افروز عالم ساحل
’19 نومبر 1921۔۔۔ ایک سو قیدی، (97 موپلا مسلمان اور تین ہندو) جو انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت میں شامل تھے۔ انہیں جنوبی مراٹھا ریلوے سے جڑی ’ریلوے سامان وین نمبر 1711‘ میں تیروور سے کوئمبتور لایا جا رہا تھا۔ لیکن پوڈانور پہنچنے پر پایا گیا کہ 56 باغی دم توڑ چکے ہیں اور باقی تمام بیہوشی کی حالت میں ہیں۔ 44 زندہ بچے باغیوں کو کوئمبتور لایا گیا۔ ان میں سے بھی چھ کی اسی اسٹیشن پر ٹرین سے باہر نکالتے ہی موت واقع ہو گئی۔ شدید طور پر بیمار 13 باغیوں کو علاج کے لیے کوئمبتور سول اسپتال اور 25 کو سنٹرل جیل اسپتال بھیجا گیا۔ کوئمبتور سول اسپتال پہنچتے ہی دو باغی مرگئے اور مزید چار نے اسی دن دوپہر میں دم توڑ دیا۔ باقی دو کی موت 26 تاریخ کو ہوئی۔ اس طرح اموات کی کل تعداد 70 ہو گئی۔‘
مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ اس دل دہلا دینے والے واقعے کے بارے میں دلی سے شائع ہونے والے اخبار ’مسلم‘ میں لکھتے ہیں، ’ہم نے وہ شہادتیں درج کی ہیں جو حکومت مدراس کی مقرر کردہ تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے گزاری گئی ہیں۔ ان شہادتوں کو دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ ایک طرف تو غریب قیدیوں نے بیان کیا کہ ہمارا دم گھٹا جاتا تھا اور ہمارے حلق سوکھے جاتے تھے، ہم پانی کے لیے چیخ رہے تھے مگر پانی دینے سے انکار کیا گیا اور آخر پیاس سے مجبور ہوکر ہم میں سے بعض نے اپنے کپڑوں کو نچوڑ کر پسینہ کے چند قطروں کو حلق میں ٹپکایا۔۔۔ مگر دوسری طرف انگریز گواہوں نے بیان کیا کہ ہم نے قیدیوں کا شور نہیں سنا۔ وہ معمولی آواز میں پانی مانگ رہے تھے، اور ان سے وعدہ کیا گیا کہ آئندہ اسٹیشن پر پانی دیا جائے گا۔۔۔‘
یہ اندوہناک واقعہ انگریزوں کی بغاوت میں شروع کی گئی موپلا تحریک میں شامل باغیوں کے تئیں انگریزوں کے رویے اور حقیقت کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔
اس اندوہناک واقعہ کو ہوئے آج سو سال گزر چکے ہیں لیکن آج سو سال بعد ایک بار پھر موپلا تحریک کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اور ہندوتوادی طاقتیں اس تحریک سے متعلق طرح طرح کے سوالات اٹھا رہی ہیں۔ ہفت روزہ دعوت کے نمائندے نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ آخر یہ تحریک کیوں شروع ہوئی؟ اس تحریک کے بارے میں اس زمانے میں کیا کچھ لکھا گیا؟ ہندوتوادی طاقتوں کی جانب سے اس پر جو الزام لگائے جاتے رہے، وہ کہاں تک سچ ہیں؟ اور اب یہ طاقتیں اس تحریک پر کیسی الزام تراشی کر رہی ہیں؟ لیکن ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ 19 نومبر 1921 کے اس اندوہناک ٹرین واقعہ کے بارے میں کیا کچھ لکھا گیا اور حقیقت میں ہوا کیا تھا؟
اس ٹرین واقعہ کے بعد کیا ہوا؟ کس نے کیا لکھا؟
ڈاکٹر منیشا ماتھر نے اپنی کتاب ’بھارت کی یادگار گھٹنائیں‘ میں اس اندوہناک واقعے کا موازنہ ہٹلر کے گیس چیمبر سے کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں، ’ ہٹلر کے گیس چیمبروں کے بارے میں زیادہ تر لوگوں نے سنا ہوگا لیکن انگریزوں کی ویسی ہی بربریت کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہوں گے۔ آزاد ہندوستان میں بہت کم لوگوں نے پوڈانور کے اس ’دم گھونٹو‘ واقعہ کے بارے میں سنا ہوگا…‘
اس وقت ’پایونیر‘ انگریزی اخبار کے ذریعے یہ کہا گیا کہ ’قیدیوں نے ہی ایک دوسرے کو کاٹا اور آپس میں جنگ کی۔‘ اس کے جواب میں مولانا مودودیؒ نے اخبار ’مسلم‘ میں ڈسٹرکٹ سرجن ڈاکٹر اوکانر کا بیان شائع کیا۔ اس بیان کا خلاصہ اس طرح ہے : ’قیدی جس گاڑی میں بند تھے، اس میں ہوا آنے کا کوئی راستہ نہ تھا اس لیے جو موتیں واقع ہوئیں وہ صرف دم گھٹنے کی وجہ سے واقع ہوئی ہیں۔ میری رائے میں اگر اس گاڑی کی کھڑکیوں پر سے تار کا جال نکال بھی دیا جائے تب بھی وہ گاڑی اس قابل نہیں ہو سکتی کہ اس میں انسانی جانیں لے جائی جائیں۔ پایونیر کے نامہ نگار کا یہ بیان بالکل بے بنیاد ہے کہ قیدیوں نے ایک دوسرے کو کاٹا اور آپس میں جنگ کی۔‘ واضح رہے کہ تب مولانا مودودی اخبار ’مسلم‘ کے ایڈیٹر تھے۔ یہ اخبار 1921 میں نکلنا شروع ہوا، اور 1923 میں بند ہو گیا۔ مولانا مودودی شروع سے لے کر آخر تک اس اخبار کے ایڈیٹر رہے۔
مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ اخبار ’مسلم‘ میں اپنے ایک اداریہ میں لکھتے ہیں، ’’ہمیں 70 موپلوں کی موت پر اتنا رنج نہیں تھا جتنا ہندوستانیوں کی بے کسی پر ہے۔ جو قوم غلام ہو اور جس کی گردنوں پر غیروں کا قبضہ ہو، اس کے لیے ایسے اور اس سے زیادہ اندوہناک مصائب مقسوم ہیں۔ پس رونا یہ نہیں کہ ہمارے 64 بھائی اس بے دردی سے ہلاک ہوئے بلکہ رونا اس بات پر ہے کہ ہندوستانی نہ دوسروں کے غلام ہوتے اور نہ ان پر ایسے مصائب نازل ہوتے۔‘‘
مولانا مودودی نے اس بارے میں بارے میں مزید یہ بھی لکھا، ’حکومت مدراس نے اس واقعہ پر اظہار افسوس کیا ہے اور اس کی وجوہ کی تحقیق کے لیے ایک کمیشن بھی مقرر کیا ہے۔ مگر نہ کوئی افسوس ان 70 جانوں کا معاوضہ ہو سکتا ہے اور نہ کوئی تحقیق۔ یہ ہم خوب جانتے ہیں کہ اگر تحقیق کے بعد حکومت کے منتظمین میں سے کسی کی غلطی ثابت ہوگئی تو اس کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ اور اس کو بچانے کے لیے بہانے تلاش کیے جائیں گے۔‘
اور ہوا بھی کچھ ایسا ہی۔ حکومت مدراس نے ایک تحقیقاتی کمیٹی مقرر کی۔ 30 اگست 1922 کو حکومت ہند نے حکم دیا جس میں کہا گیا تھا کہ ’کمیٹی کا مشاہدہ ہے کہ قیدیوں کے شور مچانے کی نوعیت کو مکمل یقین کے ساتھ بیان کرنا ممکن نہیں ہے، لیکن وہ اس نتیجے سے گریز نہیں کر سکتے کہ پانی اور ہوا کے لیے پکارنا، یقیناً اس قدر غیر معمولی اور حیرت انگیز رہا ہوگا کہ سارجنٹ اینڈریوز اور اس کے ایسکارٹ کی خصوصی توجہ مبذول کرنی چاہیے تھی۔ وہ کمیٹی کے ان خیالات سے اختلاف نہیں کرنا چاہتے کہ سارجنٹ اینڈریوز جان بوجھ کر غیر انسانی سلوک کا قصوروار نہیں تھا، لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ چیخ و پکار کو نظر انداز کرنے اور خود تحقیق کرنے میں ناکامی کی وجوہات کو، کمیٹی کے الفاظ میں، کیا ہونا چاہیے تھا۔ بہت ہی غیر معمولی شور شرابہ، حد اور فطرت دونوں لحاظ سے سارجنٹ نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔ وہ کمیٹی سے اس بات سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ جو ہیڈ کانسٹیبل اور کانسٹیبل سارجنٹ اینڈریوز کو اس پوزیشن کے بارے میں واضح طور پر آگاہ کرنے میں ناکام رہے۔۔۔‘
اس وقت کے مدراس میل میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق، حکومت ہند نے حکومت مدراس کو ہدایت کی کہ سارجنٹ اینڈریوز کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے۔ یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے گی کہ اوپر درج نتائج کے پیش نظر ہیڈ کانسٹیبل اور کانسٹیبلز کے سلسلے میں کیا کارروائی کی جائے۔ آپ کو بتادیں کہ حکومت ہند کے اس حکم کے مطابق سارجنٹ اینڈریوز اور پولیس والوں کے خلاف مقدمہ چلایا گیا لیکن جلد انہیں اس سے بری کر دیا گیا۔ وہیں اس سے قبل مدراس حکومت کے ایک حکم (آرڈر نمبر 290 مورخہ یکم اپریل 2022) کے مطابق مرنے والے 70 قیدیوں میں سے ہر ایک کے اہل خانہ کو 300 روپے compassionate allowance یعنی ’ہمدردی الاؤنس‘ کے طور پر دینے کا اعلان کیا گیا۔
اب کیا ہے مسئلہ ؟ کس نے کیا کہا؟
گزشتہ سال 2020 میں کیرالا کے ایک فلم ڈائریکٹر عاشق ابو نے اعلان کیا کہ وہ موپلا بغاوت کے سب سے اہم رہنما، وریم کننتھ کنجہ محمد حاجی، جنہیں انگریزوں نے موت کی سزا سنائی تھی کی زندگی پر ’وریم کنن‘ کے نام سے فلم بنائیں گے۔ یاد رہے کہ کنجہ محمد حاجی مالابار کے ان کسانوں کے لیے لڑے تھے جو وہاں کے جاگیرداروں اور ان کے حواریوں کے ظلم کا شکار تھے۔ ان میں سے زیادہ تر زمیندار، جنہیں ’جنمی‘ کہا جاتا تھا، اونچی ذات کے ہندو تھے اور انہیں انگریزوں کی سرپرستی حاصل تھی یا یوں کہیے کہ یہ زمیندار انگریزوں کے ساتھ تھے اور انہیں انگریزوں کی حکومت پسند تھی۔
اس فلم کو بنانے کے محض ایک اعلان نے کیرالا کے فرقہ پرست عناصر کو ایک نیا موقع فراہم کیا۔ ’ہندو ایکیہ ویدی‘ نامی ایک تنظیم نے اس فلم کے خلاف مہم شروع کر دی۔ اس تنظیم کا ماننا تھا کہ یہ مجوزہ فلم حاجی اور موپلا بغاوت (جسے میپیلا بغاوت کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) کے رہنماؤں کی شان میں اضافہ کرنے کی کوشش ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ وریم کننتھ حاجی، خود اس بغاوت کو مذہبی رنگ دینے کے سخت خلاف تھے۔ ایسا نہیں ہے اس بغاوت میں حاجی نے مسلمانوں کو چھوڑ دیا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اسی بغاوت کے دوران حاجی کی قیادت میں انگریزوں کے وفادار مسلمانوں پر بھی حملے ہوئے، یہ بات الگ ہے کہ ایسے مسلمانوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ لیکن باوجود اس کے، اس دور میں انگریزوں کے حمایتی ایک چھوٹے سے طبقے نے ان کے اشارے پر اسے فرقہ وارانہ رنگ دے دیا۔ اور اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ اس بغاوت کا نشانہ انگریزوں کے ساتھ ساتھ زمیندار بھی تھے، جو بنیادی طور پر اونچی ذات کے ہندو تھے اور برطانوی راج ان استحصالی زمینداروں کا محافظ تھا۔ انگریزوں نے اپنی ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کی پالیسی کے مطابق اسے ہندوؤں پر مسلمانوں کے حملے کے طور پر پیش کیا۔
اب سو سال بعد اسی اگست کے مہینے میں آر ایس ایس لیڈر رام مادھو نے دعویٰ کیا کہ 1921 کی موپلا بغاوت ہندوستان میں طالبان کی ذہنیت کا پہلا مظہر تھی۔ کیرالا میں بائیں بازو کی حکومت مبینہ طور پر اسے کمیونسٹ انقلاب کے طور پر منا کر اپنی شبیہ کو صاف کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
تب اس کے جواب میں سی پی آئی کے جنرل سکریٹری ڈی راجہ نے کہا کہ آر ایس ایس فرقہ وارانہ نظریہ کی پیروی کرتی ہے اور وہ تاریخ کی دوبارہ تشریح کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ جہاں تک موپلا بغاوت کا تعلق ہے، یہ جاگیرداروں اور برطانوی حکمرانوں کے خلاف تھی اس لیے ان لوگوں کو سیلولر جیل بھیجا گیا تھا۔
مقامی کانگریسی لیڈر سدھاکرن نے کہا کہ موپلا انقلاب سامراج مخالف طاقتوں کے خلاف ابھرتی ہوئی تحریک تھی۔ صرف سنگھ پریوار کی طاقتیں ہی اس طرح کی تحریک آزادی کی جدوجہد کو فرقہ وارانہ شکل دے سکتی ہیں۔ وہیں کیرالا کی حکمراں جماعت سی پی آئی (ایم) کے کارگزار سکریٹری اے وجئے راگھون نے کہا، ’انگریزوں نے اس جدوجہد کو فرقہ وارانہ فسادات کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ آر ایس ایس اس طرح سے اس قدم کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ موپلا بغاوت ہندوستان کی آزادی کی تحریک کا ایک حصہ ہے۔ بغاوت میں بلاشبہ انگریز مخالف جذبات تھے۔‘
اسی اگست کے مہینے میں وزارت تعلیم کے تحت آنے والی ’انڈین کونسل فار ہسٹوریکل ریسرچ‘ (آئی سی ایچ آر) کی تین رکنی کمیٹی نے سفارش کی کہ ’’ڈکشنری آف مورٹیئر آف انڈیاز فریڈم اسٹرگل‘‘ نام کی تاریخ کی کتاب سے 387 موپلا باغیوں کے نام شہداء کی فہرست سے نکال دیا جانا چاہیے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کتاب وزیر اعظم نریندر مودی نے سال 2019 میں جاری کی تھی۔ اسے حکومت ہند کے وزارت ثقافت اور آئی سی ایچ آر نے مشترکہ طور پر شائع کی تھی۔
آئی سی ایچ آر کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ موپلا میں تقریباً تمام غم و غصہ فرقہ وارانہ تھا۔ یہ ہندو سماج کے خلاف تھے۔ انہیں فوج نے فسادات میں حصہ لینے پر گرفتار کیا تھا۔ یہاں یہ واضح رہے کہ فوج سے ان کی مراد برٹش فوج ہے۔
آئی سی ایچ آر کی اس سفارش کی مخالفت میں احتجاج کے طور پر اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (ایس آئی او) کی کیرالا یونٹ نے موپلا بغاوت کے 387 شہداء کو لے کر ’Dictionary of Mappila Martyrs‘ نام کی ایک کتاب گزشتہ دنوں ملاپورم پریس کلب میں جاری کی۔221 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں مالابار کے تمام 387 رہنماؤں کا مختصر تعارف کرایا گیا ہے، جنہوں نے انگریزوں اور انگریزوں کے حامی رہے ہندو جاگیرداروں سے جنگ کی۔
اس کے بعد اس ’موپلا بغاوت‘ کو لے کر پورے ملک میں ہندوتوادی طاقتوں نے طرح طرح کی باتیں کیں۔ اسے ’جہاد‘ تک بتانے کی کوشش کی گئی۔ میڈیا میں تاریخ کے چند صفحات کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا۔ اسے خلافت تحریک سے جوڑا گیا۔ لیکن وہ یہ بھول گئے کہ یہ خلافت تحریک ہندوستان میں ہی شروع ہوئی تھی۔ کانگریس گاندھی جی کی قیادت میں تحریک خلافت کی حمایت کر رہی تھی اور اس کا مقصد اس کے بہانے انگریزی حکومت کو نشانے پر لینا تھا۔ ملک میں عدم تعاون تحریک کی شروعات کرنی تھی۔ ان دونوں تحریکوں میں ہندوستان کے وہ تمام لوگ شامل تھے جو مستقبل میں مجاہد آزادی کہلائے اور اس ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرایا۔
موپلا بغاوت کی مخالفت کرنے والوں کی فہرست میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بھی شامل ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے اس موپلا بغاوت کو ایک منصوبہ بند قتل عام سے تعبیر کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ’1921 میں جہادیوں نے مل کر ہزاروں ہندوؤں کا قتل کردیا تھا۔ ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ہم پوری انسانیت سے جہادی خیال کو کیسے ختم کر سکتے ہیں تاکہ ایسا ماحول بنایا جائے کہ مالابار قتل عام کا واقعہ کبھی نہ دہرایا جائے۔‘ یوگی نے مزید کہا، ’جہادی افکار سے پاک ماحول بنانے کے لیے پورے ملک کو اکٹھا ہونا پڑے گا۔ آزادی کے 75ویں سال میں ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنی تاریخ کو اچھی طرح جانیں، کیونکہ کوئی بھی ملک جسے اپنی تاریخ یاد نہیں ، وہ اپنی سر زمین کو محفوظ نہیں رکھ سکتا۔‘
اعداد وشمار پیش کرتے ہوئے یوگی نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق دس ہزار سے زائد ہندوؤں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ ہزاروں ماؤں، بہنوں پر تشدد کیا گیا اور کئی مندروں کو مسمار کیا گیا۔ یوگی نے مزید کہا کہ کئی لوگ اس قتل عام کو چھپانے کے لیے آگے آئے۔ پوچھا گیا کہ کیا ہندوؤں نے مذہب تبدیل کرنے سے انکار کر دیا تھا اس لیے انہیں قتل کیا گیا؟ اس سوال پر کئی لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ تحریک خلافت کی ناکامی کی وجہ سے مسلم کمیونٹی میں غصہ تھا۔ انہوں نے کہا ہے کہ زمیندار مسلمانوں کا استحصال کر رہے تھے۔ اگر ایسا ہے تو عام ہندوؤں کو کیوں مار دیا گیا؟ صرف اس لیے کہ انہوں نے مذہب تبدیل کرنا درست نہیں سمجھا؟ سچ یہ ہے کہ جن بائیں بازو والوں نے نقلی سیکولرازم کو سپورٹ کرنے کے لیے تاریخ لکھی وہ صرف چاپلوسی میں یقین رکھتے تھے۔
آپ کو بتاتے چلیں کہ ہندوتوادی طاقتوں نے اسے ہمیشہ ایک ہولناک ہندو قتل عام کے طور پر دیکھا ہے۔ ساورکر نے اس مسئلے پر ایک ناول ’موپلا ارتھات مجھے اس سے کیا؟‘ جی وہی ساورکر، جنہوں نے نو برسوں میں مسلسل چھ بار انگریزوں سے معافی مانگی اور ان معافی ناموں میں صاف طور پر لکھا کہ ’حکومت اگر مہربانی اور رحم دکھاتے ہوئے مجھے رہا کرتی ہے تو میں آئینی پیش رفت اور برطانوی حکومت کے ساتھ وفاداری کا سخت حامی رہوں گا۔ میں حکومت کی کسی بھی حیثیت سے خدمت کرنے کے لیے تیار ہوں۔۔۔‘
ساورکر پر تحقیق کرنے والے نرنجن تکلے کے مطابق ’’ساورکر نے وائسرائے لنلتھگو کے ساتھ ایک تحریری معاہدہ کیا تھا کہ ان دونوں کا ایک ہی مقصد ہے گاندھی، کانگریس اور مسلمانوں کی مخالفت کرنا۔‘‘ نرنجن تکلے کے مطابق’’انگریز ان کو ساٹھ روپے ہر ماہ پینشن دیا کرتے تھے۔ وہ انگریزوں کی کون سی ایسی خدمت کرتے تھے جس کے لیے ان کو پینشن ملتی تھی؟ وہ اس طرح کی پینشن پانے والے اکیلے شخص تھے۔‘‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ ساورکر کے ساتھ ساتھ گاندھی کا قتل کرنے والے ناتھو رام گوڈسے نے بھی اپنی کتاب ’گاندھی ودھ کیوں؟‘ میں موپلا بغاوت کا ذکر کیا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ موپلا بغاوت میں بڑی تعداد میں ہندوؤں کا قتل عام ہوا، بہتوں کو مسلمان بنایا گیا، ان کے گھر پھونک دیے گئے، ان عورتوں کی بے عزتی کی گئی۔ تب بھی گاندھی جی نے دیکھ لیا کہ ان کی ہندو مسلم ایکتا کہاں تک کامیاب ہوئی۔ یہی نہیں، گوڈسے نے موپلا بغاوت کے بارے میں لکھا تھا، ’مالابار، پنجاب، بنگال اور سرحدی صوبوں میں ہندوؤں پر کافی ظلم ہوئے، جس حادثہ کو موپلا بغاوت کے نام سے پکارا جاتا ہے۔۔۔‘ کچھ مورخین تو یہ بھی بتاتے ہیں کہ آر ایس ایس جیسی تنظیم اسی موپلا بغاوت کی وجہ سے وجود میں آئی۔
موپلا بغاوت پر کیا کہتی ہیں سرکاری دستاویزات ؟
ہفت روزہ دعوت کے نمائندے نے اپنی ریسرچ کے دوران ’نیشنل آرکائیوز آف انڈیا‘ کے کئی دستاویز دیکھے اور ان دستاویزوں میں اسے نہ صرف بغاوت کے طور پر پیش کیا گیا بلکہ ہر جگہ اسے بغاوت ہی کہا گیا ہے اور اس میں شامل لوگوں کو باغی۔ ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ہندوتوا طاقتوں کے ذریعہ اس موپلا بغاوت پر بار بار تبدیلی مذہب کا جو الزام لگایا جاتا ہے اس میں کہاں تک سچائی ہے؟
نیشنل آرکائیوز آف انڈیا میں موجود اہم دستاویز کے مطابق 2 نومبر 1921 کو لندن سے سکریٹری آف اسٹیٹ نے وائسرائے سے سوال پوچھا۔ یہ سوال 15 نومبر 1921 کو پارلیمنٹ میں پوچھا گیا۔ سوال تھا، ’کیا آپ موپلا کے ذریعہ ہندوؤں کے زبردستی مذہب تبدیل کرانے کی اندازاً کوئی تعداد بتا سکتے ہیں؟‘ اس کا جواب تھا، ’پریس میں مختلف اندازے شائع ہوئے ہیں۔ میرے پاس کوئی درست اعداد وشمار نہیں ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ موپلا جنونیوں نے بغاوت میں انتہائی خوفناک ظلم ڈھائے ہیں اور بہت سے زبردستی ختنہ کرائے گئے ہیں۔‘
اسی طرح سے ان دنوں اسمبلی میں موپلا مسلمانوں کے ذریعے توڑے گئے مندروں کی تعداد بھی پوچھی گئی تھی، لیکن انگریزی حکومت کی جانب سے صاف طور پر کہا گیا کہ اس بارے میں واضح تعداد ان کے پاس موجود نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس زمانے میں بھی بہت ساری ’فیک نیوز‘ وقت بے وقت پھیلائی گئیں، جس کی بنیاد پر اس زمانے میں ٹائمس آف انڈیا اسٹوریاں لکھتا رہا کہ یہ خبر سچ نہیں، محض افواہ ہے۔ اس طرح کی کئی اخباری کٹنگس راقم کے پاس موجود ہیں۔
1975ء میں یونیورسٹی آف لندن سے موپلا بغاوت پر پی ایچ ڈی کرنے والے Conard Woods اپنی کتاب ’MOPLAH REBELLION AND ITS GENESIS ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’مالابار کی موپلا بغاوت(1921-22) سامراج مخالف بغاوت کا ایک شاندار باب ہے جس نے پہلی عالمی جنگ کے بعد ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ یہ تحریک عدم تعاون اور خلافت کے مجموعی پس منظر کے خلاف پھوٹ پڑی، جس نے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ جلیان والا باغ کے قتل عام (1919) نے پورے ملک کو ایک شیطانی قوت یعنی برطانوی سامراج کے خلاف مکمل مزاحمت کو منظم کرنے کی سخت حقیقت سے روبرو کرا دیا۔ قریب مشرق میں جنگ کے بعد کی ترقی نے ہندوستانی عوام، ہندوؤں اور مسلمانوں کے سامنے سامراجی عزائم کو مزید بے نقاب کیا۔ عدم تعاون اور تحریک خلافت اس چیلنج کا ہندوستان کا رد عمل تھا۔ موپلا بغاوت بھی دیہی بغاوتوں کے سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے جو انگریزوں کی آمد کے ساتھ ہی ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی۔ اس سے قبل انگریزوں کی مخالفت کی انتہا ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی (1857) تھی۔‘
موپلا بغاوت : کیا کہتے ہیں تاریخ کے صفحات
مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ اخبار ’مسلم‘ میں 8 دسمبر 1921 کے شمارے میں اپنے اداریہ میں لکھتے ہیں، ’مالابار کی بے چینی اور جنگ و خونریزی کے غیر منقطع سلسلہ کے متعلق اب تک ہم نے کسی رائے کا اظہار نہیں کیا ہے۔ اس کی دو وجہیں ہیں۔ ایک یہ کہ کسی مسئلہ پر ہم اس وقت تک رائے زنی کرنا مناسب نہیں سمجھتے جب تک اس کے مالہ و ماعلیہ کے متعلق ہم کو مفصل، قطعی اور یقینی معلومات حاصل نہ ہوجائیں۔ دوسرے یہ کہ مالابار کے معاملات اس قدر پیچیدہ واقع ہوئے ہیں کہ ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک ہوکر اور تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے متعلق کوئی اظہار بیان مشکل ہے۔ یہ دونوں وجوہ اب بھی پہلے کی طرح موجود ہیں اور امید نہیں کہ ایک دو مہینہ تک بھی ساقط ہو سکیں۔ مگر چونکہ مالابار کے متعلق ہر خیال کے لوگ اظہار کر رہے ہیں اور تاریکی کے پردوں پر، جنہیں حقائق کو چھپانے کے لیے ایک زبردست محکمہ احتساب نے ڈال رکھا ہے، غلط فہمیوں کے سیکڑوں پردے اور ڈالے جارہے ہیں، اس لیے ہم مناسب نہیں سمجھتے کہ اب زیادہ عرصہ تک خاموش رہیں۔‘
اپنے اس اداریہ میں وہ آگے لکھتے ہیں، ’کوئی اخبار دیکھنے والا ایسا نہ ہوگا جو یہ نہ جانتا ہو کہ کس طرح ان واقعات کی ابتدا ہوئی۔ کیونکہ حکومت نے ان کے حامیوں کو گرفتار کیا اور پھر جب وہ عدالت کی طرف گئے تو ان کے دو تین ہزار کے ساکن مجمع پر کس بے دردی کے ساتھ گولیاں چلائی گئیں۔ موپلے ان مصائب سے متاثر ہوچکے تھے جو تمام عالم اسلامی پر نازل ہورہے ہیں اور راسخ الاعتقاد ہونے کی وجہ سے ان کے دلوں میں نفرت اور غضب کے شدید جذبات بھی پیدا ہو چکے تھے۔ پس ان واقعات نے ان کے جوش کے ساتھ مل کر جو پہلے ہی سے موجود تھا انہیں مرنے مارنے پر آمادہ کیا۔ یہ ہے مالابار کی جنگ کے اسباب کا خلاصہ، ان اسباب کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ موپلوں نے جنگ شروع کرنے میں ناعاقبت اندیشی کی۔ انہوں نے اپنی قوت کا اندازہ کرنے میں غلطی کی، انہوں نے سخت غیر دانشمندانہ فعل کیا۔ انہوں نے اپنے سے کئی ہزار گنی زیادہ قوی سلطنت سے آگ اور خون کی جنگ کرکے اپنا زیادہ نقصان کیا۔ مگر اس کے کوئی معنی نہیں ہو سکتے کہ ہم ان کو ملامت کریں۔ ان کو سرزنش کے قابل سمجھیں یا گنہگار ٹھہرائیں۔‘
مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں، ’ہر کمزور جو حق کی خاطر یا اپنی جان بچانے کے لیے قوی سے جنگ کرتا ہے وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں مبتلا کرتا ہے۔ مگر کس طرح جائز ہوسکتا ہے کہ ہم اس کو برا کہیں۔ اگر کسی ایسے کمزور کو ہم برا کہہ سکتے ہیں تو تاریخ ایسے بہت سے کمزوروں سے بھری پڑی ہے جن کی طرف برائی یا ملامت کے ادنیٰ سے تصور کو بھی منسوب کرتے ہوئے ہمارا ایمان کانپتا ہے۔‘
تبدیلی مذہب پر اپنے اداریہ میں مولانا لکھتے ہیں، ’ہندوؤں کو جبراً مسلمان بنانے کے واقعات پر جو عام طور پر مشہور ہیں وہ صحیح ہیں یا غلط تو اس کے متعلق جمعیت العلماء نے اپنے ریزولیوشن میں معاملہ بالکل صاف کردیا ہے۔ موجودہ حالات میں ایسے قطعی ثبوت تو مہیا نہیں ہو سکتے جن کی بنا پر ان واقعات کی تردید کی جائے۔ مگر ان کو غلط ثابت کرنے کے لیے یہی ثبوت کیا کچھ کم قوی ہے اور اپنے اندر ہزاروں قطعیتیں نہیں رکھتے کہ یہ واقعات ان کے مشہور کیے ہوئے ہیں جو اپنے دشمن مخالف کو بدنام کرنے کے لیے جھوٹ بولنا ثواب سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر باوجود اس کے کسی کو اصرار ہے کہ ان واقعات کے متعلق ہمارا فتویٰ پوچھے تو معلوم کر لینے میں کسی کاوش اور تحقیق و تلاش کی ضرورت نہیں کہ اسلام نے کسی صورت میں بھی غیر مسلم کو جبراً مسلمان بنانے کی اجازت نہیں دی۔‘
واضح رہے کہ جمعیت العلماء نے 3-5 مارچ 1922 کے اجمیر خصوصی اجلاس میں موپلا بغاوت اور خون خرابہ کی تحقیقات کے لیے مولانا آزاد سبحانی کانپوری کی قیادت میں ایک کمیٹی مقرر کی۔ اس کمیٹی کی رپورٹ 18-20 اکتوبر کو دہلی میں پیش کی گئی۔
اس رپورٹ میں صاف طور پر لکھا تھا کہ ہندوستان میں گاندھی کے اعلان کے بعد جب تحریک خلافت اور عدم تعاون شروع ہوئی تو موپلوں نے اس میں کافی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس تحریک میں ہندو بھی شریک تھے اور وہ بھی موپلوں کے ساتھ کام کرتے تھے مگر حکام کو یہ سیاسی رنگ ناگوار تھا، چنانچہ کلکٹر مسٹر ٹامس مالابار نے اس تحریک کو دبانے کی غرض سے موپلوں کے خلاف نہایت زور و شور سے دفعہ 144 کا استعمال کیا۔ خلافت تحریک کے متعلق تمام مطبوعات ضبط کر لیے۔ سیٹھ یعقوب حسن اور دوسرے لیڈروں کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ اس گرفتاری کے خلاف ہزاروں لوگ کالی کٹ میں جمع ہوئے اور اپنا احتجاج درج کرایا، اس احتجاج میں سب نے عجب ضبط و نظم سے کام لیا۔ لیکن اس احتجاج کے دوسرے ہی دن کالی کٹ کی پولیس نے ان پرامن احتجاجیوں پر خوب لاٹھیاں برسائیں، گھروں سے کھینچ کر ان کی پٹائی کی گئی۔ یہی نہیں، بلا امتیاز گرفتاریوں کا تانتا بندھ گیا، ان قیدیوں کے ساتھ بھی پولیس نے کافی بے رحمانہ سلوک کیا۔ پولیس نے مساجد کے اندر بھی حملے شروع کر دیے۔ مساجد کے اندر سے ان کے ہردلعزیز لوگوں کو گرفتار کرکے لے گئی۔ اس وقت کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا تنگل کو گرفتار کرلیا۔ ان واقعات سے متاثر ہوکر جب موپلے جمع ہوئے اور انہوں نے گرفتار شدہ لوگوں کی رہائی پر اصرار کیا تو ان پر فائرنگ کی گئی، جس سے قریب 400 موپلے مارے گئے۔ اس حادثہ کے بعد جب موپلوں نے تار گھر جاکر تار دینا چاہا تو تار قبول نہیں کیے گئے۔ اس آخری پرامن تدبیر سے تھک جانے کے بعد موپلے مشتعل ہوگئے اور جو ان کو تشدد سے روک سکتے تھے وہ سب گرفتار ہو چکے تھے، اس لیے غصہ سے بے قابو ہوکر انہوں نے تارگھر کے تار کاٹ ڈالے تاکہ تار ان کے خلاف استعمال نہ ہو سکیں۔ ریل کی پٹریاں اکھاڑ دیں۔ اس کے بعد موپلوں نے پورا ہنگامہ کیا۔۔۔ حکام نے مارشل لا جاری کردیا۔۔۔
دراصل، ان موپلوں نے فروری 1921 میں ہی آزادی کا اعلان کردیا تھا۔ اس جرات کی سزا انگریز انہیں ہر حال میں دینا چاہتے تھے، جو انہوں نے دی۔ لیکن حکومت نے اپنے مظالم پر پردہ ڈالنے کی غرض سے اس تحریک کو فرقہ وارانہ ثابت کرنا شروع کردیا، اور اس کام میں اونچی ذات کے کچھ ہندو زمینداروں اور ملک میں اس وقت موجود ہندوتواوادی لیڈروں نے انگریزوں کا پورا ساتھ دیا۔
مولانا مودودیؒ اس زمانے میں دوسرے اخباروں پر بھی نظر رکھ رہے تھے کہ وہ موپلا بغاوت پر کیا شائع کر رہے ہیں۔ ایک اداریہ میں وہ لکھتے ہیں، ’۔۔۔ تو سید صاحب سرے سے اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ موپلوں نے ہندوؤں پر ہندو ہونے کی حیثیت سے سختی کی۔ بلکہ وہ اپنی معلومات کی بنا پر یہ کہتے ہیں کہ موپلوں نے جب مذہبی جذبات کی بنا پر علم جنگ بلند کیا اور گھر بار چھوڑ کر پہاڑوں میں مقیم ہوگئے تو ان کے ہندو پڑوسیوں نے انگریزی فوجوں کو راستے بتائے۔ ان کے ساتھ شریک ہوکر موپلوں کے گھر لوٹے اور موپلوں کے استیصال میں ان کی اعانت کی، اس لیے جنگی حیثیت سے موپلوں نے ان ہندوؤں سے انتقام لیا۔۔۔‘ یہاں سید صاحب سے مراد ڈاکٹر سید مصطفیٰ قادری خطیب ہیں جو اس زمانے میں حیدرآباد سے نکلنے والے اخبار ’ہمدم‘ کے مدیر و مجاہد آزادی تھے۔
16فروری 1922کو لکھے اپنے ایک مضمون میں مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں، ’اب تک ثابت نہیں ہو سکا کہ موپلوں نے عام طور پر بہ جبر مسلمان ہونے کے خلاف مذہب اور خلاف انسانیت حرکت کی۔ جس قدر شہادتیں اب تک بیان کی گئی ہیں، ان سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ موپلوں نے من حیث القوم اس جرم کا ارتکاب کیا ہے، بلکہ خود ان لوگوں کے بیانات سے جو کہتے ہیں کہ ہمیں بہ جبر مسلمان بنایا گیا۔ یہ معلوم ہوا ہے کہ عام موپلوں نے ان کے ساتھ ہمدردی کی اور صرف خاص خاص شریر لوگوں نے اس کام میں یہ حصہ لیا ہے۔ پس جب کہ خاص خاص لوگوں نے یہ شریر حرکات کی ہیں تو قرین انصاف نہیں کہ برادران ہنود پوری موپلا قوم سے نفرت اور عناد کو اپنے دل میں جگہ دیں اور پوری قوم کو سزا کا مستحق کہیں۔‘
اسی مضمون وہ مزید لکھتے ہیں، ’مالابار کے حوادث میں ہندوؤں سے زیادہ موپلوں پر زیادتیاں وارد ہوئی ہیں، ہندوؤں کی تباہی تو محض ضمنی تھی۔ مگر موپلے تو خود بربادیوں کا نشانہ، تباہیوں کا ہدف اور خانماں بربادی کی منزل مقصود تھے۔ پھر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جس نے زیادہ نقصان اٹھایا ہے، اس سے کم نقصان اٹھانے والوں کو نقصانات کا معاوضہ دلوایا جائے۔ اس سے صریح مقصود یہ ہے کہ کم برباد ہونے والے کی بربادی بھی زیادہ برباد ہونے والے کی بربادیوں میں شامل کر دی جائے۔یعنی اس کی بربادی کو مکمل کردیا جائے اور یہ صریح ظلم ہے۔‘
ڈاکٹر رام پنیانی کے مطابق، ’موپلا بغاوت کے دوران، جن لوگوں پر حاجی وریم کننتھ کی قیادت میں حملہ کیا گیا، ان میں انگریزوں کے وفادار مسلمان بھی شامل تھے۔ کچھ بنیاد پرست عناصر نے اس بغاوت کو ہندوؤں کے خلاف بغاوت کا نام دیا۔ جب کہ سچ یہ ہے کہ اس بغاوت میں بہت سے غیر مسلموں نے بھی حصہ لیا اور بہت سے مسلمان ایسے تھے جنہوں نے اس سے دوری اختیار کر رکھی تھی۔ درحقیقت موپلا بغاوت کی جڑ میں غریب کسانوں پر انگریزوں اور جاگیرداروں کا وحشیانہ جبر تھا۔ اس بغاوت کا عمل 1921 سے بہت پہلے شروع ہوا تھا۔ پولیس، عدالتوں اور ریونیو اہلکاروں کی ملی بھگت سے جیسے جیسے ’جنمی‘ زمینداروں کے مظالم بڑھتے گئے، موپلا کسان باغی ہوتے گئے۔ پہلی بغاوت 1836 میں ہوئی۔ 1836 اور 1854 کے درمیان کسانوں نے کم از کم 22 بار بغاوت کی۔ ان میں 1841 اور 1849 کی بغاوتیں سب سے بڑی تھیں۔
رام پنیانی، ماہر سماجیات ڈی۔ این۔ دھنگارے کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’’بغاوت کی وجہ کسانوں کے لیز کی مدت کا تعین نہ ہونا، زمینداروں اور کسانوں کے درمیان تعلقات میں بگاڑ اور غریب کسانوں کا سیاسی طور پر الگ تھلگ پڑ جانا تھا۔ اس لیے ان مسائل پر شروع ہونے والی یہ تحریک خلافت اور عدم تعاون کی تحریکوں سے جڑ گئی۔‘‘
رام پنیانی کے مطابق، ہندو فرقہ پرست عناصر اس بغاوت کو ہندوؤں کا قتل عام قرار دیتے رہے ہیں۔ جبکہ اس بغاوت کو برطانوی حکومت نے بے رحمی سے کچلا جس کے دوران تقریباً دس ہزار مسلمان مارے گئے اور ان میں سے ایک بڑی تعداد کو کالے پانی کی سزا دی گئی۔ یہ بنیادی طور پر کسانوں کی بغاوت تھی، جسے بدقسمتی سے ایک مختلف رنگ دیا گیا۔ اس بغاوت کا صحیح اندازہ اور تجزیہ کیا جانا چاہیے، تاکہ اس معاشی سماجی رجحان کو ٹھیک طرح سے سمجھا جا سکے۔
***
‘’کوئی اخبار دیکھنے والا ایسا نہ ہوگا جو یہ نہ جانتا ہو کہ کس طرح ان واقعات کی ابتدا ہوئی۔ کیونکہ حکومت نے ان کے حامیوں کو گرفتار کیا اور پھر جب وہ عدالت کی طرف گئے تو ان کے دو تین ہزار کے ساکن مجمع پر کس بے دردی کے ساتھ گولیاں چلائی گئیں۔ موپلے ان مصائب سے متاثر ہوچکے تھے جو تمام عالم اسلامی پر نازل ہورہے ہیں اور راسخ الاعتقاد ہونے کی وجہ سے ان کے دلوں میں نفرت اور غضب کے شدید جذبات بھی پیدا ہو چکے تھے۔ پس ان واقعات نے ان کے جوش کے ساتھ مل کر جو پہلے ہی سے موجود تھا انہیں مرنے مارنے پر آمادہ کیا۔ یہ ہے مالابار کی جنگ کے اسباب کا خلاصہ، ان اسباب کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ موپلوں نے جنگ شروع کرنے میں ناعاقبت اندیشی کی۔ انہوں نے اپنی قوت کا اندازہ کرنے میں غلطی کی، انہوں نے سخت غیر دانشمندانہ فعل کیا۔ انہوں نے اپنے سےا کئی ہزار گنی زیادہ قوی سلطنت سے آگ اور خون کی جنگ کرکے اپنا زیادہ نقصان کیا۔ مگر اس کے کوئی معنی نہیں ہو سکتے کہ ہم ان کو ملامت کریں۔ ان کو سرزنش کے قابل سمجھیں یا گنہگار ٹھہرائیں۔‘‘
(اداریہ اخبار مسلم ،بقلم مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی ؒ)
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 05 تا 11 دسمبر 2021