مبلغین کی گرفتاری: ’میڈیا ٹرائل ’رائٹ ٹو پرسنل لیبرٹی‘ چھیننے کا کام کر رہا ہے‘

اتر پردیش کےانتخابی توے پر سیاسی روٹیاں سینکنےکی کوشش

افروز عالم ساحل

ہندوستان کی آئین کا آرٹیکل 25 ملک کے ہر شہری کو اپنی مرضی کا مذہب اختیار کرنے اور اس کی تشہیر کرنے کی پوری آزادی دیتا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اتر پردیش کی پولیس اور کچھ سیاسی جماعتوں اور میڈیا گھرانوں نے آئین کا یہ حصہ نہیں پڑھا ہے، اگر پڑھا ہوتا تو جس طرح کی میڈیا کوریج عمر گوتم کی گرفتاری کے بعد ہورہی ہے، وہ نہ ہوتی۔

عمر گوتم کی گرفتاری کے معاملے میں ہورہی میڈیا کوریج کو روکنے اور اس سے متعلق جو مواد آن لائن موجود ہیں، انہیں ہٹانے کے مسئلہ پر عمر گوتم کی جانب سے ایک درخواست الٰہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنؤ بینچ میں دی گئی تھی۔ ۲؍جولائی ۲۰۲۰ کو سنوائی کرتے ہوئے الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اپنا آرڈر محفوظ کر لیا ہے۔

ہفت روزہ دعوت نے اس معاملے کی پیروی کر رہی وکیل آشمہ عزت سے خاص بات چیت کے دوران یہ جاننے کی کوشش کی کہ میڈیا ٹرائل کو روکنے کے سوال پر جو درخواست الٰہ آباد ہائی کورٹ میں دی گئی تھی، اس میں عدالت سے کیا گزارش کی گئی تھی؟ اس پر آشمہ عزت نے کہا کہ اس درخواست کے ذریعے عدالت سے گزارش کی گئی تھی کہ وہ اس معاملے میں یو پی پولیس اور یو پی حکومت کو ہدایت دے کہ تفتیش اور پھر ٹرائل کے دوران عمر گوتم سے متعلق کسی بھی الزام کو میڈیا میں لیک نہ کیا جائے۔ نیز، اسٹیٹ کو یہ بھی ہدایت دی جائے کہ وہ 20 جون 2021 کو جاری پریس ریلیز میں شامل تمام الزامات کو واپس لے۔

واضح رہے کہ 20 جون 2021 کو یو پی پولیس کے ذرریعہ ہندی زبان میں تین صفحات پر مشتمل ایک پریس ریلیز جاری کی گئی۔ اس پریس ریلیز کا عنوان تھا ’بہرے طلبا اور معاشی طور پر کمزور لوگوں کو پیسہ، نوکری اور شادی کا لالچ دے کر مذہب تبدیل کرانے والے سنڈیکیٹ کے دو افراد یو پی اے ٹی ایس کے ذریعہ گرفتار۔ آئی ایس آئی اور دیگر غیر ملکی فنڈنگ سے کرواتے تھے مذہب تبدیل۔ بڑی تعداد میں مذہب تبدیل کروا چکے ہیں یہ لوگ۔ کئی لڑکیوں کی تبدیلی مذہب کے بعد شادی بھی کروا چکے ہیں۔‘

اس عنوان کے بعد کے مشمولات میں عمر گوتم اور مفتی جہانگیر سے پوچھ تاچھ سے نکلی باتوں کے حوالے سے کئی باتیں کہی گئیں، جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان دونوں نے اے ٹی ایس کے تمام الزامات کو قبول کرلیا ہے۔ اس پریس ریلیز میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ دونوں لوگوں کا مذہب تبدیل کروا کے اپنے اصل مذہب کے تئیں نفرت کا جذبہ پیدا کر انہیں انتہا پسند بناتے ہیں اور ملک کے مختلف مذہبی طبقات کے مابین باہمی دشمنی پھیلا کر ملک کے ہم آہنگی کو بگاڑنے کا کام کر رہے ہیں۔

ایڈووکیٹ آشمہ عزت کے مطابق عمر گوتم کے ذریعہ داخل کردہ درخواست میں عدالت سے یہ بھی گزارش کی گئی تھی کہ وہ میڈیا آؤٹ لیٹس کو عہدیداروں کے ذریعہ لیک کی گئی حساس/خفیہ معلومات کو ہٹانے کے لیے ہدایت جاری کرے اور ساتھ ہی جاری مجرمانہ تحقیقات کی میڈیا رپورٹنگ پر گائیڈلائنس بھی جاری کرے۔

اس درخواست میں اسٹیٹ آف اتر پردیش اور اے ٹی ایس کے ساتھ ساتھ زی نیوز، اوپ انڈیا، سدرشن نیوز چینل اور آج تک کو بھی جواب دہندگان بنایا گیا ہے۔ اور عدالت سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ جواب دہندگان میڈیا آؤٹ لیٹس بہت زیادہ جاہل رہے ہیں اور اقلیتی طبقے کے ساتھ تعصب کی خرافاتی ذہنیت کا شکار ہیں۔ میڈیا نے نہ صرف درخواست دہندگان کے منصفانہ مقدمے کے حق کو غیر متزلزل طور پر متاثر کیا ہے بلکہ درخواست دہندہ کے وقار کو ختم اور اس کی ساکھ کو پامال کیا ہے۔ چونکہ ابھی تفتیش زیر التوا ہے اور ابھی تک اسٹیٹ آف یو پی کی طرف سے چارج شیٹ داخل نہیں کی گئی ہے، ایسے میں موجودہ انکشاف نے درخواست گزار کے لیے سنگین تعصب پیدا کیا ہے۔

عمر گوتم کے ذریعہ داخل کردہ اس درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’مبینہ طور پر درخواست گزار کے بیانات پر مبنی شائع مضامین (جو مکمل طور پر ناقابل قبول ہیں، زبردستی کا پروڈکٹس ہیں اور جس میں دور دور تک کوئی سچائی نہیں ہے) نے آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت درخواست گزار کے محفوظ تحقیقات اور مقدمے کی سماعت کے حق پر سنگین منفی اثر ڈالا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نیوز آئٹم، جو صرف پولیس مواد پر مبنی ہوسکتی ہیں ایک ایسے وقت میں شائع کی گئیں جبکہ تفتیش زیر التواء ہے اور درخواست گزار ابھی پولیس تحویل میں ہے۔ یہ پورے استقامت کے ساتھ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ جواب دہندہ ریاست / تفتیشی ایجنسی کی مشترکہ کاوشوں کے تحت بدنیتی پر مبنی سازش کا نتیجہ ہے۔۔۔‘ اس درخواست میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ ’یہ پیشن گوئی کرنا مناسب ہے کہ یہ انتخابی سال ہے اور مذہبی برادریوں کے مابین مذہبی تفریق کو بڑھانے کی کوششیں جاری ہیں اور ایسی نوعیت کے خبروں سے معاشرے میں مذہبی تفریق میں مزید اضافہ ہوگا۔‘

ایڈووکیٹ آشمہ عزت نے مزید کہا کہ عمر گوتم ومفتی جہانگیر کی گرفتاری کے بعد میڈیا کا رول کافی گندا اور گھناؤنا رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہر معاملے میں چلنے والا میڈیا ٹرائل لوگوں کے ’رائٹ ٹو پرسنل لیبرٹی‘ چھیننے کا کام کر رہا ہے، جبکہ میڈیا کو کہیں سے بھی یہ حق نہیں ملا ہے کہ وہ کسی کی پرسنل چیزوں میں دخل دیں۔ عمر گوتم کو ابھی عدالت نے سزا نہیں دی ہے۔ ان پر جو بھی الزام لگے ہیں وہ ابھی ثابت ہی نہیں ہوئے ہیں، بلکہ اس معاملے میں تو ابھی کوئی سنوائی بھی نہیں ہوئی ہے۔ جس طرح کی کہانیاں میڈیا مسلسل دکھا رہا ہے وہ کسی کی بھی جان کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ کل وہ جب عدالت سے باعزت بری ہوں گے تو میڈیا کے ذریعہ ان کے کردار کو جو نقصان پہنچایا جا چکا ہے اس کی بھرپائی کس طرح ہو گی؟

وہ مزید کہتی ہیں کہ میڈیا کے ذریعہ یہ سب کچھ اسٹیٹ کے اشارے پر کیا جا رہا ہے۔ اتر پردیش میں الیکشن قریب ہیں، کورونا نے یہاں عام لوگوں کا کافی نقصان پہنچایا ہے اور حکومت پوری طرح سے فیل رہی ہے، تو ایسے میں اسٹیٹ اپنی ناکامی چھپانے کے لیے یہ سب کچھ کر رہی ہے۔ یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔

سوال یہ بھی ہے کہ اگر ملک کا کوئی شہری اپنی مرضی سے تبدیلی مذہب کرتا ہے تو میڈیا کو اس میں دلچسپی کیوں ہونی چاہیے؟

***

اب سوال یہ ہے کہ جب خود اتر پردیش، اے ٹی ایس سربراہ جی کے گوسوامی یہ بتا رہے ہیں کہ ان کے پاس اب تک صرف دو بہرے گونگے بچوں کی تبدیلی مذہب کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔ تو پھر ’دینک جاگرن‘ کے نمائندے کو ۱۸ بچوں کے اعداد وشمار کہاں سے مل گئے؟ اب اگر یہ اعداد وشمار مقامی پولیس کے پاس ہیں تو پھر یہ جانکاری اتر پردیش اے ٹی ایس کو کیوں نہیں؟

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11 تا 17 جولائی 2021