غزہ۔۔۔! لرزتا دہکتا آگ کا گولا

فلسطینی ’ نکبہ‘ دوم کا حصہ بننے کو تیار نہیں

مسعود ابدالی

ہم اسی گلی کی ہیں خاک سے یہیں خاک اپنی ملائیں گے
حملوں کے آغاز ہی سے جو حکمت عملی اختیار کی گئی ہے اسے اگر نیتن یاہو کے اعلان کردہ ’جنگ آزادی‘ کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ فلسطین کے مکمل خاتمے کا منصوبہ نظر آرہا ہے۔ 1948 میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد سے فلسطین، اقوام متحدہ کی قرادادوں اور پناہ گزیں کیمپوں تک محدود ہے لیکن اسرائیلی قیادت اس رسمی اور نامی حیثیت کو بھی ختم کر دینے پر تُلی نظر آرہی ہے۔
جمعہ 27؍ اکتوبر کی شام سے اسرائیل نے غزہ پر خوفناک بری حملے کا آغاز کر دیا ہے۔ اس سے پہلے چہارشنبہ اور جمعرات کو داخلے کی محدود کارروائی کی گئی جسے اہل غزہ نے پسپا کر دیا۔ اس شب خون میں اسرائیل کے کئی ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں تباہ ہوئیں اور ایک فوجی بھی مارا گیا۔ بری حملے سے پہلے یہودی علما نے ہنگامی صورتحال کا حیلہ اختیار کرتے ہوئے سبت کی پابندیاں معطل کر دیں۔
حملے کا آغاز غزہ کی پوری پٹی پر فاسفورس بموں کی بارش سے ہوا۔ سفید فاسفورس سے پھوٹنے والی چنگاریوں کی حدت 800 ڈگری سینٹی گریڈ کے قریب ہوتی ہیں، چنانچہ چند ہی گھنٹوں میں سارا غزہ دہک اٹھا۔ اقوام متحدہ نے سفید فاسفورس کو ممنوعہ ہتھیاروں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ امریکہ بہادر نے بھی اسے افغانستان میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا تھا۔
اسی کے ساتھ بمباروں اور ڈرونوں نے غزہ پٹی کے ایک ایک انچ کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔ تینوں جانب سے توپ خانے اور ٹینکوں نے مہلک ترین گولے برسائے اور بحر روم سے اسرائیلی بحریہ نے خشکی پر مار کرنے والے میزائیل داغے۔ یہ کارروائی تادم تحریر یعنی 30؍ اکتوبر تک جاری ہے۔ غزہ کی سرحد پر کھڑے فاکس نیوز کی ایک صحافی نے کہا ’ایسا لگ رہا ہے گویا سارا غزہ شعلوں اور زمین زلزلے کی لپیٹ میں ہے‘۔ غزہ میں پھٹنے والے بم و میزائیل اور بارودی گولوں کے دھماکوں سے شام، صحرائے سینائی اور لبنان کے بڑے علاقے گونج رہے ہیں لیکن مسلم اکثریتی ممالک سمیت ’مہذب‘ دنیا کے کانوں میں خوف و مفادات کا سیسہ اس قدر گہرائی تک اتر چکا ہے کہ انہیں کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا ہے۔ ادھر امریکی شعبہ قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے اسرائیل کی بری مہم کے لیے مکمل تعاون کا عزم اور کامیابی کے لیے نیک تمناوں کا اظہار کیا ہے۔ اس سے پہلے واشنگٹن میں آسٹریلوی وزیر اعظم کے ہمراہ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا ’غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں مجھے یقین نہیں ہے کہ فلسطینی سچ بول رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ غزہ میں بے گناہ مارے گئے ہیں اور یہ جنگ چھیڑنے کی قیمت ہے‘۔
بری حملے کا اعلان اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو المعروف بی بی نے کیا۔ قومی یکجہتی کے لیے ان کی اخباری کانفرنس میں حزب اختلاف کے رہنما اور اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ بینی گینٹز (Benn Gantz) بھی موجود تھے۔ اس موقع پر وزیر دفاع یاوو گیلینٹ (Yoav Gallant) نے تکبر سے چور لہجے میں کہا ’ہم نے سرزمینِ غزہ پر لرزہ طاری کر دیا ہے۔ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے نیتن یاہو نے کہا کہ ہم حماس کے خلاف نہیں بلکہ وحشت و بربریت کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں جس سے جدید تہذیب کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے حماس کے خلاف جنگ کو ’جنگ آزادی‘ سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ بری جنگ طویل، تکلیف دہ اور مشکل ہو سکتی ہے۔ یہ جنگ ہم یقیناً جیتیں گے لیکن قوم کو قربانی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
بری حملے کے 48 گھنٹے مکمل ہونے پر معروف عسکری تجزیہ نگار زوران کوسووچ (Zoran Kosovac) نے کہا Israel’s ground attacks yield lots of bang, little success یعنی ’اسرائیلی زمینی حملہ: دھماکہ زور دار لیکن کامیابی چھوٹی سی‘ (حوالہ: الجزیرہ)
حملوں کے آغاز ہی سے جو حکمت عملی اختیار کی گئی ہے اسے اگر نیتن یاہو کے اعلان کردہ ’جنگ آزادی‘ کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ فلسطین کے مکمل خاتمے کا منصوبہ نظر آرہا ہے۔ 1948 میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد سے فلسطین، اقوام متحدہ کی قرادادوں اور پناہ گزیں کیمپوں تک محدود ہے لیکن اسرائیلی قیادت اس رسمی اور نامی حیثیت کو بھی ختم کر دینے پر تُلی نظر آرہی ہے۔
7؍ اکتوبر کو فضائی حملے کے آغاز پر شہری آبادی کی جنوبی سمت نقل مکانی کے لیے اسرائیلی وزیر دفاع نے اقوام متحدہ کو دو دن کی مہلت دی تھی لیکن اہل غزہ نے یہ حکم ماننے سے صاف انکار کردیا۔ شمالی غزہ کی ایک زخمی خاتون ام محتشم العلامی نے امریکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز سے باتیں کرتے ہوئے کہا ’میرے پاس کھونے کے لیے اب جان کے سوا کچھ نہیں بچا۔ ہم ایک انچ اِدھر اُدھر نہیں جائیں گے۔ اگر ہمارے سارے مرد مارے گئے تو ہم عورتیں لڑیں گی۔ میں زخمی ہوں لیکن خوفزدہ نہیں۔ اگر کچھ نہ رہا تو ہم اپنے ناخن چبھو کر دشمن کو مار بھگائیں گے‘۔
اسرائیل کی خواہش ہے کہ جنوب کی جانب دھکیلتے ہوئے تمام کی تمام فلسطینی آبادی کو مصر کے زیر انتظام صحرائے سینائی کی طرف ہنکا دیا جائے۔ برما میں کچھ ایسا ہی ہوا تھا کہ قتل عام کے بعد جو سخت اراکان زندہ رہ گئے انہیں رگید کر بنگلہ دیش پہنچا دیا گیا۔
غزہ والوں کی جنوب کی جانب منتقلی کے خلاف شدید مزاحمت کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ النکبہ یا قومی سانحہ نامی یہ ڈکیتی اتنی مشہور ہے کہ اہلِ غزہ ہر سال 15 مئی کو ’ذکری النکبہ‘ (آفت کا یاد) مناتے ہیں۔ اس عظیم سانحے پر چند سطور سے قارئین کو یہ معاملہ سمجھنے میں مدد ملے گی۔ اس ظلم عظیم کی داستان پرانی ہے۔ اختصار کے ساتھ ہم یہ ذکر ارض مقدس پر تاج برطانیہ کے دورِ نامسعود سے شروع کرتے ہیں۔
29؍ ستمبر 1947کو اقوام متحدہ نے فلسطین پر تاجِ برطانیہ کے قبضے کو ملکیتی حقوق عطا کر دیے جس کے بعد برطانیہ نے دو قومی نظریے کے مطابق فلسطین کو عرب اور یہودی علاقوں میں بانٹ دیا۔ تقسیم میں ویسا ہی ’انصاف‘ کیا گیا جو تاجِ برطانیہ کا طرہ امتیاز رہا ہے، یعنی آبادی کے لحاظ سے 32 فیصد یہودیوں کو فلسطین کا 56 فیصد علاقہ بخش دیا گیا جس پر اسرائیلی ریاست قائم ہوئی۔ فلسطینیوں کو اپنی ہی ریاست کی 42 فیصد زمین عطا ہوئی۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے مقام پیدائش بیت اللحم سمیت سارا بیت المقدس مشترکہ اثاثہ یاCorpus Separatum قرار پایا۔ نو زائیدہ اسرائیلی ریاست کے یہودی باشندوں کی تعداد پانچ لاکھ اور عرب آبادی 4 لاکھ 38 ہزار تھی، دوسری طرف فلسطین میں 10 ہزار یہودی اور 8 لاکھ 18 ہزار عرب آباد تھے۔ ایک لاکھ آبادی والے بیت المقدس میں مسلمانوں، مسیحیوں اور یہودیوں کی تعداد تقریباً برابر برابر تھی۔
تقسیم کا اعلان ہوتے ہی اسرائیلیوں نے جشن آزادی کے جلوس نکالے اور ان مسلح مظاہرین نے عرب علاقوں پر حملے کیے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد میں تقسیم پر عمل درآمد اور اس کے بعد اسرائیل و فلسطین کے درمیان امن قائم رکھنے کی ذمہ داری برطانیہ پر عائد کی گئی تھی۔ یہ ذمہ داری برطانیہ نے کچھ اس طرح ادا کی کہ فلسطینی آبادیوں کے گرد فوجی چوکیاں قائم کر کے انہیں محصور کر دیا جبکہ اسرائیلی دہشت گرد برطانوی چوکیوں کی آڑ لے کر بہت اطمینان سے فلسطینی بستیوں کو نشانہ بناتے رہے۔ ان حملوں میں ہر ہفتے سو کے قریب افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق برطانوی فوج کو مئی 1948 تک علاقے کی نگرانی کرنی تھی لیکن برطانوی فوجیوں نے مارچ سے ہی اپنا بوریا بستر لپیٹنا شروع کر دیا۔ عرب حلقوں کے مطابق، جاتے ہوئے برطانوی فوج نے اپنا اسلحہ اسرائیلیوں کے حوالے کر دیا تھا۔
عربوں کے شبہ کو اس بات سے تقویت ملتی ہے کہ برطانوی فوج کی واپسی سے ایک ماہ پہلے 5؍ اپریل 1948 کو اسرائیلی فوج یروشلم میں داخل ہوگئی حالانکہ معاہدے کے تحت مشترکہ اثاثہ ہونے کی بنا پر بیت المقدس میں فوج تو دور، کسی شخص کو چھری بھی لے کر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ فلسطینیوں نے بیت المقدس میں مسلح اسرائیلیوں کا راستہ روکنے کی کوشش کی لیکن جدید اسلحے سے لیس اسرائیلیوں نے اس مزاحمت کو کچل دیا۔ تصادم میں سیکڑوں فلسطینی مارے گئے جن میں ان کے کمانڈر اور مفتی اعظم فلسطین امین الدین حسینی کے بھتیجے عبدالقادر حسینی بھی شامل تھے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد میں صراحت کے ساتھ لکھا تھا کہ تقسیم فلسطین عارضی ہے اور اسے ریاست کی بنیاد نہیں بنایا جائے گا لیکن برطانیہ کی واپسی کے ساتھ ہی یہودی رہنما ڈیوڈ بن گورین نےEretz Yisrael (ارضِ اسرائیل یا ریاست اسرائیل) کے نام سے ایک ملک کے قیام کا اعلان کر دیا جسے امریکہ اور روس نے فوری طور پر تسلیم کرلیا۔ اس وقت ہیری ٹرومن امریکہ کے صدر اور مشہور کمیونسٹ رہنما جوزف اسٹالن روس کے سربراہ تھے۔
ریاست کے اعلان سے فلسطینیوں میں شدید اشتعال پھیلا اور جگہ جگہ خونریز تصادم ہوئے۔ اس دوران جدید اسلحے سے لیس اسرائیلی فوجیوں نے فلسطینیوں کو بھون کر رکھ دیا۔ مظاہروں کو کچل دینے کے بعد اسرائیلی فوج نے فلسطینی بستیوں کو گھیر لیا اور 7 لاکھ فلسطینیوں کو غزہ کی طرف دھکیل دیا گیا اور وہ بھی اس طرح کے بحر روم کی ساحلی پٹی پر اسرائیلی فوج نے قبضہ کرکے سمندر تک رسائی کو نا ممکن بنا دیا۔ گویا کھلی چھت (Open Air) کے اس عظیم الشان جیل خانے میں 12 لاکھ فلسطینی ٹھونس دیے گئے۔ اس وقت غزہ پر مصر کی عمل داری تھی۔
قبضے کی اس مہم میں فلسطینیوں سے مجموعی طور پر 2000 ہیکٹرز Hectares اراضی چھین لی گئی۔ ایک ہیکٹر 10000 مربع میٹر کے برابر ہے یعنی 2 کروڑ مربع میٹر زمین سے فلسطینیوں کو بے دخل کر دیا گیا۔ فلسطینیوں کا جبری اخراج 15؍ مئی 1948 کو مکمل ہوا جسے فلسطینی یوم النکبہ یا بڑی تباہی کا دن کہتے ہیں۔ فلسطینیوں کی ان کے گھروں سے جبری بے دخلی کے بعد 1967 اور 1973کی عرب اسرائیل جنگوں میں اسرائیل نے مزید عرب علاقوں پر قبضہ کر لیا۔
ارضِ فلسطیں سے عربوں کو اردن، مصر، شام اور لبنان کی جانب دھکیلنا ہی اسرائیلی جدوجہد آزادی کا ہدف تھا۔ اب 7؍ اکتوبر کو فضائی حملوں کے آغاز پر شہری آبادی کی جنوب منتقلی پر اصرار اور غزہ میں ٹینک داخل کرتے وقت اس وحشت کی جدوجہدِ آزادی سے تشبیہ کے بعد اہل غزہ کو یقین ہو گیا ہے کہ موجودہ جنگی کارروائی نکبہ دوم کا نقطہ آغاز ہے۔
بلا شبہ اسرائیل اور مغرب کی مشترکہ قوت قاہرہ کا مقابلہ نہتے فلسطینیوں کے بس کی بات نہیں لگتی لیکن اہل غزہ کے حوصلے اب تک بلند نظر آرہے ہیں۔ ایک بہادر خاتون کا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے۔ ایک ہفتہ پہلے غزہ سے ایک بصری تراشہ جاری ہوا جس میں آٹھ نو سال کی بچیاں ایک دوسرے کے ہاتھ اور پیروں پر انمٹ سیاہی سے ان کے نام لکھ رہی تھیں، جب ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے تو ایک دس سالہ لڑکی نے مسکراتے ہوئے کہا ’تاکہ بمباری کے بعد ملبے سے بازیاب ہونے والے ہمارے جسم کے ٹکروں کی شناخت ہوسکے‘ یہ منظر دیکھ کر آنکھ بھر آنی چاہیے تھی لیکن کسی اور کا کیا ذکر، خود ہماری آنکھ سے آنسو کا ایک قطرہ نہ ٹپکا کہ ہم بھی اسی بے حس مسلم برادری کا حصہ ہیں۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
***

 

***

 بلاشبہ اسرائیل اور مغرب کی مشترکہ قوت قاہرہ کا مقابلہ نہتے فلسطینیوں کے بس کی بات نہیں لگتی لیکن اہل غزہ کے حوصلے اب تک بلند نظر آرہے ہیں۔ ایک بہادر خاتون کا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے۔ ایک ہفتہ پہلے غزہ سے ایک بصری تراشہ جاری ہوا جس میں آٹھ نو سال کی بچیاں ایک دوسرے کے ہاتھ اور پیروں پر انمٹ سیاہی سے ان کے نام لکھ رہی تھیں، جب ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے تو ایک دس سالہ لڑکی نے مسکراتے ہوئے کہا ’تاکہ بمباری کے بعد ملبے سے بازیاب ہونے والے ہمارے جسم کے ٹکڑوں کی شناخت ہوسکے‘۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 نومبر تا 11 نومبر 2023