1912 کی جنگِ بلقان ، ہند وستانی مسلمانوں کی جانب سے تُرکوں کی مسیحائی
خلافتِ عثمانیہ کی مدد کے لیے ’میڈیکل مشن‘ طبی عملے اور دوائیوں کے ہمراہ روانہ کیا گیا تھا
افروز عالم ساحل
یہ بات 1912 کی ہے۔ ہندوستان کے کئی لیڈروں نے یہ ضرورت محسوس کی کہ ترکی کی ہر ممکن مدد کرنی چاہیئے۔ ایسے میں تشویش کے اظہار کی غرض سے کئی منصوبے تیار کیے۔ ’انجمن خدام کعبہ’ کی تشکیل ان میں ایک تھا، وہیں دوسرا یہ طے کیا گیا کہ ترکی کے زخمی فوجیوں کے علاج کے لیے ایک ’میڈیکل مشن’ بھیجا جائے۔ 19 اکتوبر 1912 کے ’کامریڈ’ میں میڈیکل مشن کے بارے میں پہلی خبر شائع ہوئی، ’’وہ لوگ جو فزیشین اور سرجن کی حیثیت سے انصاری ( ڈاکٹر مختار احمد) کی اعلیٰ ترین صلاحیتوں سے واقف ہیں، ان کی زیر نگرانی میڈیکل مشن بھیجنے کے خیال کو ضرور خوش آمدید کہیں گے۔‘‘
خود ڈاکٹر مختار احمد انصاری کے اپنے خیالات 26 اکتوبر، 1912 کے کامریڈ میں شائع ہوئے، جس میں انہوں نے کہا تھا، ’’ترک دریائے باسفورس کے ساحل پر اپنی سلطنت قائم کرنے کے بعد سے مسلسل لڑائیوں میں مصروف ہیں اور سنگین ترین معرکوں سے بہ سلامت گزر رہے ہیں۔ مگر سلطنت عثمانیہ کی تاریخ میں اس سے پہلے ترکوں کو اس سے نازک صورت حال کا سامنا کبھی نہیں رہا جو آج انہیں درپیش ہے۔ جس سے نمٹنا انتہائی مشکل اور جس کے نتائج خطرناک ہیں۔ یہ بالکل واضح ہے کہ ترک قوم کا وجود ہی اس جنگ میں کامیابی پر منحصر ہے۔ چونکہ ترک فوج میں میڈیکل سروس کو منظم ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا، اس لیے وہ جنگ کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہوگی۔ دوسرے یہ کہ ترکی کے دشمنوں کو سارے یوروپ سے طبی امداد حاصل ہورہی ہے اور غریب ترکوں کو صرف اپنے محدود وسائل پر قناعت کرنی پڑ رہی ہے۔ ہم ان کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے انہیں تمام وسائل سے لیس ایک فیلڈ اسپتال مہیا کرسکتے ہیں، جہاں بیماروں اور زخمیوں کی اچھی خاصی تعداد کو رکھا جا سکے گا۔‘‘
ڈاکٹر انصاری نے اپنے ان خیالات کا اختتام ہندوستان کی عوام سے مالی تعاون کی اپیل کے ساتھ کیا۔ ان کی اس اپیل کا فوری اور زبردست اثر ہوا۔ نومبر 1912 کے آخر تک ترکی ریلیف فنڈ میں 1,18,762 روپئے جمع ہوگئے۔ اس کے ساتھ ہی 22 زندہ دل لوگوں کا ایک میڈیکل مشن تیار ہوا۔ ان 22 لوگوں میں 5 ڈاکٹرز، 7 ڈریسرز، 10 مرد نرس اور اسٹریچر اٹھانے والے شامل تھے۔ ڈاکٹروں کی ٹیم میں ڈاکٹر مختار احمد انصاری کے علاوہ بمبئی کے ڈاکٹر علی اظہر ایچ فیضی، جونپور کے ڈاکٹر ایس محمد نعیم انصاری اور کلکتہ کے ڈاکٹر محمداللہ و ڈاکٹر شمس الباری شامل تھے۔ حالانکہ ڈاکٹر شمس الباری خود کے بیمار پڑ جانے کی وجہ سے لوٹ آئے تھے۔
ڈریسرز کی ٹیم کی بات کریں تو اس میں غلام احمد خان، میرٹھ کے نورالحسن، دہلی کے محمد چراغ الدین، کرنال کے سید تونگر حسین، چھپرا، بہار کے حامد رسول، مزراپور کے عبدالوحید خان اور غازی آباد کے حسین رضا بیگ شامل تھے۔ وہیں مرد نرسوں میں سورت کے عبدالرحمٰن صدیقی، میرٹھ کے قاضی بشیرالدین احمد، علی گڑھ کے شعیب قریشی، غازی پور کے محمد عبدالعزیز انصاری، لکھنؤ کے خلیق الزماں، امیٹھی کے منصور علی، سہارنپور کے یوسف انصاری، پشاور کے عبدالرحمٰن، بنگال کے سید اسماعیل حسین شیرازی اور دہلی کے تفضل حسین شامل تھے۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر عبد الرحمن بہاری اور ڈاکٹر رضا حیدر لندن سے مشن میں شامل ہوئے۔ چار دیگر لوگ اور شامل ہوئے، انگلینڈ سے عمران اور حسن عابد جعفری اور ہندوستان سے مرزا عبدالقیوم بھی شامل ہونے آئے۔
یہ ’میڈیکل مشن‘ ہندوستان سے روانہ ہونے سے پہلے دہلی میں تھا۔ اس مشن کو الوداع کہنے کے لیے دہلی کے جامع مسجد سے لے کر ریلوے اسٹیشن تک 10 ہزار ہندوستانی مسلمان جمع تھے۔ اس موقع پر حکیم اجمل خان اور مولانا محمد علی جوہر بھی موجود تھے۔ کئی علما بھی یہاں موجود تھے تاکہ مشن کو رخصت کرنے اور اس کی کامیابی کی دعاؤں میں شریک رہ سکیں۔ اس موقع سے مولانا جوہر نے زوردار تقریر کی، ’ہر خوشی اور غم میں مسلمانوں کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔ مگر ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب ان کے جذبات نے بیرون ملک کے لیے اپنے لٹے پٹے اور لہولہان بھائیوں کو راحت پہونچانے کے لیے انسانی دوستی اور رحم دلی کے اس اقدام کی شکل اختیار کی ہے۔ اس حقیقت کی اخلاقی قدر و قیمت سے کسی بھی طرح صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔‘
دہلی سے یہ ’میڈیکل مشن’ بمبئی پہونچا۔15 دسمبر 1912 کو بمبئی سے روانہ ہوا۔ ٹائمس آف انڈیا کے ایک خبر کے مطابق یہاں بھی مولانا محمد علی جوہر موجود تھے۔ ساتھ ہی زمیندار کے مدیر ظفر علی، بامبے ینگ مینس محمڈن ایسوسی ایشن کے سکریٹری سید ابراہیم احمد قادری بھی موجود تھےاور ان تینوں لوگوں نے اس موقع پر تقریر کی۔
یہ مشن یکم جنوری 1913 کو قسطنطنیہ پہونچا۔ وہاں پہونچ کر مختار احمد انصاری نے صاف لفظوں میں کہا،’ترکی میں اپنے مسلم بھائیوں کے زخمی دلوں پر مرہم رکھنے، ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنے اور ان کی تکلیفیں کم کرنے کے لیے جو کچھ بھی ہمارے بس میں ہے وہ سب کر گزرا جائے۔’ اس میڈیکل مشن نے یہاں بے شمار تکلیفیں برداشت کیں، لیکن اپنے حوصلے کو کم نہیں پڑنے دیا۔ ایک جگہ ڈاکٹر مختار انصاری لکھتے ہیں، ’میں نے اور میرے ساتھیوں نے تین دن تک صرف پنیر اور ڈبل روٹی پر گزارا کیا، کیونکہ وہ باکس جس میں ہمارا کھانے پینے کا سامان تھا، کسی نے چرا لیا تھا۔’ ان تمام تر مشکلات کے بعد اس مشن کے تمام ساتھی ایک مخصوص لگن، جوش اور جذبے کے ساتھ ترکوں کی تکلیفیں کم کرنے کے لگے رہے۔ یہاں اس مشن نے دو جگہوں ’ہندیہ’ و ’سنجک تپی‘ میں اسپتال قائم کئے گئے تھے۔
حالانکہ تحقیق کے دوران مصنف کو یہ اہم جانکاری بھی ملی کہ مختار احمد انصاری کی قیادت والی میڈیکل مشن سے پہلے بھی ایک میڈیکل مشن ترکی پہونچ چکا تھا، لیکن اس کاذکر نہیں ملتا ہے۔ ٹائمس آف انڈیا میں 28 نومبر 1912 کو مدیر کے نام شائع انجمن ضیا الاسلام کے صدر شیخ خالد یوسف کی خط میں یہ جانکاری دی گئی ہے کہ ’انجمن نے بھی ایک میڈیکل مشن ترکی کو بھیجا ہے، جس کے بارے میں یہ افواہ پھیلائی گئی ہے کہ ترکی نے اس کے آنے سے روک دیا ہے۔’ شیخ خالد یوسف کے مطابق یہ پہلی انڈین ریڈ کریسنٹ میڈیکل مشن تھی، اس مشن کی قیادت کلکتہ کے ڈاکٹر سہروردی کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ سر مرزا داؤد، مولوی فضل الحق، آغا مجاہد الاسلام ور دیگر کئی لوگ شامل تھے۔
مشہور موخ مشیرالحسن مختار احمد انصاری پر لکھی اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں، ’انصاری کا مقصد یہاں محض طبی امداد فراہم کرنا ہی نہیں تھا۔ بلکہ وہ ان اسکیموں کو فروغ دینے میں بھی یکساں طور پر دلچسپی رکھتے تھے جن کے ذریعے ترکوں کو مالی معاونت اور اخلاقی حمایت دی جا سکے اور جن سے ترکوں کی جدوجہد کے ساتھ ہندوستان کے اظہار یکجہتی کو مستحکم کیا جائے۔
انہوں نے اپنی تقریروں میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ وہ وہاں پر انجام دیئے گئے اپنے طبی کاموں کے بارے میں کم سوچتے تھے اور زیادہ خیال اس بات کا رہتا تھا کہ ترکی اور ہندوستانی مسلمانوں کے تعلقات پر اس کام کے سیاسی اثرات کیا ہوں گے اور یہ کہ یہ خیالات ان کے ذہن میں کسی نظریہ ساز کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک صابر و شاکر اور کھلے ذہن کے عملی شخص کی حیثیت سے آتے تھے۔ یہ میڈیکل مشن 20 جون 1913 کو قسطنطنیہ سے روانہ ہوا۔ لیکن ہندوستان کے لیے واپسی میں کئی لوگ کم ہوگئے۔
Burak Akçapar کی لکھی کتاب People’s Mission to the Ottoman Empire کے مطابق مولوی محمد شریف اور مرزا عبدالقیوم مہاجرین اور نوآبادیات کے کام کی دیکھ بھال کے لیے وہیں رک گئے۔ ڈاکٹر محمداللہ، حامد رسول اور تفضل حسین استنبول میں ہی رک گئے، کیوں کہ ان کا ارادہ حج کے لیے جانے کا تھا۔ شعیب قریشی، خلیق الزماں، منصور علی، غلام احمد اور عبدالرحمٰن صدیقی نے طے کیا کہ وہ اگلے مہینے واپس جائیںگے۔
عبدالرحمٰن پشاوری بھی بیمار پڑ جانے کی وجہ سے وہیں رک گئے۔ بعد میں پہلے عالمی جنگ میں ترکی کی جانب سے شریک ہوئے۔ 1915-16 میں بھی ترکی کی جانب سے ایک جنگ میں شریک ہوئے، ان کا انتقال بھی ترکی میں ہی ہوا اور وہی دفن کر دیئے گئے۔ گزشتہ دنوں جب ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان پاکستان کے دورے پر گئے تھے تو انہوں نے عبدالرحمٰن پشاوری کا ذکر کیا۔ یہی نہیں، مرزا عبدالقیوم بھی ترکی کی جانب سے پہلے عالمی جنگ میں لڑے اور شہید ہوگئے۔ بہرحال ہندوستان کا یہ میڈیکل مشن 4 جولائی 1913 کو بمبئی پہونچا۔ یہاں ایک پرجوش ہجوم نے ان کا استقبال کیا۔ 10 جولائی کو دہلی میں بھی ان کا اسی طرح سے استقبال ہوا۔
ہر خوشی اور غم میں مسلمانوں کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔ مگر ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب ان کے جذبات نے بیرون ملک کے لیے اپنے لٹے پٹے اور لہولہان بھائیوں کو راحت پہونچانے کے لیے انسانی دوستی اور رحم دلی کے اس اقدام کی شکل اختیار کی ہے۔ اس حقیقت کی اخلاقی قدر و قیمت سے کسی بھی طرح صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔
محمد علی جوہر