میڈیا میں بھی اونچی ذات والوں کا غلبہ
آج میڈیا کمزور طبقات کے مسائل نہیں اٹھاتا، اگر ان حساس موضوعات پر بحثیں ہونے لگیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا ہمارے ملک میں ذات پات کو کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے
زعیم الدین احمد، حیدرآباد
ہم اکثر و بیشتر انتخابات کے دوران یہ گفتگو کرتے ہیں یا ٹی وی کے مباحث میں سنتے رہتے ہیں کہ اس سماجی گروہ کا ووٹ کس پارٹی کے حق ڈالا جائے گا، یہ سماجی گروہ کا ووٹ اگر اس بار یکطرفہ کسی پارٹی کے حق میں ہو گا تو یقینی طور پر وہی پارٹی کامیاب ہو گی وغیرہ۔ لیکن کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ یہ جو مباحث جن ٹی وی چینلوں پر آپ دیکھتے ہیں اس کے مالکین کون ہیں؟ اگرچہ اس موضوع سے سماج میں تفریق کی بو آتی ہے لیکن ملک میں ذات پات ایک اہم عنصر ہے اس کے بغیر کوئی بات نہیں کی جا سکتی۔ مذہب سے لے کر معاشرت تک سیاست سے لے کر معیشت تک ہر جگہ ذات پات ایک اہم اور بنیادی عنصر ہے۔ پھر بھلا میڈیا اس سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے۔ صحافت کی تو کوئی ذات نہیں ہوتی، اس کا کام صرف مصدقہ اطلاعات عوام تک پہنچانا ہوتا ہے۔ بات تو ایک پہلو سے درست نظر آتی ہے لیکن اس کا ایک اور پہلو بھی ہے، وہ یہ کہ جب سارے میڈیا گروپس نام نہاد اونچی ذات والوں کے ہاتھوں میں ہوں گے تو ان سے کیسے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ سماج کے پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کے متعلق صحیح معلومات فراہم کریں گے؟ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ٹی وی چینلوں پر ہونے والے مباحث کا سماج پر بڑا گہرا اثر پڑتا ہے لیکن کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ان مباحث کے عنوانات کہاں طے ہوتے ہیں؟ لازمی بات ہے ان چینلوں کے مالکین ان موضوعات کو طے کرتے ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ٹی وی پر کس طرح کے عنوانات اور موضوعات کے تحت مباحثے ہوتے ہیں۔ اکثر موضوعات کا اصل مسائل سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔ سماج کے مسائل ایک طرف رکھ دیے جاتے ہیں اور بحث کی جاتی ہے ہندو مسلم مسائل پر یا پھر ایسے موضوع پر جس کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
آکسفیم انڈیا جو بین الاقوامی سطح کی غیر سرکاری تنظیم ہے جو سماج میں موجود عدم مساوات کے خاتمے پر کام کرتی ہے۔ یہ تنظیم اور نیوز لانڈری جو ڈیجیٹل نیوز چینل ہے، ان دونوں نے مشترکہ طور پر ایک منفرد تجزیاتی مطالعہ کیا ہے جس کا عنوان "ہو ٹیلس اور اسٹوری میاٹرس: رپریزنٹیشن مارجنل آئیز کیسٹ گروپس ان انڈین میڈیا” یعنی ہمیں کہانیاں کون سنا رہا ہے: بھارتی میڈیا میں پسماندہ طبقات کی نمائندگی، اس موضوع پر شاید کم ہی گفتگو ہوتی ہوگی اور شاید اس موضوع پر تحقیقاتی مقالے بھی نہیں ہوں اگر ہوں گے بھی تو نہیں کے برابر۔ ہمارے ملک میں اکیسویں صدی کے آغاز سے ہی الکٹرانک میڈیا کا چلن زور پکڑتا چلا گیا، اس سے قبل پرنٹ میڈیا کا دور تھا اس میں بھی تقریباً یہی صورت حال تھی کہ اس پر بھی اعلیٰ ذاتوں کا دبدبہ تھا اور اب تو الکٹرانک میڈیا کا شور اتنا بلند ہے کہ اپنی آہیں بھی خود کو سنائی نہیں دیتیں۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ پورے الکٹرانک میڈیا اداروں میں ایک بھی میڈیا کا ادارہ کسی قبائلی کا نہیں ہے نہ ہی کسی بڑے میڈیا ادارے میں آپ کو کوئی دلت نظر آئے گا، دیگر پچھڑی ذاتوں کا بھی کوئی بڑا میڈیا ہاؤز نہیں ہے جسے مین اسٹریم میڈیا کہا جاتا ہو۔ مسلمانوں کا تو ذکر ہی کیا۔ تقریباً سارے مین اسٹریم میڈیا کے مالکین کا تعلق نام نہاد اونچی ذاتوں سے ہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اونچی ذات والوں کا ہونے سے کیا ہوتا ہے؟ جس وقت ملک کے بیشتر حصوں میں دیگر پسماندہ طبقات کو تحفظات دینے کے لیے احتجاج ہو رہا تھا اس وقت تحفظات مخالف احتجاج کو کھڑا کیا گیا اور اس احتجاج کو میڈیا میں زبردست طریقے سے اچھالا گیا، میڈیا میں کام کرنے والے صحافی جن کا تعلق دیگر پسماندہ طبقات سے تھا جو تحفظات کے حق میں تھے ان پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ تحفظات مخالف احتجاج کو کوریج دیں، مضامین لکھیں، اسٹوریاں بنائیں۔ وہ بے چارے ملازم تھے ان کی ملازمت کا مسئلہ تھا، انہوں نے وہی کیا جو ادارے کے مالک نے کہا۔ جب سارے میڈیا ادارے کسی ایک طبقے کے ہوں گے تو وہ جو چاہیں گے وہی ہو گا، اس طرح کی کیفیت سابق میں پرنٹ میڈیا کے دور میں بھی تھی۔ اس وقت ایک ادارہ "سی یس ڈی یس” سنٹر فار اسٹڈی ڈیولپنگ سوسائٹی نے ہندی اور انگریزی زبانوں کے اخبارات و ٹی وی چینلوں کا تحقیقی مطالعہ کیا کہ ان میڈیا اداروں کو چلانے والے گویا فیصلہ سازی کرنے والے ہیں، اس نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ تین سو افراد جو مختلف اداروں میں فیصلہ سازی کے اختیارات رکھتے تھے ان میں سے ایک بھی دلت یا قبائلی نہیں تھا، صرف چار فیصد وہ لوگ تھے جن کا تعلق او بی سی طبقے سے تھا۔
آکسفیم انڈیا اور نیوز لانڈری کے تحقیقاتی مطالعے نے بھی وہی کیفیت ظاہر کی ہے جو سابق میں تھی۔ اس مشترکہ تحقیق کا آغاز انہوں نے 2019ء میں کیا تھا اس وقت بھی درج فہرست قبائل اور دلت طبقات کی کوئی قابل ذکر نمائندگی میڈیا اداروں میں نہیں تھی۔ 2022 میں جاری کی گئی یہ ان کی دوسری رپورٹ ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کیفیت میں کوئی بڑی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے، ان تین سالوں میں ان کی نمائندگی محض ایک فیصد سے دو فیصد کے درمیان ہی بڑھی ہے۔ نوے فیصد اداروں کے مالکین کا تعلق اعلیٰ ذات سے ہی ہے۔ پھر دوسری طرف ڈیجیٹل میڈیا پر بھی 77 فیصد قبضہ اعلیٰ ذات والوں کا ہی ہے، وہاں بھی دلتوں اور قبائلیوں کی نمائندگی نہیں کے برابر ہے۔ گزشتہ تیس برسوں سے برقرار اس کیفیت میں بجز اس کے کہ ان کی نمائندگی میں کچھ اضافہ ہوا ہے کچھ خاص تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ 2019ء میں اونچی ذات والوں کا تناسب 88 فیصد تھا جو 2022 میں دو فیصد کم ہو کر 86 فیصد ہوا ہے، یعنی دو فیصد میں دیگر ذاتوں کی نمائندگی بڑھی ہے جن میں دلتوں اور قبائلیوں کے علاوہ دیگر پچھڑی ذاتیں بھی ہیں۔ ایک اور بات یہ ہے کہ ٹی وی چینلوں میں نظر آنے والے اینکرز جو کسی فلمی اداکاروں کے کم نہیں ہوتے ان میں سے پچاس فیصد سے بھی زیادہ کا تعلق اعلیٰ ذات سے ہی ہے۔ اخبارات ورسائل میں اداریے لکھنے والے جنہیں رائے عامہ ہموار کرنے والے کہا جاتا ہے ان میں سے 60 فیصد کا تعلق اعلیٰ ذات سے ہے۔ یہ سارے اعداد و شمار اس بات کے غماز ہیں کہ ہمارا سماج کس حد تک عدم مساوات کا شکار ہے۔
ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ہمارے ملک میں ذات پات کو اب بھی ایک اہم عنصر مانا جاتا ہے، مثال کے طور پر آپ اپنے اطراف دیکھ لیجیے چاول کی ملوں کے مالک کون ہیں اور ان میں کام کرنے والے مزدور کون سے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں؟ کیوں پسماندہ طبقات کے لوگ ہی مزدوری کرتے ہیں؟ کیوں اعلیٰ ذات کے لوگ حجام، دھوبی، کہمار یا بڑھئی نہیں ہوتے؟ کیوں صفائی کا کام کرنے والوں کا تعلق نچلے طبقے سے ہی ہوتا ہے؟ کیوں بھنگی ہی بول و براز صاف کرنے والے ہوتے ہیں؟ کیوں سیاست میں اعلیٰ ذات والوں کا ہی دبدبہ ہے؟ کیوں بڑے بڑے عہدوں پر، اہم وزارتوں پر اعلیٰ ذات والے ہی قابض ہیں؟ کیوں عدلیہ کے اہم عہدے پر کسی دلت اور قبائلی کا تقرر نہیں ہوتا؟ پھر اسی طرح میڈیا میں بھی اعلیٰ ذاتوں کا قبضہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج میڈیا کمزور طبقات کے مسائل نہیں اٹھاتا، اگر ان حساس موضوعات پر بحثیں ہونے لگیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا ہمارے ملک میں ذات پات کو کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے۔ سماج کا ایک بہت بڑا طبقہ جو کہ تہذیبی سیاسی سماجی اور معاشی ہر لحاظ سے پسماندہ ہے، اس کو شامل کیے بغیر اور اس کو ساتھ لیے بغیر کسی بھی طرح ملک کی ترقی نہیں ہو گی۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ یہاں ذات پات اور اونچ نیچ کے نظام کا پایا جانا ہے، اگر یہ مسئلہ نہ ہوتا تو آج ہمارا ملک ایک عظیم قوت، ایک سوپر پاور ہوتا۔
مسلمان جس دین کے علم بردار ہیں وہ انسانوں میں کوئی تفریق نہیں کرتا، وہ سماج سے عدم مساوات کو ختم کرنے کے لیے آیا ہے، ذات پات کے اس خود ساختہ و فرسودہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے آیا ہے۔ اسلام سارے انسانوں کو بحیثیت انسان مساوی ہونے کی تعلیم دیتا ہے، لیکن اس کے ماننے والے دوسروں کو برابری ومساوات کی تعلیم دینے کے بجائے خود خانوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ہماری حیثیت امت وسط کی تھی لیکن ہم فرقوں میں تقسیم نظر آتے ہیں، اگر ہم ان فرقوں کی زنجیروں کو توڑ کر ایک امت نہیں بنیں گے تو ان بے چارے کمزور و پسماندہ طبقات کا پرسان حال کون ہو گا؟
***
***
مسلمان جس دین کے علم بردار ہیں وہ انسانوں میں کوئی تفریق نہیں کرتا، وہ سماج سے عدم مساوات کو ختم کرنے کے لیے آیا ہے، ذات پات کے اس خود ساختہ و فرسودہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے آیا ہے۔ اسلام سارے انسانوں کو بحیثیت انسان مساوی ہونے کی تعلیم دیتا ہے، لیکن اس کے ماننے والے دوسروں کو برابری ومساوات کی تعلیم دینے کے بجائے خود خانوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ہماری حیثیت امت وسط کی تھی لیکن ہم فرقوں میں تقسیم نظر آتے ہیں، اگر ہم ان فرقوں کی زنجیروں کو توڑ کر ایک امت نہیں بنیں گے تو ان بے چارے کمزور و پسماندہ طبقات کا پرسان حال کون ہو گا؟
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 نومبر تا 12 نومبر 2022