مانسون اجلاس: اپوزیشن کے احتجاج کے درمیان دونوں ایوانوں کی کارروائی دن بھر کے لیے ملتوی کردی گئی
نئی دہلی، جولائی 18: پی ٹی آئی کی خبر کے مطابق ملک میں قیمتوں میں اضافے کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج کے بعد لوک سبھا پیر کو دن بھر کے لیے ملتوی کر دی گئی۔
اس سے قبل لوک سبھا کی کارروائی دوپہر 2 بجے تک ملتوی کر دی گئی تھی۔ اب یہ منگل کو صبح 11 بجے دوبارہ شروع ہوگی۔
یہ پی شرفت اس وقت ہوئی جب راجیہ سبھا کو بھی پارلیمنٹ کے مانسون سیشن کے پہلے دن اگنی پتھ اسکیم اور مہنگائی کے علاوہ دیگر معاملات پر بحث کرنے کے اپوزیشن کے مطالبات کے بعد دن بھر کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔
دی ہندو کے مطابق راجیہ سبھا میں اپوزیشن ارکان نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ایوان میں آنے اور متعلقہ معاملات کا جواب دینے کا مطالبہ کیا۔
صبح 11 بجے شروع ہونے والے سیشن سے پہلے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ دیپندر سنگھ ہڈا نے اگنی پتھ اسکیم پر بحث کرنے کے لیے کاروائی کی معطلی کا نوٹس دیا۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے قانون ساز ایلامارام کریم نے بڑھتی ہوئی قیمتوں اور ضروری اشیاء پر 5 فیصد گڈز اینڈ سروسز ٹیکس کے نفاذ پر بات چیت کی خواہش کی۔
کانگریس نے کہا تھا کہ وہ مہنگائی، ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ، اگنی پتھ اسکیم، بے روزگاری اور ’’ملک کے وفاقی ڈھانچے پر حملہ‘‘ کے معاملات کو ایوان میں اٹھائے گی۔
اس دوران لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا نے ارکان پارلیمنٹ پر زور دیا کہ وہ ایوان میں بامعنی بحث کریں۔
انھوں نے ٹویٹ کیا ’’معزز اراکین کو ملکی مفاد کے مسائل پر مثبت سوچنا اور بات چیت کرنی چاہیے۔ امید ہے کہ تمام پارٹیاں ایوان کے وقار اور شائستگی کو بڑھا کر اس میں اپنا حصہ ڈالیں گی۔‘‘
مرکز نے 12 اگست کو ختم ہونے والے اجلاس کے دوران تعارف کے لیے 24 بلوں کی فہرست دی ہے۔
ان میں ملٹی اسٹیٹ کوآپریٹو سوسائٹیز (ترمیمی) بل، دیوالیہ پن اور دیوالیہ پن کوڈ (ترمیمی) بل، پریس اینڈ رجسٹریشن آف پیریڈیکل بل، 2022، افراد کی اسمگلنگ (تحفظ، نگہداشت اور بحالی) بل، 2022 اور قدیم یادگاریں اور آثار قدیمہ کے مقامات اور باقیات (ترمیمی) بل، 2022 شامل ہیں۔
دی انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق پیر کے اجلاس سے پہلے مودی نے کہا کہ پارلیمنٹ کھلے ذہن کے ساتھ بات چیت کا ایک فورم ہے۔
انھوں نے کہا ’’میں تمام اراکین پارلیمنٹ سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ گہرائی سے غور کریں اور سیشن کو زیادہ سے زیادہ نتیجہ خیز اور مفید بنانے کے لیے معاملات پر تبادلۂ خیال کریں۔‘‘
یہ بیان مظاہروں، دھرنوں، ہڑتالوں، بھوک ہڑتال یا مذہبی تقریبات کے ساتھ ساتھ بعض الفاظ پر پابندی کے تنازعہ کے درمیان آیا ہے، جن میں بہت سے ایسے الفاظ بھی شامل ہیں جو نریندر مودی کی زیر قیادت مرکزی حکومت کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
احتجاج پر پابندی کی ہدایت اس لیے اہمیت رکھتی ہے کیوں کہ پارلیمنٹ کے گزشتہ چند اجلاسوں میں اپوزیشن رہنماؤں نے قومی اہمیت کے کئی معاملات پر ایوان کے احاطے میں مظاہرے کیے ہیں تاکہ حکومت پر ان پر بحث کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔ اس کی وجہ سے کئی اجلاس ملتوی ہوئے اور پارلیمنٹ کے اجلاس آخری تاریخ سے پہلے ہی ملتوی کردیے گئے۔