مسلم ممالک اور عالمی تنظیمیں ہوش کے ناخن لیں
ابھی بھی وقت ہے فلسطین کے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں ۔جنگ کاعارضی وقفہ مستقل ہو
ندیم خان،بارہمولہ کشمیر
طوفان الاقصیٰ کے سبب اسرائیل کی معاشی حالت دن بہ دن روبہ زوال
غزہ پٹی پر گزشتہ پچاس دنوں سے مسلسل جاری وحشیانہ بمباری میں جو ’وقفہ‘ ہوا تھا اس کا اصل کریڈٹ مسلم یا عرب ملکوں کی کسی تنظیم کو نہیں ملے گا۔ مزید لکھنے سے قبل یہ وضاحت ضروری ہے کہ میں نے جان بوجھ کر ’جنگ بندی‘ کی ترکیب استعمال نہیں کی کیونکہ ’جنگ بندی‘ میدان جنگ میں متحرک دو فریقوں کے مابین ہوتی ہے مگر 8؍ اکتوبر سے غزہ کی پٹی تک محدود ہونے والے فلسطینیوں کے خلاف یک طرفہ کارروائی ہو رہی ہے۔ اس سے ایک دن قبل صیہونی بستیوں پر ہونے والے حملوں نے اسرائیل کی حکومت کو بوکھلا دیا تھا۔ آتش انتقام سے مغلوب ہوکر اس کے جہاز غزہ پر اندھا دھند بمباری میں مصروف ہوگئے۔ آسمان سے مسلسل برستے شعلوں نے پندرہ ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا۔ ان میں سے اکثریت خواتین اور بچوں پر مشتمل تھی۔ نو ہزار سے زائد خواتین اور بچے کسی بھی صورت ’میدان جنگ میں متحرک‘ فریق شمار نہیں ہو سکتے مگر اسرائیل انہیں بھی صفحۂ ہستی سے مٹانے پر مصر رہا۔ انسانی جانوں کی ایسی سفاکانہ بے حرمتی جدید دور میں کسی جنگ کے دوران کبھی دیکھنے کو نہیں ملی۔ مفتوحہ یا مقبوضہ علاقوں کو انسانوں سے ’پاک‘ کر دینا دورِ بربریت سے مختص کیا جاتا رہا ہے۔ اسرائیل اسی دور میں ڈھٹائی سے لوٹنے میں مصروف رہا اور دورِ حاضر میں ’عالمی ضمیر‘ نامی شے اس کا ہاتھ روکنے کے لیے متحرک نہیں ہوئی۔
عالمی ادارے اور رہنما یہ بتائیں کہ کیا اسرائیل کے کچھ روز قبل جنگ روکنے کے عارضی اعلان سے فلسطین میں ہونے والے نقصان کی تلافی ہو گئی؟ کیا ہزاروں کی تعداد میں مارے گئے فلسطینیوں کی کوئی حیثیت نہیں تھی؟
اس کے علاوہ جو نقصانات ہوئے ان کا کیا ہوگا؟ ان کا ازالہ کون کرے گا یا صرف جنگ بندی کا اعلان ہی ہر زخم کا مرہم تھا؟ اس سے قبل بھی کئی بار اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا اور پھر جنگ روک دی گئی۔ پھر جب دوبارہ ان کا جی چاہتا ہے تو وہ اسی طرح عوام پر بمباری شروع کردیتے ہیں، انہیں کوئی پوچھنے والا جو نہیں ہے۔
اگر کوئی اسلامی ملک اپنے دفاع کے لیے ہتھیار بنائے یا خریدے تو اسے طرح طرح کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اسرائیل ہتھیار بنائے، فروخت کرے، نہتے شہریوں کا قتل عام کرے، اسے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ اب تو عالمی برادری کو ترس کھا لینا چاہیے۔ ایک ایک مقام پر پڑی سینکڑوں کی تعداد میں لاشیں بھی عالمی رہنماؤں کا ضمیر نہیں جھنجھوڑ سکیں۔ فلسطین میں معصوم بچوں کا قتل عام ہوا اس پر بھی کسی سورما کا دل نہیں پگھلا، کیونکہ وہ امریکا یا برطانیہ سے تعلق تو نہیں رکھتے تھے کہ عالمی ادارے ان پر ترس کھا کر انہیں بچانے کی کوشش کرتے۔ وہ تو فلسطین کے مسلمان بچے ہیں، جن کی دنیا میں کوئی حیثیت ہی نہیں۔ ان کی اس حالت کو دیکھ کر عالمی برادری کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور مسئلہ فلسطین کا مستقل حل نکالنا چاہیے۔
مئی 2021 میں بھی اسرائیل نے نہتے فلسطینیوں کا لہو بہانے کے بعد جنگ بندی کا اعلان کیا تھا، جس پر فلسطینیوں نے جشن منایا اور اسرائیل نے جشن منانے والے شہریوں پر ہی حملہ کر کے یہ ثابت کر دیا کہ اس کے کسی اعلان یا معاہدے پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔ 2008ء میں مصر کی ثالثی سے غزہ پٹی پر اسرائیلی حملوں کے بعد چھ ماہ کے لیے جنگ بندی ہوئی تھی جو 19؍ جولائی کو نافذ ہوئی، اس جنگ بندی میں غزہ پر فوجی اور اقتصادی محاصرے میں نرمی اور تمام سرحدی گزرگاہوں کو کھولنے کی شقیں بھی شامل تھیں مگر یہ جنگ بندی صرف ایک ماہ بعد اگست میں ہی اس وقت ختم ہوگئی جب اسرائیل نے ساحلی پٹی پر بڑے پیمانے پر زمینی حملہ کر دیا۔ 2012ء میں غزہ پر آٹھ دن کی شدید اسرائیلی بمباری کے بعد امریکہ اور مصر کی ثالثی سے ایک معاہدہ طے پایا جس میں طویل مدت تک کی جنگ بندی کے علاوہ غزہ میں انسانی امداد پہنچانے اور کراسنگز کھولنے پر اتفاق کیا گیا؛ لیکن یہ جنگ بندی اس وقت ناکام ہو گئی تھی جب تل ابیب نے معاہدے کے ثالث مصر پر حماس کا ساتھ دینے کا الزام لگایا۔ 2014ء میں غزہ میں پچاس دنوں تک جاری رہنے والی جنگ اور دو ہزار سے زیادہ انسانی جانوں کے ضیاع کے بعد ایک جنگ بندی کا معاہدہ ہوا اور اس میں بھی جنگ بندی‘ انسانی امداد اور تعمیرِ نو کے سامان کی نقل و حمل کے لیے کراسنگز کھولنے کی شرط پر رکھی گئی مگر یہ معاہدہ بھی ناکام ہو گیا اور اس کی ناکامی کی ذمہ داری اسرائیل اور حماس ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اسرائیلی معیشت کو بھی اس جارحیت کا شدید نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ساٹھ کروڑ ڈالر روزانہ ‘اسرائیلی کرنسی ڈی ویلیو ہو چکی ہے‘ بے روزگاری میں شدید اضافہ ہو رہا ہے قرضوں کا حجم بڑھ گیا ہے۔ چار لاکھ سے زائد افراد بے روز گار ہو چکے ہیں۔ حماس کو چند روز میں نیست و نابود کرنے کا اسرائیلی خواب چکنا چور ہوگیا ہے اور اسے ایسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔اسرائیل کے سب سے بڑے سرپرست امریکہ کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے کہ اس کے بغیر پائیدار امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ عالمِ اسلام پر لازم ہے کہ امریکہ پر اپنے سفارتی دباؤ میں اضافہ کرے۔ امریکی رائے عامہ میں جو تحرک پیدا ہوا ہے، وہ بھی اُمید کی کرن دکھلاتا ہے۔ انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کا امریکہ اپنے آپ کو چیمپئن سمجھتا ہے۔ دنیا بھر میں اس نے جو بھی تنازعات کھڑے کیے ہیں ان کا جواز جمہوریت اور شہری آزادیوں کو بنایا ہے۔گزشتہ دو تین دہائیوں کے دوران اس نے کئی ممالک کو جمہوریت کے نام پر تہہ و بالا کیا ہے۔ عراق شام اور لیبیا میں جو قیامتیں برپا کی گئی ہیں ان میں انسانی حقوق کی آڑ ہی لی گئی ہے لیکن اب جبکہ اسرائیلی جارحیت ننگی ہو کر ناچ رہی ہے دنیا بھر میں کہرام مچا ہوا ہے تو امریکہ کو اسرائیل کے حقِ دفاع کی پڑی ہوئی ہے، اس کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل حماس کے خلاف اپنا دفاع کر رہا ہے۔ اس بار اسرائیل نے فلسطینی مسلمانوں پر جس قدر ظلم ڈھایا ہے تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی اور امت مسلمہ نے جس قدر بے حسی کا ثبوت دیا ہے تاریخ میں اس کی بھی مثال نہیں ملتی۔ یہ امت مسلمہ کے عیاش حکم رانوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے جسے محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔ کم از کم اب ہی متحد ہو جائیں اور مسئلہ فلسطین کا کوئی حل نکالیں کیونکہ عالمی طاقتیں فلسطین کو مکمل طور پر اسرائیل میں ضم کرنا چاہتی ہیں اور اس ریاست کا نام و نشان مٹا دینا چاہتی ہیں۔ جس کا واضح مقصد اسرائیل کو عرب ممالک کے درمیان ایک طاقتور ریاست بنا کر مسلمانوں کو مزید کم زور کرنا ہے۔ لہٰذا مسلم ممالک کے سربراہان وقت اور حالات کی نزاکت کو سمجھیں اور اپنی عیاشیوں اور بدمستیوں سے باہر نکل کر کچھ دیر کے لیے امت مسلمہ کے مستقبل کی فکر بھی کر لیں کہ یہ قوم کس طرف جا رہی ہے اور اسے کس گڑھے کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ اس کے لیے ایک بھرپور تحریک چلائیں، او آئی سی کو بھی متحرک کریں اور اسے اس کا مقصد یاد دلائیں اور اس کے پرچم تلے اکٹھے ہوکر ایک مشترکہ حکمت عملی اپنائیں۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے ساتھ ساتھ بڑے ممالک جو اسرائیل کی پشت پناہی کر رہے ہیں، ان پر دباؤ ڈالیں کہ اسرائیل کو ناپاک عزائم سے باز رکھتے ہوئے فلسطین کو مکمل طور پر آزادی اور خود مختاری دلائیں۔ اس تحریک کی کامیابی کے بعد نہ صرف فلسطین بلکہ پوری امت مسلمہ کے وقار میں اضافہ ہوگا اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے تحفظ کا ایک راستہ میسر آجائے گا اور ساتھ ہی اسلامی ممالک اس کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں اور مل جل کر اس مسئلے پر ایک لائحہ عمل ترتیب دیں اور مشترکہ طور پر اقوام متحدہ پر دباؤ ڈالیں کہ وہ فلسطین کے مسئلے کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرائے اور فلسطینیوں کو آزادی دلا کر ایک آزاد و خودمختار ریاست بنانے میں ان کی مدد کرے۔ اپنے امن دستے فلسطین میں تعینات کرے جن میں اسلامی ممالک کے فوجیوں کی تعداد زیادہ ہو، جو وہاں کے تباہ حال شہریوں کی بحالی کا انتظام کریں۔ ان کی رہائش، کھانے اور علاج معالجے کا خیال رکھیں اور اسرائیل کو دوبارہ حملہ کرنے سے باز رکھیں۔
***
یہ بھی حقیقت ہے کہ اسرائیلی معیشت کو بھی اس جارحیت کا شدید نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ساٹھ کروڑ ڈالر روزانہ ‘اسرائیلی کرنسی ڈی ویلیو ہو چکی ہے’ بے روزگاری میں شدید اضافہ ہو رہا ہے قرضوں کا حجم بڑھ گیا ہے۔ چار لاکھ سے زائد افراد بے روز گار ہو چکے ہیں۔ حماس کو چند روز میں نیست و نابود کرنے کا اسرائیلی خواب چکنا چور ہوگیا ہے اور اسے ایسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔اسرائیل کے سب سے بڑے سرپرست امریکہ کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے کہ اس کے بغیر پائیدار امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 دسمبر تا 9 دسمبر 2023