ملک میں وقف املاک کی لوٹ کھسوٹ پر لگام کسی جائے

وقف املاک کے تحفظ کے لئے وقف بورڈ اور متولیوں کے درمیان ایماندارانہ تال میل کی ضرورت

شبانہ جاوید، کولکاتا

وقف املاک کی سی بی آئی انکوائری کا وعدہ پورا کرنے میں ممتا حکومت ناکام
بھارت کے مسلمانوں کا ذکر آتا ہے تو ان گنت مسائل دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ملک کی دوسری بڑی اکثریت ہزاروں مسائلِ میں گھری ہوئی نظر آتی ہے۔ تعلیمی پسماندگی اور معاشی پسماندگی ایسے بڑے مسائل ہیں جو برسوں سے مسلمانوں کے ساتھ مسلسل جڑے ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ ایک اہم مسئلہ اوقاف کا بھی ہے۔ ملک بھر میں لاکھوں کی تعداد میں وقف جائیدادیں ہیں لیکن مسلم طبقہ اس کا فائدہ اٹھانے میں بری طرح ناکام ہے۔ ملک کی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں مغربی بنگال میں اوقاف کی جائیدادوں کی ہیرا پھیری کے کئی معاملے سامنے  آئے ہیں جن پر ایف آئی آر بھی درج کرائی گئی اور گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں لیکن آج تک حل نہیں نکلا۔
آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر کیوں ملک میں وقف کے مسائل حل نہیں ہوسکے اور کیا ہے یہ وقف کی جائیدادیں جن سے مسلمانوں کو ایک بڑا فائدہ مل سکتا تھا جو اب تک نہیں مل پایا۔ دو طرح کی جائیدادوں کو وقف کیا جاتا ہے، ایک وقف للّٰلہ اور ایک وقف للاولاد۔ وقف للّٰلہ جس میں لوگ مساجد و مدارس کے لیے اپنی جائیدادیں وقف کرتے ہیں جبکہ دوسرا وقف للاولاد جس میں لوگ اپنے گھر والوں کو ان جائیدادوں کا سربراہ بناتے ہیں اور اس کی آمدنی کا بڑا حصہ مسلمانوں کے فلاحی کاموں کے لیے وقف کیا جاتا ہے اور جنہیں جائیدادوں کا سربراہ مقرر کیا جاتا ہے وہ متولی ہوتے ہیں جو وقف بورڈ کے ساتھ مل کر ان جائیدادوں کی دیکھ ریکھ کرتے ہیں۔ ہمارے آباء واجداد نے بڑی جائیدادیں وقف کی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہر ریاست میں علیحدہ وقف بورڈ قائم ہے جو متولی کے ساتھ مل کر ان جائیدادوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں لیکن صاف ستھرا نظام ہونے کے باوجود وقت بورڈ ہمیشہ تنازع کا شکار رہا ہے، یہ الزام بھی لگتا رہا ہے کہ وقف کی جائیدادوں کو فروخت کردیا جاتا ہے۔ ملک بھر میں ایسی کئی اہم وقف املاک ہیں   جنہیں فروخت کر دیا گیا یعنی ان جائیدادوں کا جو فائدہ مسلم طبقےکو پہنچ سکتا تھا وہ نہیں پہنچ پایا۔ ایسی ہزاروں جائیدادیں ہیں جو فروخت کردی گئیں۔
بنگال میں پچھلے دنوں اسی طرح کا ایک معاملہ سامنے آیا جس میں ایف آئی آر بھی درج کرائی گئی تھی اور گرفتاری بھی ہوئی۔یو پی اے دور اقتدار میں مسلمانوں کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے بنائی گئی سچر کمیٹی رپورٹ میں بھی وقف املاک میں ہوئی بدعنوانی کو ایک بڑا معاملہ بتایا گیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ سچر کمیٹی نے اپنی سفارشات میں وقف املاک کے تحفظ کے لیے کمیٹی بنائے جانے کی صلاح دی تھی۔ بنگال میں بائیں بازو کے دور اقتدار میں ہی وقف املاک میں خرد برد کا الزام لگتا رہا ہے۔ ممتا بنرجی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ہی کئی اہم اعلانات میں ایک اہم اعلان وقف املاک کو لے کر بھی کیا تھا۔ وزیر اعلی ممتا بنرجی نے کہا تھا کہ بنگال میں وقف املاک کی سی بی آئی انکوائری کرائی جائے گی۔ وزیر اعلی کے اس بیان کو کافی پسند کیا گیا تھا لیکن تیسری بار حکومت بنانے کے باوجود اب تک وقف املاک کے بارے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا
وقف بورڈ کی جانب سے سروے کرائے جانے کی بات کہی گئی لیکن آج بھی یہ معاملہ  جہاں کا وہیں  ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کئی سرکاری عمارتوں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ وقف کی زمینوں پر قائم بنی ہیں لیکن اس تعلق سے ابھی تک کوئی چھان نہیں کی گئی ہے، ساتھ ہی کئی ایسی اہم عمارتیں بھی ہیں جن کا کرایہ کافی کم ہے۔ وقف بورڈ اپنی آمدنی سے کئی اسکیمیں مسلمانوں کے لیے  چلاتا ہے جن میں بیواؤں کی پینشن غریب مسلم طلباء کو اسکالرشپ دیے جانے کی اسکیمیں شامل ہیں۔ بنگال وقف بورڈ کی جانب سے پچھلے دو برسوں سے طلبا کو دی جانے والی اسکالرشپ بھی بند ہے حالانکہ موجودہ وقف بورڈ نے اماموں اور مؤذنوں کے بچوں کو اسکالرشپ دیے جانے کا اعلان کیا تھا لیکن بیواؤں کے لیے پینشن اسکیم بند کر دی گئی ہے۔ وقف بورڈ میں ہمیشہ آمدنی میں کمی کے مسائل زیر بحث رہتے ہیں لیکن اس کو کس طرح سے بڑھایا جائے اور کس طرح بہتر آمدنی کے ذرائع قائم کیے جائیں اس تعلق سے بورڈ کوئی بڑا اقدام کرنے سے قاصر ہے۔ آل انڈیا متولی ایسوسی ایشن کے صدر عرفان شیر نے وقف املاک کے تحفظ کے لیے نہ صرف وقف بورڈ بلکہ متولیوں کو بھی ایماندارانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ میں ہونے والی بدعنوانی کے ساتھ ساتھ کئی وقف جائیدادوں کے متولی بھی وقف جائیدادوں کے لوٹ کھسوٹ میں ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپنے آبا و اجداد کے مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے ایمان داری کے ساتھ وقف املاک کی حفاظت کے لیے مسلمانوں کو ہی آگے آنا ہوگا تاکہ جس مقصد کے لیے جائیدادیں وقف کی گئی ہیں اس کو پورا کیا جا سکے۔ بنگال میں مسلمان کافی پسماندہ ہیں۔ ایسے میں وقف بورڈ کے ذریعہ مسلمانوں کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جاسکتے تھے لیکن بورڈ اس طرح کے اقدامات کرنے سے قاصر ہے۔ آل انڈیا متولی ایسوسی ایشن کے صدر نے حکومت کی جانب سے وقف بورڈ کمیٹی میں شامل کیے جانے والے ممبران کی کارکردگی کو بھی افسوسناک بتاتے ہوئے کہا کہ دیگر اداروں کے مقابلے میں وقف بورڈ کے تئیں لوگوں میں بیداری لانے کی ضرورت ہے۔ عرفان شیر نے سروے کے لیے بھی بنگال وقف بورڈ کے رویے کو افسوسناک بتایا۔ انہوں نے کہا کہ سروے کے تعلق سے بورڈ آر ٹی آئی کا جواب دینے سے بھی قاصر ہے۔ وہیں بنگال وقف بورڈ کے چیرمین جسٹس عبدالغنی نے کہا کہ بورڈ کے ممبروں کے تعلق سے شکایتیں ملتی رہی ہیں لیکن وہ بورڈ کی آمدنی میں اضافے کے لیے کام کر رہے ہیں تاکہ بورڈ مسلمانوں کے تعلیمی مسائل کے حل کے لیے کام کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ بنگال وقف بورڈ ریاست میںlaw college قائم کرنا چاہتا ہے۔ وہیں  سماجی کارکن قمرالزماں نے بنگال وقف بورڈ کے رویے کو افسوسناک بتاتے ہوئے کہا کہ بورڈ وقف املاک کے تحفظ میں ناکام ہے۔ انہوں نے وزیر اعلی ممتا بنرجی کی جانب سے وقف املاک کے سی بی آئی انکوائری کے وعدے کو سیاسی وعدہ بتاتے ہوئے کہا کہ وقف بدعنوانی معاملے میں کئی سیاسی لیڈروں کے نام سامنے آنے کا خدشہ ہے جس کی وجہ سے سی بی آئی انکوائری کا وعدہ پورا نہیں ہو سکا ہے۔
ملک میں وقف املاک کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ بورڈ اور متولیوں کے درمیان تال میل کا اصول ایمان دارانہ اور شفاف ہو اور اس اہم مسئلے کو نہ صرف حل کیا جائے بلکہ وقف کے منشاء اور مسلمانوں کی بدحالی کو دور کیا جا سکے۔
***

 

***

 ملک میں وقف املاک کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ بورڈ اور متولیوں کے درمیان تال میل کا اصول ایمان دارانہ اور شفاف ہو اور اس اہم مسئلے کو نہ صرف حل کیا جائے بلکہ وقف کے منشاء اور مسلمانوں کی بدحالی کو دور کیا جا سکے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 نومبر تا 11 نومبر 2023