گوا میں ہیٹ ٹرک کرنا بی جے پی کے لئے کٹھن چیلینج

افروز عالم ساحل

گوا کی تمام 40 اسمبلی سیٹوں کے لیے ووٹنگ ختم ہو چکی ہے۔ یہاں کے 301 امیدواروں کی قسمت الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) میں قید ہوگئی۔ اب یہاں کے لوگ نتیجہ کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہاں بھی ووٹوں کی گنتی 10 مارچ کو ہونی ہے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق اس بار گوا میں کل 78.94 فیصد ووٹنگ ہوئی ہے۔ تاہم یہ تعداد گزشتہ انتخابات کے مقابلے قدرے کم ہے۔ 2017 کے انتخابات کے دوران یہاں 82.56 فیصد پولنگ ریکارڈ کی گئی تھی۔ اس وقت کانگریس نے 17 سیٹیں جیتی تھیں، جب کہ بی جے پی کو 13 سیٹیں ملی تھیں، یعنی کسی بھی پارٹی کو واضح اکثریت نہیں ملی تھی، لیکن بی جے پی نے  مرکز سے اپنے وزیر منوہر پاریکر کو بھیج کر کچھ علاقائی پارٹیوں اور آزاد جیتنے والے امیدواروں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے میں کامیاب رہی تھی۔

ہفت روزہ دعوت نے ساحلی ریاست کے لوگوں سے بات کی تاکہ یہ سمجھ سکیں کہ اس بار یہاں کیا نتیجہ نکلنے کا امکان ہے۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بار کے الیکشن میں کون سی پارٹی بازی مارنے والی ہے، یہ کہنا کسی بھی سیاسی تجزیہ کار کے لئے مشکل ہے۔ کیونکہ اس بار ریاست میں عام آدمی پارٹی اور ترنمول کانگریس جیسی پارٹیاں بھی میدان میں ہیں۔ کرانتی کاری گوا پارٹی بھی الیکشن لڑ رہی تھی۔ ایسے میں امیدواروں کی تعداد بڑھنے سے ووٹروں کی تقسیم کا بھی خدشہ ہے۔ کانگریس کی حالت اگرچہ اس مرتبہ گزشتہ الیکشن کے مقابلے بہتر ہی نظر آرہی ہے، لیکن یہ بات دھیان رکھنے کی ہے کہ گوا میں جیت ہار کا فرق بہت کم ووٹوں کا ہوتا ہے۔ 100-500 ووٹوں کی وجہ سے صورتحال بدل جاتی ہے۔ ووٹوں کے بٹوارے سے بی جے پی کا بھی فائدہ ہوسکتا ہے۔ کل ملا کر صورتحال ایسی ہے کہ کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کر رہا ہے کہ کس کو کتنی سیٹیں ملیں گی، لیکن سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ بی جے پی کے لیے ہیٹ ٹرک کرنا بہت مشکل چیلنج ہے۔

سینئر صحافی اور مصنف سندیش پربھودیسائی کا کہنا ہے کہ بی جے پی گوا میں اقتدار کی ہیٹ ٹرک کرنا چاہتی ہے۔ لیکن یہاں ہندوتوا یا کسی اور مذہب کے ایجنڈے کے ساتھ گوا میں اقتدار میں آنا مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گوا بی جے پی کے لیے ایک چیلنج ثابت ہونے والا ہے۔

ان کے مطابق، موجودہ حالات میں بی جے پی اور اقلیتیں ایک ساتھ نہیں آسکتی ہیں اور اس میں چرچ کا براہ راست کردار ہے۔ اس لیے یہ الیکشن بی جے پی کے لیے مزید مشکل ہونے والا ہے۔ واضح رہے کہ سندیش پربھودیسائی گوا کی سیاست پر ایک کتاب’عجب گوا کی غضب راجنیتی’ لکھ چکے ہیں۔ خیال رہے کہ گوا میں 25 فیصد عیسائی اور 67 فیصد ہندو آبادی ہے۔ وہیں مسلم آبادی قریب 8 فیصد ہے۔

گوا میں کل کتنے ووٹر ہیں؟

اس بار پورے گوا ریاست میں 11 لاکھ سے زیادہ لوگ ووٹ ڈالنے کے اہل تھے۔ چیف الیکٹورل آفیسر کنال کے مطابق، ریاست میں فی بوتھ ووٹروں کی اوسط تعداد 672 ہے جو کہ ملک میں سب سے کم ہے۔ یہاں کی واسکو اسمبلی حلقہ سب سے بڑی اسمبلی سیٹ ہے، جہاں ووٹر کی تعداد 35,139 ہے۔ جب کہ مورموگاؤں سیٹ پر سب سے کم 19,958 ووٹر ہیں۔

گوا میں اس بار یہ پارٹیاں ہیں میدان میں

بی جے پی اور کانگریس کے علاوہ اس بار گوا کے اس الیکشن میں عام آدمی پارٹی، گوا فاروارڈ پارٹی (جی ایف پی)، ترنمول کانگریس، مہاراشٹر وادی گومانتک پارٹی (ایم جی پی)، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی)، شیو سینا، ریوالیوشنری گوا پارٹی، گوئنچو سوابھیمان پارٹی، جئے مہابھارت پارٹی اور سنبھاجی بریگیڈ بھی انتخابی میدان میں ہیں۔ اس کے علاوہ 68 آزاد امیدوار بھی اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔