’’جدید ہندوستان۔ چند تصویریں‘‘

ہفت روزہ دعوت کے کالم نویس شبیع الزماں کی کتاب منظر عام پر

جناب شبیع الزماں کی کتاب ” جدید ہندوستان: چند تصویریں‘‘ 27 مارچ کوجلگاوں میں منعقدہ ایک تقریب میں رسم اجرا کے بعد منظر عام پر آچکی ہے۔ یہ کتاب ہندوستان کے موجودہ حالات سے گفتگو کرتی ہے ۔ کتاب کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ پہلے حصے میں ہندوتواد کی بدلتی پالیسی و پروگرام پر گفتگو کی گئی ہے ، دوسرے حصے میں ہندوستانی مسلمانوں کی صورت حال اور چیلینجیز پر روشنی ڈالی گئی ہے ،تیسرا حصہ بدلتے ہندوستانی سماج کو واضح کرتا ہے اور چوتھے حصے میں نئی ہندوستانی سیاست کا تجزیہ کیا گیاہے ۔
کتاب کا پہلا حصہ ’’ہندتوا۔ منظر اور پس منظر‘‘ ہندوتوا کے نظریاتی فریم ورک اور بدلتی پالیسی سے گفتگو کرتا ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ سنگھ کی پالیسوں اور اسٹریٹیجی میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں۔ کتاب میں کوشش کی گئی ہے کہ سنگھ پرشائع ہونے والی تازہ ترین تحقیق سے استفادہ کرتے ہوئے اسکی موجودہ پالیسیوں اور حکمت عملی سے لوگوں کو واقف کرایا جائے۔جیسےکتاب بتاتی ہے کہ کس طرح سنگھ ایک زمانے میں گاندھی اور امبیڈکر کا سخت ناقد تھا اور آج انہیں اپنانے پر تلا ہے۔اسی طرح سنگھ، جس کی آئیڈیالوجی اعلیٰ ذاتوں کے تحفظ پر مبنی ہے انتخابی سیاست کے پیش نظر آدی واسیوں، دلتوں،اور مسلمانوں تک پہونچنے میں لگا ہے۔
کتاب کا دوسرا حصہ’’ ہندوستانی مسلمان۔ نئی زمین نیا آسمان ‘‘ مسلمانوں سے متعلق ہے۔اس میں مسلمانوں کو ملک میں درپیش چلینجیز، ان کی موجودہ پوزیشن اور ان کی اصولی حیثیت پر گفتگو کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ اس حصہ میں سی اے اے اور این آرسی قوانین اور اسکے اثرات اور احتجاج پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔
کتاب کا تیسرا حصہ ’’ہندوستانی سماج جدید منظر نامہ‘‘ میں بدلتے ہوئے ہندوستانی سماج کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ہندوستانی سماج کو ٹھیک سے نہ سمجھنے کے نتیجے میں ہمارے اپروچ اور طریقہ عمل میں کئی خامیاں پیدا ہوگئی ہیں۔مثلاً ہندوستان میں دعوت کے تناظر میں کتاب بتاتی ہے ’’جہاں تک دعوتی طریق عمل کا تعلق ہے تو اب نہ وہ رحم دل صوفیا رہے اور نہ ان کی متاثر کن دعوت باقی رہی ہے۔مسلم حکومتوں کا خاتمہ ہوگیا ہے۔برہمنوں کے ذریعے تشکیل کردہ ہندتوا کا نظریہ سیاسی طور پر ملک کی سیاست پر اور ہندو سماج میں نظریاتی طور پر غالب ہوچکا ہے۔سیاسی اقتدار بہت ہی چالاکی اور مضبوطی سے اشاعت اسلام کے تمام امکانات کو ختم کررہا ہے۔نیا ہندوستان قدیم ہندوستان سے بہت مختلف ہے۔ آج دعوت دین کے نئے اپروچ کے ساتھ جدید حکمت عملی کی ضرورت ہے اور ایسے اسباب اور دلائل کی ضرورت ہے جو جدید ہندوستانی سماج کو اسلام کی حقانیت پر پھر سے قائل کرسکے۔
کتاب کے اس حصے میں اسلاموفوبیا پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔ جس میں ہندوستان میں اسلامو فوبیا اور مغربی ممالک کے اسلاموفوبیا کے فرق کو واضح کیا گیا ہے۔اس طرح اسلاموفوبیا سماج میں کس درجہ سرایت کرگیا ہے اسے مختلف سرویز ، رپورٹس اور ملک میں ہورہے مختلف واقعات کی روشنی میں سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
کتاب کا آخری حصہ ’’ ہندوستانی سیاست۔ نیا افق‘‘ ہندوستانی سیاست کے بدلتے ہوئے رخ کو واضح کرتا ہے۔جس میں بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ بی جے پی کس طرح ہندوستان کی خیالی تصویر کو بدلنا چاہتی ہے۔اسی کے ساتھ اس حصہ میں بی جے پی اور مودی کی کامیابی کے عوامل کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
کتاب کے آخر میں ایک مضمون’’ نیا زمانہ نئے صبح وشام پیدا کر‘‘ کے عنوان سے ہے جس میں مصنف نے موجودہ صورتحال کے تاریخی عوامل بیان کیے ہیں۔ مصنف ایک جگہ رقم طراز ہے:’’ اکیسوی صدی کو صرف آج کے احوال سے نہیں سمجھا جاسکتا ہے بلکہ اس ماضی کو سمجھنا ہوگا جس کے بطن سے اکیسویں صدی نے جنم لیا ہے۔ چنانچہ اگر ہم بھارت میں مسلمانوں کی موجودہ صورتحال کو سمجھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے تاریخ کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔بالخصوص 1857 سے لیکر 1947 تک کا دور جسے جدید ہندوستان کا تشکیلی دور کہا جا سکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں برصغیر میں بڑی تبدیلیاں رو نما ہوئیں اس زمانے میں پیدا ہونے مسائل اور بے چینی آج تک ختم نہیں ہوئی یہاں تک کہ اس کے لیے ہندوستان کی تقسیم جیسی قیمت بھی ادا کر دی گئی مگر زخم ہیں کہ اب تک رس رہے ہیں اور مرہم کا کچھ پتہ نہیں۔‘‘
شبیع الزماں آزاد صحافی ہیں اور ان کے یہ مضامین وقتاً فوقتاً ہفت روزہ دعوت میں شائع ہوتے رہے ہیں اس سے پہلے ان کی کتاب ” ہندوتوا:بدلتے ہندوستان کی زعفرانی تصویر” شائع ہوچکی ہے۔رسم اجرا کے موقع پر مصنف نے اپنے محسنین کا بھی تذکرہ کیا جنہوں نے کتاب کی تیاری میں انکی مددکی ۔ انھوں نے کہا ’’میں ہفت روزہ دعوت کے مدیر محترم فہیم الدین صاحب کا شکرگزارہوں جن کی مستقل رہنمائی کے سبب یہ کام ممکن ہوپایا ۔فہیم الدین صاحب نے زبان و بیان کے ساتھ فکر و نظر کی اصلاح کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔
میں برادر ندیم انصاری کا بھی ممنون ہوں جن کی گفتگو سے علم وفکر کے نئے زاویے سامنے آتے رہے ہیں اور جن کے مشوروں سے کتاب کو بہتر بنانے میں مدد بھی ملی ہے۔کتاب کا ابتدائیہ بھی انہی کے قلم سے ہے ۔ برادرحسان الدین سنبھلی کا بھی شکر گزار ہوں ، جن کا مستقل تعاون سے کتاب کی تیاری مدد ملی۔آخر میں ابن خلدون اسٹڈی اینڈ ریسرچ سینٹر کی نوجوان اور پرجوش ٹیم کے تعاون کا شکر گزار ہوں جن کی محنت اور حوصلے کے سبب یہ کتاب شائع ہوپائی ۔‘‘
رسم اجراء کے موقع پر علاقہ خاندیش کی اہم شخصیات موجود تھیں۔جنہوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے مصنف کو مبارکباد پیش کی اور کہا کہ اس کتاب میں ہندوستان کے موجودہ سماجی و سیاسی حالات کا بھرپور تجزیہ کیاگیا ہے،امید ہے کہ یہ کتاب قارئین کے دل و دماغ کو اپیل کرے گی۔ شرکاء میں جماعت اسلامی جلگاوں کے امیر مقامی اور مشہور داعی سہیل امیر شیخ، خلیل پٹھان ایجوکیشن آفیسر جلگاوں،جناب عبدالکریم سالار (صدر اقراءایجوکیشن سوسائٹی)، ریحان فضل (ڈائریکٹر اب خلدون اسٹڈی اینڈ ریسرچ سینٹر)، دلشاد احمد خان پونہ( سینئر ساینٹسٹ۔ ٹاٹا ریسرچ ڈیولپمینٹ اینڈ ڈیزائن سینٹر)، احمد سر( ایم آئی ایم ضلعی صدر) شامل تھے۔
ابن خلدون ہسٹری اینڈ ریسرچ سینٹر کے زیر اہتمام مطبوعہ اس کتاب کے ملنے کا پتہ ہے: ابن خلدون اسٹڈی اینڈ ریسرچ سینٹر ۔شیواجی نگر ۔جلگاؤں مہاراشٹرا۔425001
[email protected]
Phone- +91- 80875 03521
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  24 تا 30 اپریل  2022