مذہب کی تبدیلی اور شریک حیات کا انتخاب، بھارتی شہریوں کا بنیادی حق
تبدیلی مذہب کا اعلان کرنے پر مجبور کرنا غیر آئینی :مدھیہ پردیش ہائی کورٹ
نئی دلی (دعوت نیوز ڈیسک)
مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے دو ججوں کی بنچ نے حال ہی میں فیصلہ سنایا کہ حکام، شہریوں کو اپنا مذہب تبدیل کرنے کے ارادے کا اعلان کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ ہائی کورٹ نے شہریوں کو اپنا مذہب تبدیل کرنے کی خواہش یا رضامندی کے بارے میں حکومت کو مطلع کرنے پر مجبور کرنے کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔اسی حکم میں ہائی کورٹ نے دو بالغ شہریوں کو ان کے مذہب سے قطع نظر اپنی مرضی سے شادی کرنے کی اجازت بھی دی ہے۔
ہائی کورٹ نے مدھیہ پردیش فریڈم آف ریلیجن ایکٹMPFRA)2021)کو چیلنج کرنے والی متعدد درخواستوں پر یہ فیصلہ سنادیا۔ تاہم شیوراج سنگھ کی حکومت نے ہائی کورٹ کے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
یہ فیصلہ بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ MPFRA مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے جوڑوں کی شادی کی راہ میں حائل ہوا اور ان لوگوں کے لیے مسائل پیدا کیے جو اپنے پیدائشی مذہب یا اپنے والدین اور آباو اجداد کے مذہب کو چھوڑ کر کسی اور مذہب کو اپنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مزید برآں اس ایکٹ کی دفعات کی خلاف ورزی پر بھاری مالی جرمانے کے ساتھ ایک سے سات سال تک قید کی سزا بھی سنائی گئی تھی۔
32 صفحات پر مشتمل فیصلے میں، ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں پر انحصار کیا ہے، خاص طور پر KS Puttaswamy بمقابلہ یونین آف انڈیا (2017) کیس، کیسوانند بھارتی بمقابلہ ریاست کیرالا (1973) میں نو ججوں کی بنچ کے حکم پر۔ لتا سنگھ بمقابلہ ریاست اتر پردیش اور دیگر (2006)کیس، لکشمی بائی چندراگی بی بمقابلہ ریاست کرناٹک (2020) شفین جہاں بمقابلہ کے ایم اشوکن (2018)، ایوینگلیکل فیلوشپ آف انڈیا بمقابلہ ریاست ہماچل پردیش (2012) اور جمعیۃ علماء ہند گجرات بمقابلہ ریاست گجرات (2021)کیسز۔ ان تمام معاملات میں سپریم کورٹ ، ہماچل پردیش اور گجرات کی ہائی کورٹس نے فیصلہ دیا کہ جیون ساتھی کا انتخاب کرنے کا حق آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت محفوظ ایک بنیادی حق ہے اور اس کے لیے خاندان کے افراد یا ریاست کی منظوری کی ضرورت نہیں ہے۔ شادی کے لیے دو بالغوں کے درمیان رضامندی کی صورت میں پٹاسوامی اور شفین جہاں کے معاملات میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ
’’ساتھیوں کے انتخاب کے لیے معاشرے کا کوئی کردار نہیں ہے۔‘‘
سپریم کورٹ ، ہماچل پردیش اور گجرات کے ہائی کورٹس کی طرف سے دیے گئے اسی نوعیت کے مختلف مقدمات کے فیصلوں پر غور کرتے ہوئے، مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں دو ججوں کی بنچ جس میں جسٹس سوجوئے پال اور پرکاش چندر گپتا شامل ہیں، نے فیصلہ دیا کہ MPFRA کی دفعہ 10 بظاہر ’’غیر آئینی‘‘ہے۔ اس حکم نے پورے MPFRA ڈھانچے کو منہدم کر دیا ہے، جس نے مذہبی آزادی کو محدود کیا تھا۔
اگست 2021 میں اس وقت کے چیف جسٹس وکرم ناتھ اور جسٹس برین ویشنو پر مشتمل گجرات ہائی کورٹ کی بنچ نے گجرات فریڈم آف ریلیجن (ترمیمی) ایکٹ، 2021 کے سیکشن 5 کے آپریشن پر روک لگا دی، جس میں مختلف مذاہب کے دو بالغوں کے درمیان شادی کے لیے ضلع مجسٹریٹ سے پیشگی اجازت لینا لازمی قرار دیا گیا تھا۔ سیکشن 5 میں غیر قانونی تبدیلی کے ذریعے شادی کی سزا بھی مقرر کی گئی تھی۔ اس فراہمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، بہت سے چوکس گروہوں نے یہ پروپیگنڈا کیا کہ بین المذاہب شادیاں مذہب کی تبدیلی کے لیے ہی کی جاتی ہیں، اس لیے یہ غیر قانونی ہیں ۔ چوکس گروہ بہت سے معاملات میں ایسے جوڑوں کو ہراساں کرنے کے لیے پولیس میں شکایت بھی درج کراتے رہےہیں۔
مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا فیصلہ اس لحاظ سے ضروری ہے کہ گجرات، اتر پردیش، ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ سمیت کئی ریاستی حکومتوں نے اپنے متعلقہ فریڈم آف ریلیجن ایکٹ (FRA) میں شادی کے ذریعے تبدیلی کے تصور کو متعارف کراتے ہوئے بین المذاہب شادیوں کو جرم قرار دیا ہے۔ ان قوانین نے دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے دو بالغ افراد سے شادی کرنے کا اختیار چھین لیا تھا۔اگرچہ یہ شادی خود غیر قانونی نہیں تھی، لیکن ان ریاستوں کے ایف آر اے نے اسے جرم قرار دیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ بین المذاہب جوڑوں کے درمیان شادیاں محض تبدیلی مذہب کے لیے کی جارہی ہیں ۔ ایف آر اے نے یہ آزادی فراہم کی کہ نہ صرف قریبی رشتہ دار بلکہ کوئی بھی پولیس میں شکایت درج کرا سکتا ہے کہ فلاں شادی صرف مذہب تبدیل کرنے کے لیے انجام دی گئی ہے، جس کے نتیجے میں کئی جوڑے ہراساں کیے گئے ۔ سوال یہ ہے کہ جب شادی بذات خود قانونی ہے تو یہ کیسے جرم بن سکتا ہے خواہ کوئی بھی شریکِ حیات اپنے ساتھی کے مذہب کی پیروی کا ہی فیصلہ کیوں نہ کر لے؟
سپریم کورٹ کے کئی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے، مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کی بنچ نے کہا کہ مذہب کی آزادی کے آئینی حق میں مذہب کے انتخاب کا بھی حق شامل ہے۔ عدالت عظمیٰ کے حکم میں مزید کہا گیا کہ مذہب کی آزادی کا حق شہریوں کو یہ حق بھی دیتا ہے کہ وہ ریاستی حکام سمیت دنیا کے سامنے اپنے مذہب کا اعلان کریں یا نہ کریں اس سلسلے میں وہ آزاد ہیں۔ ہماچل پردیش ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے، مدھیہ پردیش ہائی کورٹ بنچ نے واضح طور پر قرار دیا کہ ’’شہریوں کو حکام کے سامنے مذہب تبدیل کرنے کی اپنی خواہش کا اعلان کرنے پر مجبور کرنا غیر قانونی ہے۔‘‘
ہماچل پردیش ہائی کورٹ کا ایک حکم تھا کہ’’عوامی نظم کو برقرار رکھنے کی آڑ میں شہریوں سے مذہب تبدیل کرنے کا حق نہیں چھینا جا سکتا‘‘، مدھیہ پردیش ہائی کورٹ بنچ نے اسی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’اگر اس کی اجازت دی جاتی ہے تو یہ پنڈورا باکس کھول دے گا اور حریف تنظیموں اور گروہوں کے درمیان تنازعات کا باعث بھی بن سکتا ہے۔‘‘ اس نے درخواست گزاروں کے ساتھ اتفاق کیا کہ ’’مذہب کا انکشاف یا مذہب تبدیل کرنے کا ارادہ فرقہ وارانہ کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے اور مذہب تبدیل کرنے والوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔‘‘ بنچ نے ہماچل پردیش ہائی کورٹ کے حکم کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ ’’ریاست کی طرف سے تجویز کردہ علاج، مسائل کے حل سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘
جہاں تک ’زبردستی‘اور ’دھوکہ دہی‘ کے ذریعے تبدیلی مذہب کا تعلق ہے، بنچ نے ہماچل پردیش کے ہائی کورٹ کے حکم پر انحصار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے قانون کے مطابق نمٹا جانا چاہیے۔
مذہب تبدیل کرنے سے پہلے ضلع مجسٹریٹ کو 30 دن کے نوٹس دیے جانے والے قانون کے بارے میں، مدھیہ پردیش ہائی کورٹ بنچ نے دوبارہ ہماچل پردیش ہائی کورٹ کے حکم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کوئی شخص اپنی مرضی سے راتوں رات اپنا مذہب تبدیل نہیں کرے گا، سوائے جبری تبدیلی کے معاملے کے۔ عدالت نے مشاہدہ کیا ہے کہ اپنی مرضی سے مذہب کی تبدیلی ایک لمبا اور تیار شدہ عمل ہوتا ہے۔ لہذااس تاریخ کو ناپنے یا طے کرنے کا کوئی مخصوص طریقہ بھی نہیں ہے کہ کس دن کوئی شخص ایک مذہب سے تعلق ختم کر کے دوسرے مذہب میں تبدیل ہو گیا ہے، خاص طور پر ان مذاہب میں جہاں تبدیلی کے لیے کسی تقریب کی بھی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ اس لیے مذہب کی تبدیلی کے لیے نوٹس دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
مدھیہ پردیش ہائی کورٹ بنچ کے اس فیصلے کے بعد سماج میں ایک طرح کی طمانیت کا احساس دیکھا گیا کہ متعصبانہ ذہنیت کے حاملین کی جانب سے نام نہاد لو جہاد کے نام پر مختلف جوڑوں کو ہراساں کرنے پر اب پابندی عائد ہو گئی ہے ۔اور یہ فیصلہ اس بات کی مکمل اجازت فراہم کرتا ہے کہ کوئی بھی بالغ شہری کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے کو باہمی رضامندی سے اپنے شریک حیات کے بطور منتخب کرسکتا ہے ۔ کیونکہ یہ بحیثیتِ بھارتی شہری ہر کسی کا ایک بنیادی اور آئینی حق ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 ڈسمبر تا 17 ڈسمبر 2022