قومی رینک حاصل کرنے کے باوجود طالبات میڈیکل نہیں پڑھ سکتیں؟

نیٹ کا امتحان دلی کی ۲۳ مسلم بچیوں نے پاس کیا لیکن سرکار نے مدد سے ہاتھ کھینچا

افروز عالم ساحل

مقابلہ جاتی امتحان نیٹ (NEET) میں دلی کے جامعہ نگر کی 23 مسلم بچیوں کی کامیابی کے جشن کی خوشی زیادہ دن تک ٹک نہیں سکی۔ دلی اور اس کے باہر سرکاری اسکولوں میں نہایت غریب طبقے کی طالبات کی اس نمایاں کامیابی کی ستائش ہر طرف ہوئی تھی۔ عام آدمی کی دہائی دینے والے وزیر اعلیٰ اور وزیر تعلیم بھی اس کا کریڈٹ اپنے نام کر چکے تھے۔ لیکن ہفت روزہ دعوت کی تحقیق و تفتیش میں اجاگر ہوا ہے کہ ان لڑکیوں میں سے کوئی بھی تا حال اعلیٰ تعلیم کے لیے داخلہ نہیں لے پائی ہے۔ وجہ ان کے معاشی حالات کے علاوہ ملک میں پرائیویٹ کالجوں کی وہ فیس ہے جو ’’عام آدمی‘‘ کی پہنچ سے دن بہ دن باہر ہوتی جا رہی ہے۔

واضح ہو کہ ملک کے سرکاری و پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لیے منعقد ہونے والے ’نیٹ‘ امتحان میں جامعہ نگر کے نورنگر میں قائم گورنمنٹ سینئر سیکنڈری اسکول ’سرودیہ کنیا وِدیالیہ‘ کی 23 طالبات نے NEET میں کامیابی حاصل کی تھی تو اس کا کریڈٹ دہلی حکومت نے لیا تھا۔ دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ اور وزیر تعلیم منیش سسودیا نے نور نگر اسکول کی اس کامیابی پر ٹویٹ کرتے ہوئے ان تمام بچیوں کو مبارکباد بھی دی تھی۔

ہفت روزہ دعوت نے جب ان بچیوں سے بات چیت کی تو ایک الگ ہی حقیقت سامنے آئی اور وہ یہ ہے کہ یہ تمام بچیاں کوالیفائی ہونے کے باوجود ملک کے کسی بھی میڈیکل کالج میں داخلہ نہیں لے سکیں۔ بس ایک بچی نے ڈاکٹر بننے کا خواب چھوڑ کر دلی کے ایک پولی ٹیکنک کالج میں فارمیسی کورس میں داخلہ لیا ہوا ہے۔ جبکہ ان میں سے متعدد طالبات اپنے بلند حوصلوں کے ساتھ پھر سے مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری میں مصروف ہوگئی ہیں، کچھ بچیوں کو یہ اندیشہ ہے کہ اگر اگلی بار بھی ایسا ہی انجام ہوا تو کیا ہوگا؟ وہیں کچھ لڑکیوں نے ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ ہم نے ان بچیوں اور ان کے والدین سے بات کر کے میڈیکل میں داخلہ نہ لینے کی وجوہات کا پتہ لگانے کی کوشش کی۔

ایک طالبہ وردا کریم نے ڈاکٹر بننے کا خیال اب اپنے ذہن سے نکال دیا ہے، اس کی اہم وجہ ہے نیٹ امتحان کامیاب ہوجانے کے باوجود میڈیکل کالجوں کی فیس بھرنے کی سَکت نہ ہونا۔ وَردا کے بڑے بھائی مزمل کریم کہتے ہیں کہ ’’ملک کے کسی بھی میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے صرف نیٹ کوالیفائی کرنا کافی نہیں، بلکہ بہت بہتر نمبرات سے رینک حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے میں ہمیں نہیں لگتا کہ ہم اپنی بہن کو آگے پڑھا پائیں گے۔ کئی ریاستوں میں گورنمنٹ کالجوں کی فیس بھی بڑھا دی گئی ہے۔ اتنی فیس تو ہم دے نہیں پائیں گے۔ اس ملک میں ہم جیسے غریب خاندان کی لڑکیوں کا ڈاکٹر بننا سراب کی مانند ہے۔ کسی بھی عام گھرانے کے لیے حکومتوں کی پالیسیوں نے بہت کم راستے چھوڑے ہیں۔‘‘

وہیں تسنیم کہتی ہیں کہ ’’خواہش تو ڈاکٹر بننے کی تھی لیکن جب وہ ممکن نظر نہیں آیا تو میرابائی انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں دو سال کے فارمیسی کورس میں داخلہ لے لیا ہے۔ فارمیسی کے بہانے کم از کم اس میڈیکل فیلڈ میں تو رہوں گی‘‘ وہ کہتی ہیں کہ میڈیکل تعلیم پانے سے قبل اس کے مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کرنے کے لیے بھی اچھی خاصی رقم درکار ہوتی ہے۔ اتنا کرنے کے بعد بھی گارنٹی نہیں۔ تسنیم کے والد محمد ادریس انصاری جامعہ نگر کے ابوالفضل علاقے میں ریلوے ٹکٹنگ کا کام کرتے ہیں۔ بٹلہ ہاؤس کی رہنے والی سمیہ پروین کے ساتھ ساتھ ان کے بھائی اورنگ زیب مصطفیٰ نے بھی اس بار کامیابی حاصل کی ہے۔

سمیہ کی والدہ جہاں آرا بتاتی ہیں کہ ’’مہنگائی کے اس دور میں ہم بڑی مشکل سے اپنے بچوں کو پڑھا سکے ہیں۔ بچے بھی اس بات کو سمجھ رہے ہیں اور بغیر کوچنگ کلاس کے جتنا ممکن ہو محنت کر رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ گھر پر پڑھائی کرتے ہوئے میرے دونوں بچوں نے اس بار نیٹ کوالیفائی کیا۔ بیٹے نے تو 580 نمبر اسکور کیا ہے۔ اس کے باوجود اس کا داخلہ ملک کے کسی بھی سرکاری کالج میں نہیں ہو سکا‘‘

پرائیویٹ کالج میں داخلہ لینے کے بارے میں پوچھنے پر وہ بتاتی ہیں کہ ”جب ہم میڈیکل کی تیاری کے لیے کوچنگ کی ہی فیس نہیں بھر پا رہے ہیں تو پرائیویٹ کالجوں میں کیسے پڑھا پائیں گے؟ دلی سرکار نے اعلیٰ تعلیم کے لیے امداد سے متعلق کئی باتیں کہی تھیں لیکن وہاں بھی کچھ بات نہیں بنی۔ اب آگے اللہ پر بھروسہ ہے‘‘ سمیہ کے والد غلام مصطفیٰ پرانی دلی میں ایک کتابوں کی دوکان میں ملازمت کرتے ہیں۔

اسی سرکاری اسکول سے نیٹ کوالیفائی کرنے والی شیزہ علی کے والد شرافت علی کا کہنا ہے کہ جب ہم اچھے پرائیویٹ اسکول تک میں اپنی بچی کا داخلہ نہیں کرا سکے تو پرائیویٹ کالج میں داخلہ کروانے کی کہاں سوچ سکتے ہیں؟ ان کو حکومت سے مدد کی آس ہے۔ حکومت کیوں مدد کرے؟ اس سوال پر شرافت علی کہتے ہیں کہ ملک کو ڈاکٹروں کی ضرورت ہے، جب ڈاکٹر ہوں گے تو ہمارے ملک کا نظامِ صحت بہتر ہو سکے گا اور یہ ملک کے مفاد میں ہے۔ غریبوں کے بچے ڈاکٹر بنیں گے تو ملک کے غریبوں کی صحت کا خیال بہتر انداز سے رکھا جا سکے گا۔ شرافت علی جامعہ نگر میں واقع غفار منزل میں رہتے ہیں اور گریٹر نوئیڈا میں سلائی کا کام کر کے گزارا کیا کرتے تھے۔ لیکن غیر منصوبہ بند طریقے سے نافذ لاک ڈاؤن کے سبب ان کے پاس پچھلے چھ سات مہینے کے دوران کوئی کام نہیں تھا۔

جامعہ نگر کے ابوالفضل علاقے میں رہنے والی اریبہ نعیم کہتی ہیں کہ ان کو ملے رینک کی بنیاد پر صرف پرائیویٹ کالجوں میں ہی داخلہ مل سکتا ہے۔ کچھ پرائیویٹ کالجوں کی جانب سے داخلے کے لیے بلایا گیا لیکن ان کی فیس کروڑوں روپے ہے۔ اتنی بڑی رقم کا انتظام ممکن نہیں۔ اریبہ کے والد محمد نعیم الیکٹریشین ہیں۔

اریبہ کہتی ہیں کہ دلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے اعلان کیا تھا کہ دلی کے سرکاری اسکولوں سے جن بچوں نے نیٹ کوالیفائی کیا ہے، ان کو دس لاکھ روپے تک کا قرض دلائیں گے۔ لیکن مہنگی تعلیم کے تناظر میں شاید دس لاکھ میں بھی بات نہیں بن پائے گی۔ اریبہ کا کہنا ہے کہ ’’ایسے میں میرے سامنے بس ایک ہی راستہ ہے کہ میں پھر سے نیٹ کے امتحان کی تیاری کروں تاکہ اگلی بار زیادہ نمبر لا سکوں اور سرکاری کالج میں ایڈمیشن کی حق دار بن سکوں‘‘

اریبہ کی طرح باقی طالبات بھی دوبارہ اس امتحان کی تیاری میں لگ گئی ہیں تاکہ اگلی کوشش میں زیادہ نمبرات حاصل کر سکیں جس کی بنیاد پر سرکاری میڈیکل کالج میں داخلہ ممکن ہو سکے۔

10 لڑکیاں کر رہی ہیں آکاش انسٹیٹیوٹ سے تیاری

ان  23بچیوں میں سے 10بچیاں ان دنوں میں آکاش انسٹی ٹیوٹ میں کوچنگ حاصل کر رہی ہیں۔ انہی میں سے ایک نشا خان بتاتی ہیں کہ ’’ہمارے اسکول نے آکاش انسٹی ٹیوٹ میں فیس کم کروائی ہے اور ہماری یہ فیس جامعہ کوآپریٹیو بینک کے سی ای او نے ادا کی ہے۔ اسی مدد سے ہم پھر ایک بار مقابلہ جاتی امتحان کی تیاری میں لگ گئی ہیں، اس بار ہم سب لڑکیاں ضرور بہتر مظاہرہ کریں گی، کیونکہ پچھلی بار از خود پڑھائی کی تھی کسی کی کوئی گائیڈنس نہیں مل سکی تھی‘‘ بٹلہ ہاؤس کی ساکن نشا خان کے والد محمد چاند کارپینٹر ہیں۔

وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے کیا تھا 10لاکھ روپے کی مدد کا وعدہ

اس سال NEET کے امتحان میں دہلی کے سرکاری اسکولوں سے 569طلبا کامیاب ہوئے۔ ان میں سے 379(67فیصد) لڑکیاں ہیں۔ سرکاری اسکولوں کے طلبا و طالبات کی اس کامیابی کا کریڈٹ دہلی حکومت نے اپنے سر لیا تھا اور ٹویٹ کر انہیں مبارکباد بھی دی تھی۔ وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے تو یہاں تک کہا تھا کہ ٹیلنٹ کا پیسوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کامیاب طلباء و طالبات کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں رقم کی کمی کوئی رکاوٹ نہیں بنے گی، کیوں کہ دہلی حکومت نے ان کے لیے اسکالرشپ اور قرض کی شکل میں دس لاکھ روپوں کی فراہمی کا انتظام کیا ہے۔ لیکن حقیقت سب کے سامنے ہے۔ان کامیاب لڑکیوں کے والدین و سرپرستوں کا صاف کہنا ہے کہ یہ محض ایک اعلان تھا، کیوں کہ آج تک کسی بھی سرکاری اہلکار نے ان لڑکیوں کے اہل خانہ سے رابطہ نہیں کیا ہے نہ اسکول کے ذریعے ہی حکومت کی طرف سے کسی بھی مدد کی کوئی جانکاری دی گئی ہے۔ کاش! جن بچیوں نے زیادہ نمایاں رینک حاصل کیے ہیں، ان ہی کے داخلے یہ دلی حکومت کرا دیتی!

پرائیویٹ کالجوں میں اب نہیں ہے کوئی سرکاری کوٹہ

ممبئی میں تعلیم و کریئر پر کام کرنے والی ’کاوش‘ نامی تنظیم کے صدر عامر انصاری بتاتے ہیں کہ NEET کوالیفائی کرنا اب بہت آسان ہے۔ محض 50 پرسینٹائل نمبر حاصل کرکے اسے کوالیفائی کیا جا سکتا ہے۔ اور کوالیفائی کرنے والوں کو پورے بھارت میں پانچ میڈیکل کورسوں یعنی ایم بی بی ایس، بی ڈی ایس، بی یو ایم ایس، بی اے ایم ایس اور بی ایچ ایم ایس میں داخلہ مل سکتا ہے، لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر NEET کوالیفائی کرنے والے کو میڈیکل میں داخلہ مل ہی جائے۔ عامر بتاتے ہیں کہ NEET کا یہ امتحان کل 720 نمبروں کا ہوتا ہے، لیکن اس بار جنہوں نے 147 نمبر اسکور کیا ہے وہ بھی NEET کے لیے کوالیفائی مان لیے گئے ہیں۔ لیکن اگر طلبہ سرکاری کالجوں میں داخلہ چاہتے ہیں تو انہیں 600 کے آس پاس رینک حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

عامر انصاری نے بتایا کہ ملک کے پرائیویٹ کالجوں میں اب کوئی گورنمنٹ کوٹا باقی نہیں بچا ہے۔ NEET کے متعارف کرانے کے بعد اسے ختم کر دیا گیا ہے جس کے بعد اب اُن طلبہ کو بھی جن کا نام میرٹ لسٹ شامل ہے اگر وہ کسی نجی تعلیمی ادارے میں پڑھنے کے خواہش مند ہیں پوری فیس ادا کرنا پڑے گا۔ عامر انصاری گزشتہ 20سالوں سے تعلیمی رہنمائی کے میدان میں مصروف عمل ہیں۔ انہیں مہاراشٹر حکومت کی طرف سے بہترین استاد کا ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔

کیا ہے نیٹ (NEET)؟

نیشنل ایلجیبلیٹی انٹرنس ٹیسٹ (NEET) وہ داخلہ امتحان ہے جو سرکاری یا پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں بیچلر ڈگری کی پڑھائی کے لیے قومی سطح پر منعقد کیا جاتا ہے۔ اس سے قبل ملک میں آل انڈیا پری میڈیکل انٹرنس ٹیسٹ (AIPMT) ہوتا تھا لیکن 2013 میں یہ کہہ کر NEET لایا گیا کہ اے آئی پی ایم ٹی مستقل گھپلوں کی زد میں رہا ہے اس کے پیش نظر میڈیکل کونسل آف انڈیا کی اپیل پر مرکزی حکومت نے اس میں تبدیلی کی ہے اور NEET کی بنیاد رکھی گئی۔ اس میں یہ طے ہوا کہ پورے ملک میں صرف ایک ہی میڈیکل انٹرنس ٹیسٹ ہوگا۔ یہ امتحان ہر سال نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی کے ذریعہ منعقد کیا جاتا ہے۔ اس بار 2020 NEET کے لیے 15 لاکھ سے زائد امیدواروں نے رجسٹریشن کروایا تھا، جن میں سے قریب 14 لاکھ امیدواروں نے امتحان دیا اور 7 لاکھ 71 ہزار 5 سو امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔

ملک میں میڈیکل کالجوں کی تعداد

وزیر مملکت برائے صحت و خاندانی بہبود، اشونی کمار چوبے کے ذریعے 18 ستمبر 2020 کو لوک سبھا کو دیے گئے تحریری جواب کے مطابق، اس وقت ملک میں 541 میڈیکل کالجز ہیں، جن میں سے 280 سرکاری میڈیکل کالج اور 261 پرائیویٹ میڈیکل کالج ہیں۔ ان 541 میڈیکل کالجوں میں صرف 80,312 ایم بی بی ایس داخلہ نشستیں ہیں۔

فیس کم کرنے کا تھا وعدہ، لیکن ہو رہا ہے اضافہ

اس وقت دلی اور مہاراشٹر جیسی متعدد ریاستوں میں طلبا کو میڈیکل تعلیم کے لیے سالانہ 25 تا 30 لاکھ روپے تک فیس ادا کرنا پڑتی ہے۔موجودہ حکومت نے گزشتہ سال دسمبر 2019 میں وعدہ کیا تھا کہ ملک میں پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں فیس نصف تک کم کر دی جائے گی۔لیکن اس کے برعکس بہت ساری ریاستیں، پرائیویٹ کالجوں کو چھوڑ دیجیے، سرکاری کالجوں کی فیس میں بھی اضافہ کر رہی ہیں۔

اسی سال نومبر کے مہینے میں آنے والی خبروں کے مطابق، ہریانہ کی حکومت نے ریاست کے سرکاری میڈیکل کالجوں میں ایم بی بی ایس کی فیس میں اضافے کے لیے ایک مسودہ تیار کیا ہے۔ اس کے تحت میڈیکل کی فیس 53 ہزار روپے سے بڑھا کر 10 لاکھ روپے سالانہ کر دی گئی ہے۔ ایک دوسری خبر کے مطابق، اتر پردیش حکومت نے پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی من مانی پر لگام کستے ہوئے موجودہ تعلیمی سیشن کے لیے ایم بی بی ایس کی سالانہ فیس کم سے کم 10.40 لاکھ روپے سے لے کر زیادہ سے زیادہ 12.72 لاکھ روپے تک مقرر کی ہے۔ اس کے علاوہ طلباء کو ہاسٹل اور دیگر فیس الگ سے ادا کرنی ہو گی۔ ظاہر ہے کہ اس مہنگی تعلیم کا خوف ذہین و باصلاحیت لیکن مالی لحاظ سے کمزور طلبا کو پیشہ ورانہ تعلیم میں اپنا کریئر بنانے میں مانع بن رہا ہے جو کہ ایک آئینی حق سے ایک طبقے کو محروم کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
***

ملک کے پرائیویٹ کالجوں میں اب کوئی گورنمنٹ کوٹا باقی نہیں بچا ہے۔ NEET کے متعارف کرانے کے بعد اسے ختم کر دیا گیا ہے جس کے بعد اب اُن طلبہ کو بھی جن کا نام میرٹ لسٹ میں شامل ہے اگر وہ کسی نجی تعلیمی ادارے میں پڑھنے کے خواہش مند ہیں پوری فیس ادا کرنا پڑے گا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20 تا 26 دسمبر، 2020