مصنوعی ذہانت میں روزگار کے بڑے مواقع
اے آئی کی پیش رفت سے ہونے والی تبدیلیاں انسانیت کے لیے انتہائی خطرناک!
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
آئی ٹی شعبہ کی نمائندہ تنظیم نیشنل اسوسی ایشن آف سافٹ ویر اینڈ سرویس کمپنی (این اے ایس ایس سی او ایم) کے مطابق اس وقت ملک میں 4.16 لاکھ اے آئی انجینئرس ہیں مگر وہ نصف ضرورت سے بھی کم ہیں اور فی الفور 2.13 لاکھ مزید اے آئی انجینئرس کی ضرورت ہے۔
بھارت سائنسی ترقی میں ترقی یافتہ ممالک سے کم نہیں ہے اور وہ آج کے ڈیجیٹل دوڑ میں اہم رول ادا کر رہا ہے۔ دنیا جب مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹلیجنس) کے ساتھ ٹکنالوجی کے میدان میں انقلاب کا نیا باب شروع کر رہی ہے تو اس میں ہمارے ملک کا بھی اہم کردار رہے گا۔ چونکہ یہ ٹکنالوجی بسرعت چلتی ہے اور تیز و طرار ہے اس لیے اس پر بہت سارے شکوک بھی پیدا ہو رہے ہیں جس میں پہلی اور اہم بات ہے روزگار کا متاثر ہونا۔ ساتھ ہی ماہرین کا ماننا ہے کہ اس ٹکنالوجی سے نئے روزگار بھی پیدا ہوں گے۔ تلاش روزگار کے مشہور پورٹل ’انڈیڈ‘ کے ایک مطالعہ کے مطابق اس پورٹل پر گزشتہ پانچ سالوں میں مصنوعی (اے آئی) سے متعلق روزگار کی لسٹنگ میں 158 فیصد کا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ اس طرح 2018 کے مقابلے مارچ 2023 میں 89 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔حالیہ گولڈن مین سچ کی رپورٹ کے مطابق اندازہ لگایا گیا ہے کہ مختلف شعبوں میں 21 فیصد نوکریاں آٹومیٹیڈ ہوسکتی ہیں۔ ہارورڈ بزنس ریویو نے بھی اسی طرح کا اندازہ دیا ہے، لیکن روزگار کے متعلق ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ نے کہا ہے کہ اے آئی سے مشین لرننگ ماہرین، سائنسی ڈیٹا تجزیہ کار اور ڈیجیٹل ماہرین کے لیے اچھے مواقع پیدا ہوں گے۔ ہمارے ملک میں بھی بڑی تعداد میں صلاحیت کے ساتھ ذہانت موجود ہے اس لیے ہم اے آئی کی ترقی کو تحریک دینے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں اور عالمی طور سے رہنمائی کی پوزیشن میں ہیں۔ انڈیڈ کے اعداد و شمار کے مطابق کمپیوٹر ٹکنالوجی کی صلاحیت رکھنے والے لوگ اے آئی کے شعبہ میں قسمت آزمائی کر سکتے ہیں۔ اسی طرح کا رجحان امریکہ، سنگاپور و دیگر ممالک میں بھی نظر آرہا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومتوں اور ڈیجیٹل ٹکنالوجی کے شعبوں کی کمپنیوں کو مصنوعی ذہانت کے بے جا استعمال اور اس کے بے قابو ہونے والے خطرات کو پیش نظر رکھ کر غور و فکر کرنا چاہیے اور ضروری ضابطوں کی تنظیم بھی کرنی چاہیے۔ یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ مصنوعی ذہانت ساری دنیا میں بڑے پیمانے پر بڑی قوت کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ ابھی یہ اپنی ترقی کی پہلی منزل میں ہی ہے۔ اس لیے بھارت کو آگے بڑھ کر اپنی صلاحیتوں اور ڈیجیٹل ٹکنالوجی کے محیر العقول تجربوں سے استفادہ کرتے ہوئے اے آئی کے شعبہ میں اختراعیت اور تحقیق کو بڑھاوا دینا چاہیے۔
یاد رہے کہ مصنوعی ذہانت کمپیوٹر سائنس کا ایک ذیلی شعبہ ہے جس میں ذہانت، سیکھنے اور ہر طرح کی صلاحیت کو تیزی کے ساتھ اپنانے سے متعلق بحث کی جاتی ہے، اس میں کمپیوٹر سافٹ ویر یا مشینوں کے اندر ایسی صلاحیت بھر دی جاتی ہے تاکہ وہ معلومات کا تجزیہ کرکے حالات کے مطابق خود ہی فیصلہ کرسکے۔ اے آئی کے نئے ان پٹ کے مطابق اپنے کو ہم آہنگ کرتے ہوئے انسانوں جیسے اعمال انجام دینے کو ممکن بناتی ہے۔ اکثر اے آئی کی مثالیں جو سننے میں آتی ہیں، شطرنج کھیلنے والے کمپیوٹر سے لے کر خود سے چلنے والی کاروں تک ان کا زیادہ انحصار گہرے مطالعہ سے سیکھنے اور قدرتی زبان کی پروسیسنگ پر ہے۔ ایسی ٹکنالوجیوں کا استعمال کرکے کمپیوٹرز کو ڈیٹا کی بڑی مقدار پر عمل آوری کے بعد ڈیٹا کے پیٹرن کی شناخت کے ذریعہ مخصوص کاموں کو مکمل کرنے کی تربیت دی جا سکتی ہے۔ اس مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی اصطلاح 1956 میں ہی وضع کی گئی تھی لیکن ڈیٹا کی مقدار میں اچھے خاصے اضافہ کے باعث اے آئی پر ریسرچ مسائل کے حل، جدید الگورتھم، کمپیوٹر پاور اور اسٹوریج کے باعث اس تحقیق نے مسائل کے حل اور علامتی طریقوں جیسے موضوعات کو تلاش کیا ہے۔ 1960 کی دہائی میں امریکی محکمہ دفاع نے ایسے مسائل میں دلچسپی لی اور بنیادی استدلال کی نقل کرنے کے لیے کمپیوٹر کی تربیت کی شروعات کی۔
مصنوعی ذہانت کی ٹکنالوجی کے جنم داتاوں میں شامل سائنس داں جیفری ہیٹن نے گوگل سے اپنی ملازمت سے دستبردار ہونے کی خبر دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اے آئی کو بسرعت متعارف کرنے کے سلسلے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے گوگل کی ملازمت چھوڑی ہے۔ اس طرح مصنوعی ذہانت کے فاونڈیشن کے بانی اور اس شعبہ کے بڑے سائنس دانوں نے ٹائم کو بتایا کہ مصنوعی ذہانت کے پیش رفت سے انسانیت پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے اور جس طرح کی تبدیلی ہوگی وہ انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ سب سے زیادہ مقبول چیٹ بوٹ ’’چیٹ جی پی ٹی‘‘ کے پس پشت اسٹارٹ اپ کمپنی ’’اوپن اے آئی‘‘ نے پہلے سے زائد ڈیٹا استعمال کرکے ایک سسٹم بنانا شروع کیا ہے۔ ہنٹن نے بتایا کہ یہ اے آئی کا نظم چند طریقوں سے انسانی ذہانت کو
گرہن لگا دیں گے۔ مصنوعی ذہانت کا استعمال ٹکنوکریٹ کی مدد کے لیے کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اے آئی انسانوں کے لیے مشکل کام انجام دیتی ہی ہے لیکن یہ اس صلاحیت کے علاوہ زیادہ کرنے کی صلاحیت کو بھی چھین لے گی۔ اس لیے اے آئی کی طرف سے پیدا کی گئی غلط معلومات کے ممکنہ پھیلاو کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے سائنس دانوں نے کہا کہ ہم مسلسل ابھرتے ہوئے خطرات کو سمجھنا سیکھ رہے ہیں اور دلیرانہ طور سے اختراع بھی کرتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت کا اصل جھٹکا یہ ہے کہ ٹکنالوجی کمرشیل تناظر میں اب قابل استعمال ہوگیا ہے نہ کہ صرف ’کم علمی یا بار بار کیے جانے والے یعنی وبوٹک کاموں کے لیے جن کے بارے میں ہمیشہ خیال کیا جاتا تھا کہ ایسے کاموں کو مشینوں سے ہی کروایا جاسکتا ہے۔ اوپن اے آئی یا چیٹ جی پی ٹی کے بانی سم آلٹ مین نے خود اس ٹکنالوجی کے اب تک کے استعمال پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ خصوصاً کسی بھی تخلیقی عمل کے آغاز میں کاپی لکھنے، تصویر بنانے، اشعار لکھنے، موسیقی بنانے، کمپوز کرنے یا پروگرام کو کوڈ کرنے کے لیے کئی ایام کی بریفنگ کے بجائے اب چند سکنڈز میں یہ کام شروع کیا جاسکتا ہے اور یہ سب مصنوعی ذہانت کے اس ورژن سے ممکن ہوا ہے جو ابھی بالغ انسان کی سطح کا ذہن نہیں ہے۔ اچھی خیر یہ ہے کہ اس ٹکنالوجی کے ذریعہ باقی دنیا کے مقابلے میں تیزی سے استعمال کرکے برطانیہ کے پیداوار کے بحران کو حل کیا جاسکتا ہے۔ مگر بڑی خبر یہ ہے کہ تبدیلی اتنی سرعت سے ہوسکتی ہے کہ ملازمین کو اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کا وقت بھی نہ ملے۔ اس سے ممکنہ طور پر سماجی اور معاشی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ اس ٹکنالوجی کے بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ آپ کو مصنوعی ذہانت سے نہ بدلا جائے مگر آپ کی جگہ کوئی ایسا شخص لے سکتا ہے جو اے آئی کو استعمال کرنا بہتر طریقے سے جانتا ہو۔
واضح رہے کہ اوپن اے آئی کی چیٹ جی پی ٹی کی کامیابی نے ہر جگہ مصنوعی ذہانت اور اپلیکیشن والے ماہر پیشہ ور افراد کی طلب میں اضافہ کر دیا ہے جس سے ہمارا ملک کنارہ کش نہیں رہ سکتا ہے۔ آئی ٹی شعبہ کی نمائندہ تنظیم نیشنل اسوسی ایشن آف سافٹ ویر اینڈسرویس کمپنی کے مطابق اس وقت ملک میں 4.16 لاکھ اے آئی انجینئرس ہیں مگر وہ نصف ضرورت سے بھی کم ہیں اور فی الفور 2.13 لاکھ مزید اے آئی انجینئرس کی ضرورت ہے۔ ملک میں اے آئی ماہرین کو 30 سے 35 فیصد انکریمنٹ دینے کا اعلان کیا گیا ہے کیونکہ فائنانس اور تفریحی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ حفظان صحت کے شعبہ میں اے آئی انجینئرس دستیاب نہیں ہیں۔ اس لیے اس شعبہ کے انجینئرس حسب منشا اپنی ملازمتیں بھی تبدیل کر رہے ہیں۔ شدید ضرورت کے مد نظر کئی کمپنیاں انہیں دگنی تنخواہ کا آفر بھی دے رہی ہیں جہاں تک اے آئی کا تعلق ہے تو بلا تردد کہا جا سکتا ہے کہ اس کی افادیت بے انتہا ہے۔ مگر اس سے خطرات بھی اسی قدر ہیں۔ پہلے گوگل دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا سرچ انجن سمجھا جاتا تھا جسے گزشتہ کئی سالوں سے استعمال کیا جاتا رہا ہے مگر جس رفتار سے آے آئی کا گراف بہتر ہوا ہے گوگل کا سر درد بھی بڑھنے لگا ہے، اس لیے گوگل آئندہ آنے والے خطرات سے نمٹنے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس ضمن میں چیٹ جی پی ٹی و دیگر اے آئی ٹولز کے بڑھتے ہوئے اثرات کے مد نظر امریکی ٹیک کمپنیاں اپنے سروسز کو 10 بلیو لنکس سے آگے لے جانا چاہتی ہیں۔
***
***
مصنوعی ذہانت کا استعمال ٹکنوکریٹ کی مدد کے لیے کیا گیا ہے۔ اے آئی انسانوں کے لیے مشکل کام انجام دیتی ہی ہے لیکن یہ اس صلاحیت کے علاوہ کچھ زیادہ کرنے کی صلاحیت کو بھی چھین لے گی۔ اس لیے اے آئی کی طرف سے پیدا کی گئی غلط معلومات کے ممکنہ پھیلاو کے بارے میں خبر دار کرتے ہوئے سائنس دانوں نے کہا کہ ہم مسلسل ابھرتے ہوئے خطرات کو سمجھنا سیکھ رہے ہیں اور دلیرانہ طور سے اختراع بھی کرتے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 جون تا 10 جون 2023