مودی کے نہلے پر کیجری کا دہلا

ہر قدم ایک نئی چال، بہت مشکل ہے: جال پھیلے ہیں تہِ جال بہت مشکل ہے

ڈاکٹر سلیم خان

للن سنگھ نے کلن اگروال سے کہابھیاسچ سچ بتاو کیا کرنسی نوٹ پر لکشمی یا گنیش کی تصویر لگانے سے خوشحالی آسکتی ہے ؟
کلن بولا بھیا اگر ایسا ہوتا تو گنیش کی مورتی بنانے والے خوشحال ہوگئے ہوتے لیکن وہ تو بیچارے مسکین کے مسکین ہی ہیں ۔
اچھا تو پھر تمہا رے اروند کیجریوال نے یہ کیوں کہہ دیا کہ کرنسی نوٹ پر لکشمی اور گنیش کی تصویر ہونی چاہیے ؟
اوہو للن سنگھ تم ان کا طنز نہیں سمجھے اسی لیے یہ سوال کررہے ہو ۔
اچھا تو کیا کیجریوال نے فون کرکے تمہیں بتا یا کہ اس کے پیچھے چھپا طنز کیا ہے؟
جی نہیں اس کی چنداں ضرورت نہیں عقل کے معمولی استعمال سے یہ کام ہوجاتا ہے۔
للن غصے سے بولا تم نے مجھے بے عقل کہا۔ میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا ۔
ارے بھیا کیجریوال تو دور تم میری بات بھی نہیں سمجھے ۔ عقل کااستعمال نہیں کرنے والے بے عقل نہیں ہوتے جیسے کنجوس آدمی مسکین نہیں ہوتا۔
للن بگڑ کر بولا تو کیا میں بخیل ہوں ؟
جی نہیں تم تو حاتم طائی سے بھی زیادہ فراخ دل ہو مگر وقت لگائے بغیر رائے بنا لیتے ہو۔
للن نے سوال کیا وقت لگائے بغیر، میں نہیں سمجھا؟
کلن نے پوچھا اچھا یہ بتاو کہ کیا تم نے کیجریوال کی پوری ویڈیو دیکھی یا یوں ہی رائے بنالی ۔
للن سر کھجا کر بولا ویڈیو تو دیکھی تھی مگر دھیان سے نہیں ۔
وہی تو میں کہہ رہا تھا کہ عقل استعمال نہیں کی۔ وہ ویڈیو دراصل ملک کی موجودہ معاشی صورتحال پر تبصرے سے شروع ہوتی ہے۔
للن بولا لیکن معاشی صورتحال کا انتخاب سے کیا تعلق ؟الیکشن سیاسی مسائل پر لڑا جا تا ہے۔
کلن نے کہا کیا معیشت چلانا سرکار کی ذمہ داری نہیں ہے؟ اور معاشی ابتری کے لیے حکومت ذمہ دار نہیں تو کون ہے ؟
سرکار ذمہ دار تو مگر اس کا لکشمی اور گنیش سے تعلق سمجھ میں نہیں آیا ۔
یہی تو کیجریوال کہہ رہے ہیں کہ ڈالر کی بڑھتی قیمت کے آگے حکومت بے بس ہے۔ اس معاشی گراوٹ کو سنبھالنا اس کے بس کا روگ نہیں ہے۔
للن بولا تو کیا سب رام بھروسے ہوگیا ہے ۔
جی ہاں اب سمجھے۔ اسی لیے کیجریوال نے وہ طنزکیا ۔ اب موجودہ سرکار سے تو کوئی امید نہیں ہاں دیوی دیوتاوں سے کچھ ہوجائے تو ہوجائے۔
یاریہ تو کمال کی بات ہے اس طرح آپ تو باپ سے بھی آگےنکل گئے۔
میں اپنے باپ سے آگے نکل گیا۔ یار بات سمجھ میں نہیں آئی ؟
کلن موقع پاکر بولا عقل کا استعمال کرو تو آجائے گی ۔ اروند کیجریوال آج کل ہندو عوام کو یہ سمجھا رہے ہیں کہ مودی سے بڑے ہندو وہ خودہیں ۔
جی ہاں اسی لیے تو مودی جو آٹھ سالوں میں سوچ بھی نہیں سکے اس کا مطالبہ کیجریوال نے کردیا لیکن اس کے جواب میں مودی بھگت کیا بولے ؟
کلن بولا وہ بیچارے کیا کہتے ۔ انہوں کہا یہ ایک سیکولر ملک ہے اس میں یہ ممکن نہیں ہے۔
یار کمال ہے کل تک تو سارے مودی بھگت سیکولرزم کو گالی بکتے تھے لیکن اب کیجریوال کے حملے سے اس میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں ۔
جی ہاں اور نہیں تو کیا مگر کیجریوال کا کہنا ہے اگر انڈونیشیا جیسے مسلم ملک میں یہ ممکن ہے تو ہندوستان میں کیا مشکل ہے؟
للن بولا یار یہ تو نئے قسم کا ہندوتوا ہے جو مسلمانوں کا مخالف نہیں ہے ۔ میں تو کبھی سوچا بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسا ممکن ہے ؟
کلن نے جواب دیا بھیا تب تو کہنا پڑے گا کہ کیجریوال ہے تو کچھ بھی ممکن ہے لیکن وہ آپ اور باپ والی بات اب بھی سمجھ میں نہیں آئی۔
ارے بھیا ایک زمانہ تھا کہ جب تمہارے پردھان جی جو بھی بولتے تھے سارے لوگ اسی پر گفتگو کرتے تھے ۔
جی ہاں لیکن وہ زمانے لد گئے۔ آج کل نہ کوئی ان کے من کی بات سنتا ہے اور نہ اس کو زیر بحث لاتا ہے۔
یہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ اب ان کا کام بس پرانے سرکاری پروجکٹس کا افتتاح کرنا یا نئے منصوبوں کا اعلان ہوکر رہ گیا ہے۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن اب کوئی ہمارے اعلانات پر یقین بھی نہیں کرتا ۔ پانچ سال قبل جو بولیٹ ٹرین چھوٹی تھی وہ ابھی تک ہوا میں ہے۔
ہوا میں ٹرین ؟ کیا بکتے ہو کلن ؟ یہ کیسے ممکن ہے؟؟
بھیا مودی ہے تو ممکن ہے ۔لیکن پھر بھی خوابوں کی ریل گاڑی اگر پٹری پر نہ ہو تو اسے ہوا میں نہیں تو کیا کہا جائے؟
جی ہاں لیکن ان ہوا ہوائی باتوں سے کب تک کام چلے گا ؟ بغیر کام کے وہ کتنے دن راج کریں گے؟؟
کلن نے کہا یار یہ بہت بری بات ہے کہ تم آپ اور باپ کو چھوڑ کر پردھان جی کے پیچھے پڑ گئے ۔ میرے سوال کا جواب ہی نہیں دیا۔
للن بولا معافی چاہتا ہوں ۔آپ سے میری مراد عام آدمی پارٹی اور باپ کا مطلب بھارتیہ جنتا پارٹی تھا ۔
اچھا وہ تو ٹھیک ہے مگر ان میں باپ بیٹے کا رشتہ کیسے قائم ہوگیا ؟
ارے بھیا باپ کا مطلب ہمیشہ اصلی باپ نہیں ہوتا جیسے ’راشٹر پتا ‘ گاندھی یعنی قوم کے باپ ۔
ارے بھائی میں سب جانتا ہوں جیسے ’راشٹر پتی ‘ یعنی قوم کا شوہر ۔
اوہو للن! پتی کا مطلب مالک کے بھی ہوتے ہیں جیسے لکھ پتی یا کروڑ پتی وغیرہ ۔
جی ہاں بھیا ایک زمانے میں شوہر اپنی بیوی کا مالک ہوتا تھا اب تووہ بیچارہ اپنی بیوی کاخادم بن کر رہ گیا ہے۔
اسی نوکرشاہی سے بچنے کے لیے پردھان جی اپنی بیوی جسودھا بین کو چھوڑ گئے لیکن تم بھی پھر سے آپ اور باپ سے دور نکل گئے ۔
جی ہاں معذرت چاہتا ہوں۔ تم رشتہ پوچھ رہے تھے تو سنو کیا بھارت کی جنتا یعنی بھارتیہ جنتا عام آدمی نہیں ہے؟
بالکل ہے ۔ اس میں شک شبہ کی کیا گنجائش ہے ؟
ہاں تو ایک کا نام بھارتیہ جنتا پارٹی ہے اور دوسرے کو عام آدمی پارٹی کہا جاتا ہے۔ الفاظ میں فرق ضرور ہے مگر مفہوم یکساں ہے کہ نہیں؟
ہاں بھائی یہ تو میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اگر جھاڑو الٹا کھڑا کرکے پھیلا دیا جائے تو کمل جیسا دکھائی دیتا ہے۔
وہی تو!فی الحال کیجریوال سر کے بل کھڑے ہوکر اپنے پیر پھیلا رہے ہیں تاکہ عآپ سے باپ بن جائیں ۔
کلن بولا یار تم نے تو غضب کی مثال دے دی ۔ قسم سے دل خوش ہوگیا لیکن تمہارے کیجریوال کو اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
للن بولا یار ایسا ہے کہ گنے میں سے ایک خاص وقت تک رس نکلتا ہے اور جب وہ بند ہوجائے تو اسے پھینک دیا جاتا ہے۔
کلن نے سر کھجا کر پوچھا بھیا تمہاری منطق میرے سر کے اوپر سے نکل گئی ۔ اس کو ذرا نیچے لاو تاکہ کھوپڑی کے اندر جاسکے ۔
اچھا! لیکن تم اپنا سر اونچا بھی تو کرسکتے ہو؟
جی ہاں لیکن اوپر جانے کے لیے خود پر کڑی محنت کرنی پڑتی ہے جبکہ نیچے لانے کی خاطر مخاطب کی ٹانگ کھینچنا کافی ہے ۔
للن بولا یار میں تو تمہیں بیوقوف سمجھتا تھا لیکن ایسا نہیں ہے ۔ تم تو میری ہی ٹانگ کھینچنے کی کوشش کررہے ہو ۔
جی نہیں ایسی بات نہیں میں تو صرف گنے کی تمثیل کو واضح کرنے کی گزارش کررہا تھا۔
بھائی ایسا ہے کہ ایک نعرے سے بہت دنوں تک لوگوں کو بیوقوف بنانا ممکن نہیں ہے اس لیے کچھ عرصہ بعد اسے کوڑے دان کی نذر کر دینا پڑتا ہے۔
جی ہاں مجھے پتہ ہے آج کل پردھان جی ’اچھے دن ‘ کو پوری طرح بھول کر ایودھیا میں دیئے جلا رہے ہیں ۔
یہی کیجریوال کا حال ہے۔ بدعنوانی کو ختم کرنے کے لیے لوک پال کا مطالبہ کرنے والا برسوں تک سرکار چلانے کے باوجود اس کا تعین نہیں کرسکا ۔
ہاں بھائی کیجریوال لوک پال اور بدعنوانی کو وہ کب کا بھول گئے مگرپانی ، بجلی، تعلیم اور صحت کا کیا؟ وہ اس کی بات کیوں نہیں کرتے۔
اس کے لیے کیجریوال نہیں ،عام آدمی قصور وار ہے۔
ارے بھیا عام آدمی کو بجلی ، پانی، تعلیم اور صحت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔ وہ بھلا کسی کو یہ نعرہ لگانے سے کیوں روکے گا؟
دیکھو کلن تمہاری بات درست ہے۔ عوام کو بجلی ، پانی، تعلیم اور صحت کی ضرورت تو ہے لیکن وہ اس کے لیے ووٹ نہیں دیتے ۔
کیا بات کرتے ہو۔ دہلی کے لوگوں نے لگاتار تین بار کیجریوال کو کامیابی سے نوازا اور اب تو پنجاب بھی فتح ہوچکا ہے۔
بھیا دیکھو اب لوگ ان نعروں سے بور ہوگئے ہیں ورنہ پچھلی بار کیجریوال کوماروتی مندر کے باہر ہنومان چالیسا نہیں پڑھنا پڑتا ۔
اوہو للن تم اتنا بھی نہیں سمجھتے ۔ وہ تو بی جے پی کی رام دھنُ کو مات دے کر ہندو رائے دہندگان کو بیوقوف بنانے کے لیے ضروری ہوگیا تھا ۔
ہاں تو اب گجرات کے لوگوں کو بیوقوف بنانے کا مرحلہ پیش نظر ہے اس لیے کرنسی نوٹ پرلکشمی اور گنیش کا مطالبہ لازمی ہوگیا ہے۔
یار للن دھن کی دیوی لکشمی ضرور ہے لیکن دیوتا تو کبیر ہے یہ درمیان میں گنیش کہاں سے آگئے؟
ارے بھیا سمجھتے کیوں نہیں گجرات میں کوئی کُبیر کی پوجا نہیں کرتا ایسے میں وہ تصویر لگانے سے کیا فائدہ ؟ گنیش کو ماننے والے بہت ہیں کیا سمجھے؟
کلن بولا اب سمجھا یعنی کل کو کیجریوال بنگال جائیں گے تو وہاں درگا کی تصویر لگانے کا مطالبہ کریں گے ؟ ارے بھیا یہ سلسلہ آخر رکے گا کہاں ؟؟
ہاں یار تینتیس کروڑ دیوتا تو 75؍ سال قبل تھے اب تک نہ جانے کتنے کا اضافہ ہوگیا ہے؟
جی ہاں تم نے درست کہا ۔ ناتھورام گوڈسے کے مندر کی تصویر تو میں انٹر نیٹ پر دیکھ ہی چکا ہوں ۔
ویسے کلن ایک بات بتاوں یہ احمقانہ نعرہ لگا کر کیجریوال جس طرح ذرائع ابلاغ پر چھا گئے اس کے آگے تو پندرہ لاکھ والا وعدہ بھی فیل ہے۔
جی ہاں وہ تو ہے لیکن کیا اس طرح کیجریوال کو پردھان جی سے بھی زیادہ مقبولیت مل جائے گی ؟
یہ بھی ممکن ہے کیونکہ اگر مودی جی ایسے حربوں سے منموہن سنگھ جیسے باصلاحیت وزیر اعظم کو شکست دے سکتے ہیں تو کیجریوال ان کو کیوں نہیں ؟
یار للن مجھے ڈر ہے کہ اس کُشتی کا فائدہ کہیں بھارت جوڑو یاترا پر نکلے ہوئے راہل گاندھی کو نہ مل جائے ۔
للن نے کہا یہ تم درمیان میں راہل کو کیوں لے آئے؟ اس کا نوٹ کے تنازع سےکیا تعلق ہے ؟
نوٹ سے تو نہیں مگر یاترا کا ووٹ سے گہرا تعلق ہے۔ راہل عوام سے تعلق جوڑ رہا ہے اور اگر وہ ووٹ میں بدل جائے تو ہاتھ چل جائے گا۔
اس کے بارے تو کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن ٹوئٹر کے معاملے میں ایلون مسک کو مشورہ دینے والاراہل نوٹ تنازع پر تبصرہ کیوں نہیں کرتا؟
بھیا یہ راہل کی گہری چال ہے ۔ وہ اس پھٹے میں ٹانگ نہیں ڈالنا چاہتا ۔
کیوں ؟ یہ چال بھی میری سمجھ کے اوپر سے گزر گئی۔
ارے بھیا وہ چاہتا ہے کہ مودی کے لوہے کو کیجریوال کا لوہا کاٹے اور درمیان سے یاترا لے کر اقتدار کی جانب نکل جائے ۔
کلن نے کہا یار لیکن اگر کمل کے ہندوتوا پر کیجریوال کے ہندوتوا کا جھاڑو چلنے لگے تو بیچارے مسلمانوں کا کیا ہوگا؟ وہ تو کہیں کے نہیں رہیں گے؟
للن بولا اس سوال کا بہترین جواب جمن خان کے سوا کوئی نہیں دے سکتا ۔
جی ہاں لیکن اب وہ کہاں ملے گا ؟
وہ تمہارے پیچھے سے ہاتھ ہلاتا ہوا چلا آرہا ہے۔
ارے تم نے اسے کیسے دیکھ لیا جبکہ میں نہیں دیکھ سکا ۔
للن بولا دیکھو بھیاچونکہ ہم لوگ آمنے سامنے ہیں اس لیے ایک دوسرے کے پیچھے دیکھ سکتے ہیں ۔
ہاں یار میں تو بھول ہی گیا تھا۔ چلو اس سے پوچھتے ہیں ۔
کلن نے پیچھے مڑ کر کہا پرنام جمن خان کیسے ہو؟
جمن بولے سلام کلن بھیا آپ کیسے ہو؟
للن نے پوچھا بھائی ہم سوچ رہے تھے کہ اگر کیجریوال نے بھی ہندوتوا کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیا تو آپ لوگ کیا کروگے؟
جمن نے جواب دیا ہم کیا کریں گے ؟ یہ بھی کوئی سوال ہے ۔ گجرات کے اندر تو اپنا ہاتھ جگناتھ ۔
کلن نے کہا ارے یار میں تو یہ بھول ہی گیا تھا لیکن اب تو وہ ہاتھ ٹوٹ گیا ہے ۔ اس کو تھامنے سے کیا فائدہ ؟
جمن بولا اچھا اگر ایسا ہے تو سابق وزیر اعلیٰ شنکر سنگھ واگھیلا کے بیٹے مہندر سنگھ نے کمل کو چھوڑ کر جھاڑو کیوں نہیں تھاما؟
للن نے کہا بھیا وہ تو پرانا کانگریسی ہے۔ 2012میں کانگریس کے ٹکٹ پر اراولی سے الیکشن جیت چکا ہے۔
جمن بولا مجھے پتہ ہے لیکن کیا تم نہیں جانتے اس سال مئی میں وہ بی جے پی میں شامل ہوگیا تھا ۔
کلن نے کہا اچھا ! تو پھر اس نے کمل کا ساتھ کیوں چھوڑ دیا؟
جمن بولا بھیا سیدھی بات ہے ۔ طوفان سے پہلے ڈوبتے جہاز میں رہنا کون پسند کرتا ہے؟
للن نے پوچھا لیکن اس بیوقوف نے جھاڑو تھامنے کے بجائے ہاتھ کیوں تھام لیا؟
جمن نے جواب دیا بھیا وہ شنکر سنگھ واگھیلا کا بیٹا ہے جو کاغذی شیر اور اصلی چیتے کا فرق جانتا ہے ۔
للن سنگھ نے تائید کی جی ہاں اسی لیے تو اس کا نام واگھیلا ہے یعنی شیر والا ۔ نہ کمل والا اور نہ جھاڑو والا ۔
کلن نے پوچھا لیکن یار یہ نوٹ پر لکشمی اور گنیش کا کیا ہوگا؟ کیا اس سے خوشحالی آجائے گی؟؟
جمن نے کہا جب گاندھی جی کی تصویر سے بدعنوانی ختم نہیں ہوئی تو لکشمی کی تصویر سے خوشحالی کیسے آسکتی ہے؟
کلن بولا ہاں یار تصویروں سے کام چلانا اس قدر آسان ہوتا تو اروند کیجریوال کو بدعنوانی کے خلاف تحریک چلانے کی ضرورت ہی کیوں پڑتی ؟
جمن نے کہا کیجریوال کو یہی تو افسوس ہے کہ بدعنوانی کے خلاف تحریک چلا کر انہوں نے منموہن کو ہٹایا مگر اقتدار کی کرسی پر مودی جی براجمان ہوگئے۔
للن بولا جی ہاں بھیا بات تو درست ہے لیکن اگر مودی کو ہٹا کر کیجریوال اقتدار پر فائز ہوجائیں توکیاکرنسی نوٹ کا ناک نقشہ بدل جائے گا ؟
للن بولا جی نہیں میرے خیال میں تو وہی ہوگا جو پندرہ لاکھ کا ہوا ۔ لوگ کچھ دن یاد رکھیں گے اور پھر بھول بھال جائیں گے ۔
کلن نے کہا جی نہیں میں پوچھ رہا تھا کہ گجرات کے صوبائی الیکشن پر اس کا کیا اثر پڑے گا ؟
جمن نے جواب دیا اتنے اتاولے کیوں ہورہے ہو۔ اس کے لیے دس دسمبر تک انتظار کرواس کے بعد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔
***

 

***


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 نومبر تا 12 نومبر 2022