیہ نے جو توکل پیش کیا ہے وہ سراسر بے عملی ہے۔ اس سے قوم میں جمود و تعطل اور کاہلی پیدا ہوتی ہے ،چنانچہ ملت کا ایک طبقہ ایسا ہے جو کسب معاش کو ترک کرکے خانقاہوں میں بیٹھ کرفتوح اور نذرانوں پر گزر اوقات کرتا ہے، حالاں کہ یہ دست سوال پھیلانے کا ایک طریقہ ہے۔ شیخ ابوتراب اپنے ساتھیوں سے کہتے تھے کہ تم میں جس نے خرقہ پہن لیا اور خانقاہ یا مسجد میں بیٹھ گیا اس نے دست سوال دراز کیا۔ مشاہدہ شیخ کے اس قول کی پوری تصدیق کرتا ہے ۔ اہل حال کے نظریہ توکل نے مسلمانوں کے انکار کردار پرگہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ قرون اولیٰ کے مسلمان قضا و قدر پریقین کامل رکھتے تھے لیکن ان کی جدوجہد اور کوششوں نے انسانی تاریخ کا رخ پلٹ دیا۔یہی نہیں بلکہ خود ایک تاریخ تھے۔ وہ تقدیر اور توکل کے صحیح مفہوم سے واقف تھے ۔انہوں نے اپنے آپ کو اپنے گر دو پیش کو اپنے ماحول کو بدلنے کا تہیہ کیا، اس کے لیے جدوجہد کی اشتعالی نے ان کی مدد اور نصرت فرمائی ۔ وہ قرآن کی اس آیت سے پوری طرح واقف تھے۔ ‘‘ (صفحہ 386)
کتاب کے آٹھویں باب ’شطحات ‘ میں مصنف لکھتے ہیں:’’ ادب تصوف میں شطحات یا شطیحات (شطح کی جمع) ان خاص کلمات یا اقوال کو کہتے ہیں جو عالم سکر یا فنا یا ذوق و مستی کی حالت میں مغلوب الحال صوفی کی زبان سے نکلتے ہیں۔‘‘ (صفحہ 413) اس باب میں انہوں نے حسین بن منصور حلاج، شیخ با یزید بسطامی، ابو حسین نوری، ابو حمزہ بغدادی، ابوبکر واسطی، شیخ جنید بغدادی، ابو بکر شبلی، سہل بن عبداللہ تستری، ابوالحسن خرقانی ،شیخ محی الدین ابن عربی وغیرہ کے شطحات بیان کیے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ اتنے کبار علماء دین کیسے ایسے الفاظ کہتے تھے مثلا شیخ محی الدین ابن عربی کہتے ہیں: ’’میں اپنے رب سے دو سال چھوٹا ہوں‘‘ (صفحہ 429) اس باب میں انہوں نے حالت سکر کے بارے میں تفصیلی روشنی ڈالی ہے، دین اسلام سادہ دین ہے، انسانوں کی ہدایت کے لیے یہاں اللہ رب العزت نے پیغمبر بھیجے ، یہاں کوئی خفیہ نظام نہیں جو دنیا میں چلتا ہے، اس کے برعکس صوفیا کے ہاں ایسا تصور ملتا ہے جس کے مطابق دنیا کا نظام اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے چلاتے ہیں، جنہیں رجال الغیب کا نام دیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق دنیا کو چلانے کے لیے قطب، غوث، ابدال، وغیرہ ہوتے ہیں۔ کتاب کے نویں باب میں ڈاکٹر صاحب نے ’’رجال الغیب‘‘ کے تصور کا قرآن و سنت کی روشنی میں جائزہ لیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس باب کے اختتام پر لکھتے ہیں: ’’خلاصہ بحث یہ ہے کہ اسلام رجال الغیب کے نظری کی کوئی اصلیت نہیں ہے۔ آنحضرت ﷺ سے اس بارے میں کوئی صحیح حدیث مروی نہیں ہے۔ صحابہ سے کوئی اثر صحت کے ساتھ منقول نہیں ہے۔ تابعین اس معاملہ میں خاموش ہیں۔ یہ نظریہ ’’ قرون ثلاثہ مشہود لہا بالخیر ‘‘ کے بعد کی پیداوار ہے۔ زمانہ ساتھ رجال الغیب کے اسماء ومناصب، اماکن و اساکن اور تعداد سے متعلق عجیب و غریب باتیں لوگوں میں پھیل گئی ہیں۔‘‘ (صفحہ 482)
بقیہ سلسلہ صفحہ نمبر۔12
اپنی فکر کو ثابت کرنے کے لیے صوفیا نے احادیث کا سہارا لیا ہے، مصنف نے کتاب کے دسویں باب میں’’ صوفیہ اور علم حدیث‘‘ کے عنوان سے ان روایات کا جائزہ لیا ہے، مصنف نے اس باب میں پہلے صوفی حضرات سے منسلک تفاسیر کا جائزہ لیا ہے، اس کے بعد انہوں نے ان کتابوں کا جائزہ لیا ہے جو صوفیا نے لکھی ہیں۔ علماء کبار کی ان کتابوں کی بارے میں رائے بھی لکھی ہے، اس کے بعد صوفیا اور وضع احادیث کے عنوان کے تحت مصنف نے حدیث کے بارے میں صوفیا کی بے احتیاطی کا جائزہ لیا ہے۔ مصنف لکھتے ہیں: ’’صوفیا کو علم حدیث میں حجت کا درجہ حاصل نہیں ہے۔ اس لیے صوفیا کی کتابوں ملفوظات و مکتوبات میں منقول احادیث کو اسی وقت قبول کرنا چاہیے جب کبار محدثین نے انہیں قبول کیا ہو۔ ان لوگوں کے کہنے سے کوئی قول حدیث ثابت نہیں ہوگی ، اگر احادیث کو صوفیا، مورخین، ادباء اور شعراء سے اخذ کیا جائے تو شریعت کا وقار جاتا رہے گا۔ اصول اور قاعدہ یہ ہے کہ ہر فن میں صاحب فن ہی حجت ہوتے ہیں، اور یہی فن حدیث کا حال ہے۔‘‘ (صفحہ 541)
کتاب کے آخری باب ’’ہنرش نیربگو‘‘ میں مصنف نے تصوف اور صوفیا کے مثبت پہلو بیان کیا ہے، اس سلسلے میں مصنف نے صوفیا کی خدمات بیان کی ہے، اس باب کا لکھنے کا مقصد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اثناے تحریر مصنف کو یہ احساس برابر دامن گیر رہا ہے کہ کتاب کی نہج سے قاری کے ذہن پر ایسا منفی تاثر قائم ہونے کا احتمال ہے جس کے زیراثر وہ کہیں تصوف کو یکسر مسترد کر کے ان جواہر ریزوں سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے جو تصوف کے دفتروں میں پنہاں ہیں۔ اس احساس کے پس پردہ یہ حقیقت کارفرماہے کہ بےاعتدالیوں کے با وجود تصوف مسلم تہذیب و ثقافت کا درخشنده باب ہے اور اس کے بعض حصے قرآن وسنت سے ماخوذ ہیں۔ تصوف کے ان روشن پہلوؤں کا جو قرآن و سنت سے ہم آہنگ ہیں، جائزہ لینے کے لیے ایک مستقل اور جداگانہ کتاب در کار ہے۔ میزان عدل کے توازن کے قیام کے لیے ہم مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر صرف چند پہلوؤں کا ذکر کر یں گے۔ ‘‘(صفحہ 543)مراجع کے تحت ڈاکٹر صاحب نے عربی، اردو، اور انگریزی کے سیکڑوں کتابوں کی فہرست دی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتاب لکھنے میں ڈاکٹر غلام قادر لون صاحب نے کس عرق ریزی سے کام لیا ہے۔ اس پایے کی علمی اور تحقیقی کتاب انڈکس کا تقاضا کرتی تھی۔ کتاب کے آخر میں مصنف نے انڈکس دیا ہے۔یہ کتاب پاکستان اور ہندوستان دونوں جگہ شائع ہوئی ہے۔ ہندوستان میں یہ کتاب مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز دہلی نے اعلیٰ معیار سے شائع کی ہے۔ قیمت 340 روپے ہے جوکہ مناسب ہے۔
مبصر سے رابطہ: 9906653927
***

 

***

 ’’ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ مقبولیت کے باوجود تصوف کی حیثیت ہر عہد میں متنازعہ رہی ہے، علماء اسلام کا ایک طبقہ جہاں تصوف کو اسلام کی روح اور مغز سے تعبیر کرتا ہے وہیں دوسرا اسے غیر اسلامی رہبانیت قرار دے کر مسترد کردیتا ہے۔ ‘‘(صفحہ9)


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 ڈسمبر تا 17 ڈسمبر 2022