مولانا آزاد یادگاری خطاب ’جدید ہندوستان کے معمار مولانا ابوالکلام آزاد‘

مرکزی وزیر تعلیم کا بھارت کے پہلے وزیر تعلیم کو خراج عقیدت ۔اردو یونیورسٹی، مولانا آزاد کے افکار کی مشعل بردار ہے : ڈاکٹر سبھاش سرکار

حیدرآباد (دعوت نیوز ڈیسک)

یوم آزاد تقاریب کے تحت مختلف النوع پروگرامس اور مسابقہ جات کا انعقاد
’’طلبا برادری اور محققین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کی معاشی اور سماجی ترقی کے لیے کام کریں۔ طلبا کو چاہیے کہ وہ مولانا آزاد کے مشہور قول  ’اگر تم صرف اپنے لیے زندہ ہو تو اس کا مطلب  یہ ہے کہ تم اپنی قوم کے لیے زندہ لاش ہو۔‘ کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کا عہد کریں کہ ہم زندہ لاش بن کر نہیں بلکہ انسانیت کی خدمت کرتے ہوئے بہترین انسان ہونے کا ثبوت پیش کریں گے۔‘‘ ان خیالات کا اظہار مرکزی مملکتی وزیر تعلیم ڈاکٹر سبھاش سرکار نے کیا۔ دراصل نومبر کے پہلے عشرے میں مولانا ابولکلام آزاد کی یوم پیدائش کے حوالے سے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد میں یومِ آزاد تقاریب  کے نام سے مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا گیا جن میں آزاد میموریل خطاب کے حوالہ سے ایک خصوصی پروگرام یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سید عین الحسن کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں بحیثیت مہمانِ خصوصی مرکزی مملکتی وزیر تعلیم ڈاکٹر سبھاش سرکار اور بی آر امبیڈکر یونیورسٹی، دہلی  کے پروفیسر جناب سلیل مسرا نے مولانا آزاد پر خصوصی خطاب کیا۔
مرکزی وزیر تعلیم ڈاکٹر سبھاش سرکار نے ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا آزاد کو ہندوستان کی مثالی شخصیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ آزاد ہندوستان کا مضبوط تعلیمی ڈھانچہ استوار کرنے میں مولانا آزاد کی خدمات کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے مطابق ہندوستان میں آئی آئی ٹی جیسے اداروں سے لے کر یو جی سی، اے آئی سی ٹی ای کی تشکیل و آغاز مولانا کی ہی مرہون منت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مولانا آزاد کا شمار ایسے مفکروں اور دانشوروں میں ہوتا ہے جنہوں نے تعلیم کو عام کرتے ہوئے سماج میں سبھی کے لیے مساویانہ ترقی کو یقینی بنانے کے لیے راہیں ہموار کیں۔ ملک و قوم کی تعلیمی ترقی کے لیے مولانا آزاد کا جو نظریہ تھا، اس کی آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی عملی تفسیر بن چکی ہے۔ انہوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ اردو یونیورسٹی اردو زبان میں ہزاروں طلبا کی علمی پیاس کو بجھانے کے لیے ملک کے طول و عرض میں روایاتی اور فاصلاتی ہر دو طرح کے ذرائع کو بروئے کار لا رہی ہے۔ یہ یونیورسٹی مولانا آزاد کے افکار و نظریات کی مشعل بردار ہے۔ اسی طرح نئی تعلیمی پالیسی کا مقصد بھی توانائی سے بھرپور نوجوان نسل کی تربیت مقصود ہے۔ ساتھ ہی ہندوستانی زبانوں کا فروغ بھی حکومت کی ترجیح ہے اسی لیے نئی قومی تعلیمی پالیسی، مادری زبان میں تعلیم کی وکالت کرتی ہے۔‘‘
قبل ازیں یومِ آزاد تقاریب کے مرکزی پروگرام کا آغاز وائس چانسلر پروفیسر عین الحسن کی خیر مقدمی تقریر سے ہوا۔ انہوں نے مملکتی وزیر تعلیم ڈاکٹر سبھاش سرکار کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ روز اول جب سے انہوں نے شیخ الجامعہ کا عہدہ سنبھالا ہے وزیر موصوف کا تعاون انہیں حاصل رہا ہے اور امید ہے کہ اس کا سلسلہ آگے بھی جاری رہے گا۔
پروفیسر سلیل مسرا، سابق وائس چانسلر، بی آر امبیڈکر یونیورسٹی، نئی دہلی نے اس پروگرام میں مولانا آزاد یادگاری خطبہ دیا۔ ان کے خطبہ کا عنوان جدید ہندوستان کے معمار مولانا ابوالکلام آزاد تھا۔ انہوں نے اپنے پر اثر خطاب میں مختلف حوالوں سے مولانا کو جدید ہندوستان کا معمار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کو کانگریس کا شو بوائے کہنا ان کے ساتھ زیادتی ہے کیونکہ یہ مسلم لیگ کے قائد کی جانب سے لگایا گیا الزام ہے۔
یونیورسٹی کے رجسٹرار پروفیسر اشتیاق احمد نے کہا کہ سلیل مسرا نے مولانا کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے جامع انداز میں لیکچر دیا ہے۔ مولانا آزاد نے نہ صرف گاندھی جی کی فکر کو متاثر کیا بلکہ خود بھی گاندھی کے اثرات کو قبول کیا۔ ان کے مطابق مولانا آزاد کی شخصیت کو لسانیات والے اپنا قرار دیتے ہیں۔ اسلامیات والے انہیں ایک استاد سمجھتے ہیں، تاریخ کے میدان میں ان کو مورخ تسلیم کیا جاتا ہے اور سیاست داں تو انہیں اپنے شعبے سے ہی سمجھتے ہیں اور صحافت کے میدان میں تو ان کی خدمات مسلمہ ہیں۔ پروفیسر سید علیم اشرف جائسی، صدر نشین یومِ آزاد تقاریب نے شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر آئی ایم سی کی جانب سے تیار کردہ یومِ آزاد تقاریب پر ویڈیو رپورٹ بھی پیش کی گئی۔
یوم آزاد کے حوالے سے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں دیگر مختلف تقاریب کے ساتھ ساتھ پالی ٹیکنیک میں آزاد ٹیک فیسٹ کا انعقاد بھی عمل میں آیا۔ ٹیک فیسٹ میں چار سو سے زائد شرکاء نے حصہ لیا۔ اس موقع پر پچاس جدید پروجیکٹس کی نمائش کی گئی جس میں مختلف سماجی چیلنجوں سے نمٹنے اور معیار زندگی کو بڑھانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا تھا۔ پروفیسر عین الحسن، وائس چانسلر نے اس کا افتتاح کیا۔ آزاد ٹیک فیسٹ میں پیش کیے گئے پروجیکٹس مختلف النوع موضوعات، ان میں آٹومیشن اور روبوٹکس، الیکٹریکل اور پائیدار انرجی، بائیو ٹیکنالوجی اور انرجی سلوشنز، پانی اور ماحولیاتی ٹیکنالوجیز اور ویب ڈیولپمنٹ پروجیکٹس وغیرہ شامل تھے۔
یومِ آزاد تقاریب میں مولانا ابوالکلام آزاد کی میراث کو یاد کرتے ہوئے فکری گفتگو، فنی اظہار اور ادبی تقریبات کا بھی انعقاد کیا گیا۔ "ماحول اور پائیدار ترقی” کے موضوع پر ایک فکر انگیز پینل مباحثہ سید حامد لائبریری آڈیٹوریم میں منعقد کیا گیا۔ اس میں مختلف شعبوں کے ماہرین نے تبادلہ خیال کیا۔ جس میں ماحولیاتی بیداری کے اہم کردار اور ایک صحت مند اور زیادہ ہم آہنگ دنیا کی تشکیل میں پائیدار طریقوں پر روشنی ڈالی گئی۔ ماہر ماحولیات پروفیسر پرشانت ریڈی نے ماحولیاتی خواندگی اور تعلیم کی اہمیت پر زور دیا۔ پروفیسر عامراللہ خان، سابق آئی اے ایس افسر و ماہر اقتصادیات نے ماحولیاتی تحفظ کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت پر زور دیا جس میں حکومتی اقدامات عوامی شراکت اور تکنیکی ترقی شامل ہیں۔ پروفیسر عاصم پرکاش، ممتاز اسکالر و ڈپٹی ڈائریکٹر، ٹاٹا انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز نے ماحولیاتی آلودگی اور درجہ حرارت میں خطرناک حد تک اضافے کی طرف توجہ مبذول کرائی اور اس کی وجہ بڑھتی ہوئی آبادی اور غیر پائیدار کھپت کے نمونوں کو قرار دیا۔ اس فکر انگیز مباحثہ کے ماڈریٹر پروفیسر صدیقی محمد محمود تھے۔
اسی طرح آزاد ادبی میلہ ایک دلکش فلمی نمائش کے ساتھ منعقد ہوا، جس نے مولانا ابوالکلام آزاد کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔ یونیورسٹی فلم کلب کے تعاون سے پیش کی گئی اس فلم میں مولانا آزاد کو بطور اسکالر، آزادی پسند رہنما اور با بصیرت رہنما کے طور پر دکھایا گیا، جس نے سامعین کو تعلیم، سماجی ترقی اور قومی یکجہتی کے لیے ان کی غیر متزلزل وابستگی سے متاثر کیا۔
یوم آزاد تقاریب کے سلسلہ میں اوپن مائک پروگرام، ایمفی تھیٹر میں منعقد کیا گیا تھا جس کا مقصد طلبا کو اپنی ادبی صلاحیتوں کو پیش کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے۔ مختلف شعبوں اور مضامین کے طلبا نے اپنے اصلی فن پاروں سے سامعین کو مسحور کیا، جن میں نثر اور شاعری سے لے کر طنز، مونو ایکٹس اور اسٹینڈ اپ کامیڈی شامل ہیں۔ جناب عامر بدر (پروگرام کوآرڈینیٹر) اور ڈاکٹر افتخار احمد نے اس تقریب کی نظامت کی۔
یوم آزاد تقاریب کے سلسلہ میں ’آزاد واک‘ کا اہتمام کیا گیا۔ ڈاکٹر جرار احمد اور ان کی ٹیم نے انتظامات کیے۔ شرکاء نے یونیورسٹی کے مرکز صحت سے باب علم تک واک کیا۔
مزید برآں، فائن آرٹس کلب نے ایک دلکش خطاطی کے مقابلے کا انعقاد کیا، جس میں طلبا کو اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کی دعوت دی گئی۔ یہ مقابلہ کلچرل اسٹڈیز سنٹر میں منعقد ہوا۔ مختلف قسم کے شرکاء کو اپنی طرف متوجہ کیا گیا جنہوں نے اس پیچیدہ آرٹ فارم میں اپنی مہارت کا مظاہرہ کیا۔ تقریب کی نظامت محترمہ عصمت فاطمہ نے کی۔
اسی طرح ان آزاد تقاریب کے تحت نومبر کے پہلے عشرے میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد میں تقریری مسابقہ، مولانا آزاد کی کتابوں کا مطالعہ، خون کا عطیہ کیمپ، کتابوں کی اشاعت اور مباحثہ، مشاعرہ، کتابی اور تصویری نمائش، مولانا آزاد خصوصی نمائش، مولانا آزاد پر فلم اسکریننگ، مسابقۂ خطاطی، پینل ڈسکشن، آزاد واک، اوپن مائک، آزاد ٹیکفیسٹ، ڈیجیٹل آرٹ کانٹیسٹ، مسابقۂ کوئز، فوڈ فیسٹ، محفل غزل، آزاد میموریل لیکچر، مناقشہ، داستان گوئی، ڈراما اور یونیورسٹی اسٹاف کے بچوں کے درمیان چند مسابقہ جات بھی منعقد کیے گئے۔

 

***

 مولانا آزاد نے نہ صرف گاندھی جی کی فکر کو متاثر کیا بلکہ خود بھی گاندھی کے اثرات کو قبول کیا۔ ان کے مطابق مولانا آزاد کی شخصیت کو لسانیات والے اپنا قرار دیتے ہیں۔ اسلامیات والے انہیں ایک استاد سمجھتے ہیں، تاریخ کے میدان میں ان کو مورخ تسلیم کیا جاتا ہے اور سیاست داں تو انہیں اپنے شعبے سے ہی سمجھتے ہیں اور صحافت کے میدان میں تو ان کی خدمات مسلمہ ہیں


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 نومبر تا 25 نومبر 2023