مودی حکومت میں اجرتوں میں نمو حقیقت میں صفر
زرعی، غیر زرعی اور تعمیراتی شعبوں میں 2014کے بعد سے کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا
زعیم الدین احمد حیدرآباد
مودی حکومت نے موجود اسکیموں سے بجٹ کاٹ کر بیت الخلاؤں کی تعمیر، ایل پی جی گیس کی اسکیم اور گھروں کی تعمیر کے لیے مختص کیا ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت ان اسکیموں کی کامیابی کا دعویٰ کرتی ہے اور خوب پروپیگنڈا کرتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب دعوے جھوٹے ہیں۔جتنا بجٹ دیا گیا اتنا میدان پر کام نظر ہی نہیں آتا ہے۔
مودی سرکار کا دعویٰ ہے کہ اس نے ہر شعبے کے مزدوروں کی اجرتوں میں اضافہ کیا ہے، اس کا کہنا ہے کہ خاص طور پر زرعی شعبے میں تو مزدوروں کی اجرتوں میں دوگنا اضافہ ہوا ہے، لیکن کیا واقعی صورت حال ایسی ہی ہے؟ جب ہم اس دعوے کی گہرائی میں جا کر جائزہ لیں گے تو حقیقت حال اس کے بالکل برعکس نظر آتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زرعی مزدوروں کی اجرتوں میں 2014 سے کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ مودی کے اقتدار میں آنے سے پہلے کی دہائی سے اگر اس کا موازنہ کریں گے تو الٹا اس میں کمی آئی ہے۔ اس وقت زرعی مزدوروں کی اجرتوں میں سالانہ 5-6 فیصد اضافہ ہوا کرتا تھا۔ اسی طرح انٹیگریٹڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ سروسز یعنی آئی سی ڈی ایس، وہ سرکاری پروگرام ہے جس میں چھ سال سے کم عمر کے بچوں اور ان کی ماؤں کو غذائیت سے بھرپور کھانے کی فراہمی کی جاتی ہے، پری اسکول کی تعلیم کا نظم کیا جاتا ہے، بنیادی صحت کی فراہمی، ٹیکوں، صحت کی جانچ اور دوپہر کا کھانا جیسی خدمات فراہم کرتا ہے۔ ان سب پر ہونے والے اخراجات میں بھی 40 فیصد کی کمی آئی ہے۔
مودی حکومت کے دس سالہ دور میں مزدوروں کی اجرتوں سے متعلق دو معاشی ماہرین جین ڈریز اور ریتیکا کھیرا نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ تحقیق کرتے ہوئے ڈیٹا جمع کیا ہے، ان اعداد و شمار کے مطابق حقیقی اجرتوں میں کوئی اضافہ نہیں دیکھا گیا ہے، لوک تنتر بچاؤ کے زیر اہتمام منعقدہ پریس کانفرنس میں اپنے نتائج پیش کرتے ہوئے ان اقتصادی ماہرین نے کہا کہ زرعی، غیر زرعی اور تعمیراتی شعبوں میں "2014 کے بعد سے حقیقی اجرتوں میں بمشکل ہی اضافہ محسوس کیا گیا ہے”۔
وزارت زراعت کے اعداد و شمار کے مطابق 2014-2024 سے زرعی مزدوروں کے لیے حقیقی اجرت یعنی ایسی اجرت جو مہنگائی کے لیے ایڈجسٹ کی گئی ہے، اس میں ہر سال 1.3 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ جب کہ منموہن سنگھ کے دور اقتدار 2004-2014 کے دوران حقیقی اجرتوں میں ہر سال 6.8 فیصد کا اضافے ہوتا تھا۔
مودی کے اقتدار میں آنے سے پہلے والے دس سالوں میں حقیقی اجرتیں بہت تیزی سے بڑھ رہی تھیں۔ ہر سال تقریباً 5-6 فیصد اضافہ ہو رہا تھا جو کہ غیر معمولی بات ہے۔ حقیقی اجرتوں میں اضافہ کی یہ رفتار آزادی کے بعد سب سے زیادہ تھی۔ مودی طعنے دیا کرتے تھے کہ منموہن سنگھ "ماون موہن پردھان منتری” ہیں جو کچھ بولتے نہیں۔ بھاجپا نے اتنا جھوٹ پھیلایا کہ لوگ ان کے جال میں پھنس گئے اور اب صورت حال عملی طور پر صفر ہو گئی ہے۔
اجرتوں میں اضافہ نہ ہونے کا مرض اور کمی صرف زرعی شعبے تک محدود نہیں ہے۔ راجستھان اور گجرات میں بھٹہ مزدوروں (اینٹ بنانے والوں) کی اجرتوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے، وہ بھی بے چارے مہنگائی اور روزگار کے دیگر مواقع نہ ملنے کا شکار ہیں۔ اینٹوں کے بھٹوں میں محنت مزدوری کرنے والے ملک کے سب سے غریب ترین لوگ ہوتے ہیں، اس شعبے میں کام کو آخری چارہ کار کے طور پر کیا جاتا ہے۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ پیراڈک لیبر فورس سروے پی ایل ایف ایس کے (2017-22) کے اعداد و شمار کے مطابق، تنخواہ دار طبقے اور خود روزگار پیدا کرنے والوں میں بھی حقیقی اجرتوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔
فلاحی اسکیموں پر اخراجات اور سماجی تحفظ
بھاجپا اور اس کے کارندوں نے مودی کی شبیہ ایک عوامی مسیحا کے طور پر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، سوشل میڈیا پر تو ان شبیہ عوام پر خزانے لوٹانے والا، غریبوں کا مسیحا، رام کا اوتار اور نہ جانے کیا کیا القابات سے نوازا گیا، لیکن جب ہم حقیقت حال کا جائزہ لیتے ہیں تو تصویر اس کے برعکس نظر آتی ہے۔ 2014 میں مودی سرکار نے پانچ فلیگ شپ اسکیموں کا اعلان کیا تھا، اور کہا تھا کہ یہ ملک میں سماجی تحفظ کے نظام کی بنیادوں کو مضبوط کریں گے۔ وہ پانچ اسکیمیں یہ تھیں: راشن کی تقسیم کا نظام (PDS) نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ (NREGA) زچگی کے وقت دیے جانے والے فوائد، پنشن اسکیم، انٹیگریٹڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ سروسز (ICDS) کے تحت بچوں کو غذائیت سے بھرپور غذاؤں کی اسکیمیں اور دو پہر کے کھانا کا پروگرام۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اسکیمیں پہلے ہی سے چلی آرہی تھیں، منموہن سنگھ کے دور میں بڑے پیمانے پر یہ اسکیمیں چل رہی تھیں اور اچھی طریقے سے چل رہی تھیں۔ لیکن یہ پانچوں اسکیموں کو این ڈی اے نے کسی نہ کسی طریقے سے کم زور کر دیا۔ واضح رہے کہ پنشن کو چھوڑ کر دیگر تمام اسکیمیں ہندوستانی شہریوں کے قانونی حقوق کا حصہ ہیں، جنہیں قانون سازی یا عدالتی احکامات کے ذریعے حاصل کیا گیا ہے، یہ مودی حکومت کی سخاوت کے نتیجہ نہیں ہے۔ اس لحاظ سے تو مودی سرکار قانون کے عدم احترام یا عدم پاسداری کی مرتکب ہے۔
مودی کے دس سالہ دور اقتدار میں آئی سی ڈی ایس اور دو پہر کے کھانے یعنی مڈ ڈے میل کے مختص کیے جانے والے بجٹ میں 40 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس اسکیم کے تحت بہت سے پروگرام ہوتے تھے لیکن این ڈی اے حکومت نے 2021 میں اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور دو نئی اصطلاحات دیں، سکشم اور سمرتھیا۔ سکشم کے تحت آنگن واڑی، نیشنل نیوٹریشن مشن کو شامل کیا گیا ہے، جب کہ اس سے پہلے یہ دو علیحدہ اسکیمیں ہوا کرتی تھیں۔
2020 میں آنگن واڑی اسکیم کے لیے مختص بجٹ 20,532 کروڑ روپے تھا۔ 2021میں آنگن واڑی اور نیشنل نیوٹریشن مشن کو سکشم کے تحت کر دیا گیا، اس کے لیے بجٹ 20,105 کروڑ روپے مختص کر دیا گیا یعنی 400 کروڑ روپے کم کردیے گئے ہیں۔ آنگن واڑی اسکیم کو دو طرح سے نقصان ہوا، ایک تو بجٹ کم کردیا گیا اور دوسری اسکیموں کو اس میں شامل کر دیا گیا۔
پی ڈی ایس
راشن کی تقسیم کا نظام: 2021 میں مردم شماری نہ کرانے اور آبادی کے صحیح اعداد و شمار نہ ہونے کی وجہ سے تقریباً دس کروڑ لوگ راشن تقسیم کے نظام (پی ڈی ایس) سے باہر ہوگئے ہیں، یقیناً اسے مودی حکومت کی ناکامی ہی قرار دیا جائے گا۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم اب بھی پچھلی مردم شماری کے 80 کروڑ کے اعداد و شمار میں ہی پھنسے ہوئے ہیں کیونکہ 2021 کی مردم شماری ہونی تھی وہ نہیں ہوئی، آزادی کے بعد سے ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ وقت پر مردم شماری نہیں ہوئی ہے۔ نیشنل فوڈ سیکیورٹی ایکٹ کے تحت 50 فیصد شہری علاقے اور 75 فیصد دیہی علاقوں کی آبادی کو پی ڈی ایس اسکیم کے تحت لایا جانا چاہیے تھا۔ اس ایکٹ کے تحت ہی حکومت 80 کروڑ تک پہنچ سکی ہے۔ اگر وقت پر مردم شماری کرائی جاتی تو تقریباً دس کروڑ لوگ پی ڈی ایس سے مستفید ہو سکتے تھے۔
اس کے علاوہ حاملہ خواتین کو زچگی کے دوران دیے جانے والے فوائد کو غیر قانونی طور پر ایک ہی بچے تک محدود کر دیا گیا ہے۔ نیشنل سوشل اسسٹنس پروگرام (این ایس اے پی) کے تحت سماجی تحفظ کی پنشن میں مرکزی شراکت 200 روپے ماہانہ تک محدود کردی گئی ہے۔ ین آر ای جی اے کی اجرتیں حقیقی معنوں میں جمود کا شکار ہیں اور شاذ و نادر ہی وقت پر ادا کی جاتی ہیں۔
مودی حکومت نے موجود اسکیموں سے بجٹ کاٹ کر بیت الخلاؤں کی تعمیر، ایل پی جی گیس کی اسکیم اور گھروں کی تعمیر کے لیے مختص کیا ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت ان اسکیموں کی کامیابی کا دعویٰ کرتی ہے اور خوب پروپیگنڈا کرتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب دعوے جھوٹے ہیں۔جتنا بجٹ دیا گیا اتنا میدان پر کام نظر ہی نہیں آتا ہے۔
مثال کے طور پر مودی حکومت نے 2019 میں ملک کو "کھلے میں رفع حاجت سے پاک” کرنے کی اسکیم بنائی تھی لیکن این ایف ایچ یس-5 کے 2019 تا 2021 کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً 20 فیصد گھرانوں میں بیت الخلا کی سہولت ہی نہیں ہے۔
مودی حکومت کی بے شرمی یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وہ یو پی اے حکومت کی جانب سے شروع کی گئی اسکیموں کا نام تبدیل کر کے ان کو اپنی اسکیم قرار دیتی ہے، پی آر اور مارکیٹنگ کے ذریعے اپنی خوب تعریف و توصیف کرانے میں مصروف رہتی ہے۔
پی ایم آواس یوجنا جو پہلے اندرا آواس یوجنا ہوا کرتی تھی، سوچھ بھارت مشن اب نرمل بھارت مشن ہوئی گئی ہے، آئی سی ڈی ایس اور مڈ ڈے میل کو ملا دیا گیا ہے اور اب یہ پی ایم پوشن اسکیم بن گئی ہے، راجیو گاندھی پینے کے پانی کی اسکیم کا نام بدل کر جل جیون مشن رکھ دیا گیا ہے اور پی ڈی ایس کا نام بدل کر پردھان منتری غریب کلیان یوجنا رکھ دیا گیا ہے۔
یہ ہے مودی حکومت کی حقیقت
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مئی تا 18 مئی 2024