موجودہ ادب اور معاشرہ کےمسائل کا واحد حل رجوع الی القرآن ہے
انسان پر انسان کی حاکمیت ہی دنیا میں سارے فساد کی جڑ
ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی
آج ہم جس صارفی سماج میں زندگی بسر کر رہے ہیں وہ نہایت گہرے اور پیچیدہ سماجی و انسانی مسائل کا عہد ہے اور یہ مسائل عالمگیر ہیں۔ ایک طرف تو سائنس و ٹکنالوجی کی روز افزوں ترقی کا دور ہے، انسان سورج کی شعاعوں کو گرفتار کر رہا ہے اور ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے، چاند کو فتح کرنے کے بعد مریخ کی طرف گامزن ہے، دوسری طرف عالمگیریت نے زندگی کی صورت ہی بدل دی ہے۔ گلوبلائزیشن کا مطلب کمرشیلائزیشن ہے اور یہ ایک عامیانہ و سوقیانہ تہذیب کا فروغ ہے۔ اس اشتہاریت گزیدہ معاشرہ کے بڑھتے ہوئے اثرات کی موجودگی میں ہوس زر کا فروغ اور ذرائع ابلاغ کی برق رفتاری اور فلموں کی چکا چوند کے نتیجہ میں عریانی وفحاشی اور مادی اقدار کی غیر مشروط بالا دستی نے عام آدمی کو ادب و تہذیب سے بیگانہ کردیا ہے۔ اقتصادی خوشحالی کی اس دوڑ میں انسان زندگی کے اعلیٰ اخلاقی و روحانی اقدار سے اجنبی ہوتا جارہا ہے۔ آج ہر چیز ظاہری نفع و نقصان کے ترازو میں تولی جارہی ہے۔
دوسری طرف یہ دور نفرت و عداوت، جنگ و جدال اور خونریزی کا دور ہے۔ ساری دنیا مغربی استعماریت اور امریکہ و برطانیہ کی جنگ پرستی اور دہشت گردی کا شکار ہے۔ خون آشام مقامی ماحول سے لے کر عالمی منظر نامہ تک کسی بھی ادیب بلکہ کسی بھی حساس شہری کا سکون قلب چھیننے کے لیے کافی ہے۔ اس صورت حال میں ادب کی ضرورت دو چند ہوجاتی ہے، اس لیے کہ ادب ہی وہ دستاویز ہے جس کی مدد سے ان تمام سفاک حقیقتوں کو بے نقاب کیا جاسکتا ہے۔ اس ظلم و جبر و نا انصافی اور خونریزی و نسل کشی کے خلاف احتجاج کیا جا سکتا ہے اور موثر احتجاج اپنے آپ میں خود ایک جہاد ہوتا ہے۔ ایسا ادب نظام باطل کو بدلنے کا نقیب اور انقلاب صالح کا پیش رو ہوسکتا ہے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ آج ہمارا ادب خود مغربی مادی فکر و فلسفہ کا شکار ہو کر اپنی تعمیری و تہذیبی اور انقلابی خصوصیات کھو چکا ہے۔
آج کا اردو ادب فکری و فنی دونوں سطح پر عدم توازن، افراط و تفریط، بے راہ روی اور انتشار و خلفشار کا شکار ہے۔ عقیدہ و اقدار سے تنفر، حق و صداقت سے بے رخی اور خیر و صالحیت سے بے نیازی افسوس ناک حدود میں داخل ہو چکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو ادب کے قارئین کا حلقہ بھی روز بروز محدود ہوتا جا رہا ہے، معاشرے میں ادب کی جڑیں کمزور ہوتی جا رہی ہیں۔
چناں چہ اس ناگفتہ بہ سماجی وادبی صورتحال میں قرآنی تصور ادب کی ضرورت و اہمیت نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آجا تی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ عصر حاضر کے تمام پیچیدہ مسائل کا واحد حل ’’رجوع الی القرآن‘‘ ہے۔ قرآن حکیم جو ہمارے لیے دستور حیات ہے، منشور حیات ہے، ضابطہ حیات ہے بلکہ پوری انسانیت کے لیے آب حیات ہے۔ قرآن مجید جہاں انسانیت کو ہدایت دینے والی کتاب ہے وہیں یہ اپنے ادبی اسلوب اور فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے بھی بے مثال ہے۔
آئیے اب ہم دیکھیں کہ موجودہ ادب و زندگی کے تمام پیچیدہ مسائل، ذہنی بے چارگی اور فکر و عمل کی بے راہ روی کا علاج کتاب ہدایت قرآن حکیم نے کیا تجویز کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
ترجمہ: بلاشبہ آسمان و زمین کی خلقت میں، رات دن کے ایک کے بعد ایک آتے رہنے میں ارباب دانش کے لیے معرفت حق کی بڑی نشانیاں ہیں۔ اے ہمارے پروردگار! یہ سب کچھ جو تو نے پیدا کیا ہے بلا شبہ بے کار و عبث نہیں پیدا کیا، یہ کارخانہ ہستی جو اس حکمت و خوبی سے بنایا گیا ہے کوئی نہ کوئی مقصد و غایت بھی رکھتا ہے۔ یقیناً تیری ذات اس سے پاک ہے کہ ایک فعل عبث اس سے صادر ہو، خدایا ہمیں عذاب آتش سے بچا لیجیے۔ (سورہ آل عمران)
قرآن مجید کے اس ارشاد سے دو حقیقتیں بہت ہی ابھر کر ہمارے سامنے آجاتی ہیں۔ ایک یہ کہ کائنات بے خدا نہیں ہے، بلکہ ایک علیم و خبیر اور نادر غالب ہستی کی تخلیق کا نتیجہ ہے اور اس سے دوسری حقیقت جو خود بخود نمایاں ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ جہان رنگ و بو نہ تو بے حقیقت ہے اور نہ اس کی تخلیق بے کار، بے مقصد ہے۔ یہیں سے ہمیں کائنات کے اس منتہیٰ کا ادراک ہوتا ہے جسے آخرت کہتے ہیں۔ خدا کا ہمہ گیر تصور اور آخرت میں جواب دہی کا احساس، یہ وہ فکری بنیادی ہیں جو ہمارے ادب اور زندگی کے لیے اساس کی حیثیت رکھتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب ہدایت میں انسان کا مقصد وجود ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ
ترجمہ: میں نے جن اور انسان کو اس کے سوا اور کسی غرض کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں‘‘۔ اس آیت سے معلوم یہ ہوا کہ انسان کا مقصد وجود اللہ کی عبادت ہے، انسان اگر خدا کا بندہ ہے تو دوسری طرف اس کا نائب اور خلیفہ بھی۔ اس کی نیابت ہی اس کی عبدیت کے اظہار و بلند ترین ذریعہ ہے۔ نیابت کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے خالق کے مقصد و منشا کے مطابق انسان اپنی پوری زندگی گزارے اور یہی عین عبدیت ہے۔ عبدیت اور نیابت انسان میں تعمیر عالم کے رجحانات پیدا کرتی ہے اور جو عالم کے بناو کا باعث ہے۔ یہ ایک سجدہ کی گرانی ہزار سجدوں کی ذلت او رسوائی کے ساتھ باعث فساد و بگاڑ ہے۔
انسان پر انسان کی حاکمیت ہی آج دنیا میں سارے فساد کی جڑ ہے۔ قرآنی ہدایات کا پیرو کار انسان ادب و فن کو بھی ایک عبادت تصور کرتا ہے مگر فن کی عبادت نہیں کرتا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ عبادت کا یہ وسیع تصور اور ہمہ گیر تخیل اس کے ذہن کی سطح پر زندگی اور ادب کو یکجا کر دیتا ہے۔ چنانچہ ایسا ادب ترقی پسندی اور زوال پسندی کے درمیان جادہ اعتدال تجویز کرتا ہے، جس میں مواد و ہئیت اور فکر و فن کے درمیان ایک تخلیقی توازن پایا جاتا ہے۔ بلاشبہ ایسا ادب زندگی کے ساتھ وابستہ ہے اور معاشرے اور انسانیت کے ساتھ عہد و پیمان کا پابند ہے اور اس عہد پر مبنی زندگی کے ایک اصول کا وفادار ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے
ترجمہ: اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، کچھ کھیل تماشے کے طور پر نہیں بنایا، اگر ہمیں یہی کچھ بنانا مقصود ہوتا تو اس میں کون مانع آ سکتا تھا، ہم خود اپنی جانب سے ایسا بنا دیتے مگر ہم ایسا کرنے والے نہیں تھے، بلکہ ہم تو حق سے باطل پر ضرب لگاتے ہیں تو وہ باطل کا سر کچل ڈالتا ہے اور اچانک اسے فنا کر دیتا ہے۔ افسوس تم پر تم کیسی کیسی باتیں کرتے ہو‘‘۔ (پارہ 25۔ آیت16)
ان آیات سے معلوم یہ ہوا کہ اس کائنات کی سب سے اٹل حقیقت حق و باطل کی کشمکش ہے۔ لِيُحِقَّ الْحَقَّ وَ يُبْطِلَ الْبٰاطِلَ۔یعنی اس کائنات میں اگر کوئی ثنویت، جدلیت اور کشمکش ہے تو صرف حق و باطل کے درمیان ہے۔ جو ازل میں آدم و ابلیس سے شروع ہو کر ابد تک جاری رہنے والی ہے اور آفاق و انفس میں اسی کشمکش کے تسلسل نے حیات و کائنات کو تنوع اور بو قلمونی عطا کی ہے۔ یہ نور و ظلمت، خیر و شر، روز و شب، نشیب و فراز، مثبت و منفی، حقیقت و مجاز، معروف و منکر اور ازلی و ابدی کشمکش کے مختلف مظاہر ہیں۔ حیات انسانی میں بھی یہ کشمکش انفرادی و اجتماعی دونوں سطحوں پر ہر جگہ نمایاں رہتی ہے۔ انفرادی سطح پر
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْم ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَۙ
یعنی ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا، پھر اسے الٹا پھیر کر ہم نے سب نیچوں سے نیچا کر دیا (سور التین، آیت 4تا5)
آج جس ملک اور جس شہر پر نگاہ ڈالیے انسان کے احسن تقویم اور اسفل السافلین کے متعدد نمونے آپ کی نگاہوں کے سامنے آجائیں گے۔ اسی طرح اگر اجتماعی سطح پر آپ اقوام عالم کی تاریخ دیکھیں تو
وَقُلْ جَآءَٱلْحَقُّ وَزَهَقَ ٱلْبَٰطِلُ ۚ إِنَّ ٱلْبَٰطِلَ كَانَ زَهُوقًا
اور اعلان کردو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے‘‘۔ کی وافر مثالیں بھری پڑی نظر آئیں گی۔
واقعہ یہ ہے کہ حق و باطل کے رد و قبول سے جو معاشرہ جس قدر متاثر ہو گا اس کے شعر و ادب کا بھی اس سے متاثر ہونا بالکل فطری ہے۔ مجموعی طور پر ماحول و معاشرہ کی فضا فن کاروں کے فکر و تخیل کو متاثر کر کے اس کے ادب کو بھی متاثر کرتی ہے اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نا مساعد حالات اور راہ حق کی دشواریوں کے باوجود بعض طاقتور سعید روحیں اپنے معاشرہ کے علی الرغم اپنے خون جگر سے اپنے فکر و احساس کی ایک نئی دنیا تعمیر کر لیتی ہیں۔ باطل کی ہر یلغار انہیں مستعد اور چوکنا بنا دیتی ہے اور ان کے عہد کے منفی رجحانات انہیں مثبت عمل پر ابھارتے ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ انفرادی طور سے تقاضائے حق اور جمالیاتی اقدار کو فنکار جذباتی اور تخلیقی سطح پر جس قدر صمیم قلب سے اختیار کرے گا اور اس کا ادب پارہ اسی قدر تاثیر اور آفاقی نوعیت کا ہو گا۔
ادب کی نظریہ سے وابستگی اور اس کے ذریعہ اچھائیوں کا فروغ اور برائیوں کے سدباب کی کوشش، قرآن مجید کے ایک بلیغ جملے ’’امر بالمعروف نہی عن المنکر‘‘میں بھی مضمر ہے، جس کی اقامت کا وہ بار بار تاکیدی حکم دیتا ہے۔ ادب میں فواحشات کو منکرات کی موجودگی کو ’’لھوالحدیث‘‘ قرار دے کر وہ معاشرہ میں ایسی کسی چیز کی دراندازی روا نہیں رکھتا جس کی وجہ سے معاشرہ کی صالحیت پر ضرب لگتی ہو۔ چنانچہ وہ سوسائٹی کی اصلاح کے لیے انسان کے داخلی و خارجی ایسے تمام محرکات پر قد غن لگا دیتا ہے جن سے کسی نہ کسی برائی کو شہہ ملتی ہے لیکن یہاں پر اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے کہ ادیب کے لیے آزادی اظہار و عمل لازمی ہے۔ انسان کی تخلیقی صلاحیت کے لیے آزادی درکار ہے، خیال کے اظہار کی آزادی روحانی زندگی کا سب سے بڑا عطیہ ہے لیکن اس کے ساتھ ہی حقیقت کو بھی تسلیم کرلینا چاہیے کہ آج کی بیکراں آزادی میں اخلاقی پابندی لازمی ہے۔ ان پابندیوں کو توڑنے یا نظر انداز کرنے سے اسی انتشار اور ، نراج اور زوال سے ہم دوچار ہوں گے جس کا مشاہدہ آئے دن ہم ’شعر و ادب، تہذیب اور معاشرے میں کر رہے ہیں۔ یہ لا محدود عریاں آزادی ہی ہے جس نے نئی نسلوں کے ذہن کو پراگندہ بنا دیا ہے اور ادب کے ساتھ ان کی زندگی کو بھی مجروح کیا ہے۔
مختصر یہ کہ انسان کامل کی تعمیر اور مثالی معاشرے کی تشکیل کے سلسلہ میں قرآن حکیم کی یہ ہدایات ہمارے سامنے ہیں جن سے کسب نور کر کے بلاشبہ ادب بھی اعلیٰ معیار پیش کیا جاسکتا ہے کیوں کہ ادب ایک دوسرے وابستہ اور پیوستہ ہیں اور دونوں کے پیش نظر اقدار حیات کا فروغ ہے۔
(مضمون نگار انجمن ڈگری کالج بھٹکل کے سابق صدر شعبہ اردو اور ادارہ ادب اسلامی ہند کے سابق قومی صدر ہیں )
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 اکتوبر تا 05 نومبر 2022