میڈیا میں ذات بولتی ہے۔۔۔!

صدیوں سے کھڑی استحصال کی آہنی دیوار کو توڑنا آسان نہیں

(دعوت نیوز ڈیسک)

امبیڈکر کے شروع کردہ اخبار موک نائک کی روایت زندہ کرنے والی مینا کوٹوال کا انٹرویو
فی زمانہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں جمہوریت کے چوتھے ستون یعنی صحافت کا جو حال ہے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ حال ہی میں جاری کردہ غیر سرکاری تنظیم آکسفیم اور نیوز لانڈری کی رپورٹ کے مطابق اس ڈائیورسٹی رپورٹ کے تناظر میں (سورن نامہ نگاری کے درمیان حاشیے کی آواز) بعنوان ہماری کہانی کون کہہ رہا ہے اور ہماری رپورٹ کون کررہا ہے میڈیا کے اندر یہ ایک ذاتی تجربہ کی حیثیت کی حامل ہے۔ اس رپورٹ میں چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ میڈیا میں سورنوں یعنی اعلی ذات کے لوگوں کا ہی تسلط ہے۔ رپورٹنگ میں، ایڈیٹنگ میں اور خاص کر کالم نویسی میں غیر سورنوں کا حصہ نہیں کے برابر ہے۔ اس رپورٹ نے بڑی اچھی اطلاع دی ہے جس کا استعمال ہونا چاہیے۔ وہ اطلاع یہ ہے کہ ’’موکنائک‘‘ کو محروم اور دبے کچلے طبقات اور ذاتوں کی نمائندگی کے لحاظ سے سب سے بہتر پلیٹ فارم بتایا گیا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ ترقی پذیر میڈیا ہاوزس جو اعلیٰ ذات کے لوگوں کے زیر تسلط ہے اس یکطرفہ شور شرابے میں موکنائک کی روح رواں مینا کوٹوال کی آواز الگ سے سنائی دیتی ہے۔ موکنائک کے عنوان سے ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر نے 1920ء میں ایک اخبار شروع کیا تھا۔ ایک صدی بعد اسی موکنائک کو مینا کوٹوال نے اعلیٰ مقصد کے لیے اپنے ہاتھوں میں لیا ہے۔
استری کال کے نمائندے سنجیو شرما سے مینا کوٹوال کی گفتگو کا خلاصہ آپ کی پیش خدمت ہے۔ سنجیو شرما کے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے مینا کوٹوال نے بتایا کہ بابا صاحب نے جب ان کی عمر صرف 29 سال تھی موکنائک اخبار ان لوگوں کی آواز اٹھانے کے لیے شروع کیا تھا جن کا صدیوں سے زندگی کے ہر شعبے میں استحصال ہو رہا تھا۔ خاص طور پر ایس سی ایس ٹی آدیواسی اور او بی سی، اور وہ دور پرنٹ میڈیا کا دور تھا۔ کسی بھی اخبار میں محروم طبقات کے بارے میں کوئی خبر یا اطلاع پڑھنے کو نہیں ملتی تھی اور یہ بات بابا صاحب کو بہت کھلتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا سماج بہت بڑا ہے اور مسائل بھی بہت سارے درپیش ہیں لیکن ہمارے مسائل پر کوئی بات نہیں ہوتی اگر ہوتی بھی ہے تو کس کے حوالے سے ہوتی ہے اور کون ان مسائل پر بولتا ہے؟ مینا کوٹوال نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید بتایا کہ موکنائک کے قیام کو سو سال پورے ہوچکے ہیں مگر حالات جوں کے توں اور وہیں کے وہیں ہیں۔ مرکزی دھارے میں آپ کو ایک ہی طرح کے لوگ دکھائی دیں گے۔ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ آکسفیم انڈیا کی 2006، 2019 اور 2022 کی رپورٹوں میں اعداد و شمار میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ کوئی دلت یا آدیواسی کسی بھی میڈیا ہاوز میں ایڈیٹر کے عہدے تک پہنچ نہیں پا رہا ہے۔ متبادل میڈیا کا بھی وہی حال ہے۔ وائر جیسی تنظیم میں بھی محروم طبقے کی نمائندگی بمشکل دو فیصد ہے جبکہ اس میں اعلیٰ ذات کے لوگ 60 فیصد سے زیادہ ہیں اور وہ ہمیشہ ذات چھپا کر بات کرتے ہیں جبکہ موکنائک میں 50 فیصد سے زیادہ دلت اور او بی سی اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد موجود ہیں۔ موکنائک ہی میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں ہر ذات کے لوگوں کو جگہ دی گئی ہے۔ گفتگو کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے مینا کوٹوال نے بتایا کہ جب موکنائک کی شروعات ہوئی تھی تو بہت سارے لوگوں نے سوال کھڑے کیے تھے جن میں غیروں کے ساتھ اپنے بھی شامل تھے۔ اس وقت پتہ چلا تھا کہ کون اپنا ہے اور کون پرایا۔ قومی میڈیا ہو یا بین الاقوامی میڈیا ذات کافی اہمیت رکھتی ہے۔ اگر آپ دلت ہیں یا آدیواسی ہیں تو آپ کو پیچھے دھکیل دیا جائے گا آپ کچھ نہیں کرسکتے۔ پچھلے ڈیڑھ سال میں میں نے بہت کچھ ثابت کیا ہے۔ میں نے ایک لمبی لکیر کھینچ کر کافی لوگوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ میری چھوٹی سی ٹیم ہے وسائل کم ہیں پیسہ نہیں ہے مگر ہمارے ارادے بہت مضبوط ہیں۔ صدیوں سے کھڑی ہوئی استحصال کی اس آہنی دیوار کو توڑنا اتنا آسان بھی نہیں ہے اس کے لیے کافی وقت درکار ہے۔ محروم اور پسماندہ دبے کچلے لوگوں کے لیے ہی اس پلیٹ فارم کی شروعات کی گئی ہے جو موجودہ سیاسی، سماجی اور معاشی حالات میں کسی نیک فال سے کم نہیں ہے۔ مگر فنٹڈنگ کے لیے ہمیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پندرہ سولہ لوگوں پر مشتمل ہماری موکنائک کی چھوٹی سی ٹیم ہے جن سے میں سات لوگوں کو ہی پے کر پاتی ہوں جس کے لیے مجھے شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے۔ جتنے بھی لوگ موکنائک کے ساتھ اس اعلیٰ مقصد کی تکمیل کے لیے جڑے ہیں ان میں زیادہ تر ایسے لوگ ہیں جن کا جرنلزم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ کبھی انہیں جرنلزم کے گلیاروں میں گھسنے دیا گیا ہے۔ ہم موکنائک کے ذریعہ ان مسائل کو اٹھاتے ہیں جنہیں مرکزی دھارے سے قصداً دور رکھا جاتا ہے۔ موکنائک سنسنی نہیں پھیلاتا۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ سوشل ایشوز کو اٹھائیں اور انہیں دنیا کے سامنے لائیں۔ کبھی کبھی پولیس بھی ہمیں دھمکاتی ہے۔ بڑے بڑے اخبارات میں صرف برہمنوں کی اجارہ داری ہے دوسری اعلیٰ ذات کے لوگوں کی رسائی بھی مشکل سے ہوتی ہے خواتین کا تو وہاں قدم رکھنا بھی محال ہے۔ استری کال کے نمائندے سنجیو کمار نے موکنائک کی سربراہ مینا کوٹوال سے سیر حاصل گفتگو کے بعد آخر میں ناظرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ادباً گزارش کی ہے کہ موکنائک کا دامے درمے سخنے تعاون کریں تاکہ موکنائک اپنے اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے نامساعد حالات میں بھی نا ہموار راستوں پر تندہی کے ساتھ
رواں دواں رہے۔
***

 

***


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 نومبر تا 12 نومبر 2022