پلوامہ حملے پر قابل اعتراض پوسٹ شیئر کرنے کے الزام میں نابالغ کشمیری طالب علم کو حراست میں لے لیا گیا

نئی دہلی، فروری 15: اے این آئی کی خبر کے مطابق پلوامہ حملے کے بارے میں سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر قابل اعتراض مواد پوسٹ کرنے کے الزام میں مدھیہ پردیش کے نیمچ ضلع میں ایک نابالغ کشمیری طالب علم پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا ہے اور اسے حراست میں لیا گیا ہے۔

پولیس سپرنٹنڈنٹ سورج ورما نے کہا کہ نابالغ طالب علم نے 14 فروری 2019 کو ہونے والے حملے میں ہلاک ہونے والے تمام 40 اہلکاروں کی تصاویر شیئر کیں اور ان کی موت کو بابری مسجد کے انہدام کا بدلہ قرار دیا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک کارکن کی شکایت کی بنیاد پر طالب علم کے خلاف پہلی معلوماتی رپورٹ درج کی گئی تھی۔

طالب علم پر تعزیرات ہند کی دفعہ 124 اے (بغاوت)، 153 اے (مذہب، نسل، جائے پیدائش، رہائش، زبان وغیرہ کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) اور 505 (عوامی فساد کو ہوا دینے والے بیانات) کے تحت چارج کیا گیا ہے۔

ورما نے کہا ’’ملزم کا موبائل فون اور لیپ ٹاپ ضبط کر لیا گیا ہے اور ان کی جانچ کی جا رہی ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ملزم مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پاکستانی فوج کو فالو کر رہا ہے۔‘‘

واضح رہے کہ 14 فروری 2019 کو ایک خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری کار ایک بس سے ٹکرا دی جس میں سنٹرل ریزرو پولیس فورس کے 40 اہلکاروں کو لے جایا جارہا تھا، جس میں وہ سبھی ہلاک ہو گئے۔ پاکستانی دہشت گرد تنظیم جیش محمد نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

اگست 2020 میں قومی تحقیقاتی ایجنسی نے اس کیس میں ایک چارج شیٹ داخل کی تھی، جس میں جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر اور دیگر 18 افراد کو نامزد کیا گیا تھا۔