مسائل کا گرداب اور بھارتی مسلمان

کاش ہم اپنی حقیقت سے آگاہ ہوتے !

محمد ابراہیم خان، آکوٹ (مہاراشٹر)

بھارت جنوبی ایشیا میں واقع ایک بڑا ملک ہے۔ اس میں پرانے دور سے ہی مختلف مذاہب کے لوگ رہتے بستے آئے ہیں ۔ بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اور اس لحاظ سے یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھی کہلاتا ہے۔ بھارت کے ایک ارب پینتیس کروڑ سے زائد باشندے ایک سو سے زائد زبانیں بولتے ہیں۔
آج جن حالات کا سامنا اہل وطن کو ہے ’عیاں را چہ بیاں‘ کے مصداق تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ لیکن بطور خاص اس ملک کی دوسری بڑی اکثریت کو اب اپنی تاریخ سے آشنا ہونے کی ضرورت ہے کیوں کہ تعلیم سے غفلت کے نتیجہ میں اور ملکی حالات کے تناظر میں۔ یہ ملت اپنے ماضی کو بھی فراموش کر چکی ہے۔ ہماری نئی نسل کو یہ بھی نہیں معلوم کے آزادی وطن میں ہمارا کیا حصہ ہے، کیونکہ تاریخ کو مسخ کرنے والوں نے ہما ری ان عظیم قربانیوں کے تذکرے ہی تاریخ کے صفحات سے غائب کر دیے ہیں جن میں ہمارے خون سے لکھی ہوئی داستان آزادی موجود ہے ۔
’’ہندوستان کی آزادی کی کہانی اور تاریخ مسلمانوں کے خون سے لکھی گئی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے کم تناسب کے باوجود جدوجہد آزادی میں مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد نے نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ اپنے وطن عزیز کی آزادی کو یقینی بنانے اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کیے۔‘‘
یہ الفاظ کسی عام ہندوستانی، سیاسی رہنما یا پھر کسی مسلم عالم و قائد نے نہیں بلکہ ممتاز صحافی و ادیب آنجہانی خشونت سنگھ نے کہے تھے۔
آپ کو بتادیں کہ دہلی کی انڈیا گیٹ پر تقریباً 95,300 مجاہدین آزادی کے نام تحریر کیے گئے ہیں جن میں سے 61,945 مسلمان ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہندوستان کی آزادی کے لیے انگریزوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے، لڑنے اور قربانیاں پیش کرنے والوں میں پینسٹھ فیصد مسلم مجاہدین آزادی تھے۔لیکن ایک منظم سازش کے طور پر اور نہایت طویل المیعاد منصوبہ کے تحت، تاریخی حقائق سے چشم پوشی کر کے ہماری نئی نسل کو احساس کمتری میں مبتلا کیا جارہا ہے اور ان کی عظیم قربانیوں کو بھلا کر یہ فتنہ کھڑا کیا جارہا تھا ہے تاکہ ان کی شہریت ہی خطرے میں پڑ جائے۔ ان حالات میں نہ صرف مسلمانوں کو اپنی تاریخ سے واقفیت حاصل کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اپنے مقصد وجود کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پینسٹھ فی صد مسلم مجاہدین آزادی جن کے نام آج بھی انڈیا گیٹ کے اندر محفوظ ہیں، ان کے وارثین کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا جارہا ہے۔ دراصل موجودہ قیادت نے اپنے خدوخال کو واضح کرنے میں کوئی منافقت کا رویہ بھی اختیار نہیں کیا ہے بلکہ نہایت واضح منصوبہ لے کر وہ اقتدار میں آئے ہیں۔ آئے دن صاف ذہن کے صحافی و ودانش ور حضرات اس بات پر کھل کر اظہار خیال کر رہے ہیں کہ ملک دھیرے دھیرے جمہوریت کے خاتمے کی طرف گامزن ہے اور دستور بھی خطرے میں ہے ۔
ملک کی سیاست میں عوام کے حق میں راحت رسانی کے کیا کام کیے گئے؟ آیا ان کو درپیش مسائل کا حل نکالا گیا؟ ملک کی ترقی کے لیے کیا کیا اقدامات کیے گئے ہیں اور اس وقت ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ان باتوں کا تجزیہ کوئی مشکل نہیں ہے۔ بقول اقبال خلش
یہ صدا آتی ہے دور کہیں آبادی سے
تھی غلامی ہی بھلی آج کی آزادی سے
ہم ایک طویل حدیث سے رہنمائی حاصل کر کے اس وقت کی موجودہ صورتحال کا حل نکال سکتے ہیں۔ حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک دو منزلہ بحری جہاز میں اوپر کے طبقے پر پینے کے پانی کا نظم ہے لہذا نیچے کے طبقے کے لوگ اپنی پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے بار بار اوپر جاتے ہیں ۔ اب یہ چڑھنا اترنا انہیں مشکل نظر آئے اور کوئی کم عقل یہ مشورہ دے کہ ہم پانی کے لیے باربار اوپر جارہے ہیں جب کے پانی تو ہمارے نیچے بہہ رہا ہے اور پھر چند سر پھرے، جہاز میں سوراخ کرنا شروع کردیں اور کوئی انہیں نہ روکے تو حشر کیا ہو گا؟ یہی نا کہ جہاز ڈوبے گا اور جہاز میں سوار سب ڈوب مریں گے۔
اس تمثیل کے ذریعہ یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہم سب اس وقت ایک ہی جہاز میں سوار ہیں اور سوراخ کرنے والوں کی طرف سے اگر غفلت برتی گئی تو انجام سامنے ہے۔
آج اس ملک کی کشتی کو کس طرح سنبھال کر رکھا گیا ہے؟ کیا اس کے ملاح ہی اسے غرق کرنے میں لگے ہیں؟ سوچنے اور غور کرنے کا مقام ہے۔ مفکر اسلام مولانا مودودی نے لکھا ہے کہ ’’جمہوری حکومت جن خوشنما نظریات سے شروع ہوتی ہے، عمل کی سرحد میں آکر وہ رخصت ہو جاتے ہیں‘‘ اور پھر آگے فرماتے ہیں ’’جمہوری نظام میں جب اکثریت کی حکومت کا اصول اختیار کیا جاتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ جو گروہ کثیر تعداد میں ہے وہ حاکم بن جائے اور حکومت کے زور سے اپنی اغراض و خواہشات حاصل کرے اور جو گروہ قلیل تعداد میں ہے وہ غلام بنا لیا جائے۔
خوب غور کر لیجیے کہ یہ خیال حقیقت سے کس قدر قریب ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس بات پر بھی غور کریں کہ دستوری طور پر جو آزادی حاصل تھی کیا اسے قائم رکھا گیا ہے؟ ستر سالوں سے زیادہ کا تجربہ سامنے ہے۔ اب ضرورت ہے کہ یہ بھی دیکھا جائے کہ اس ملک میں سب سے زیادہ ذمہ دار گروہ کونسا ہے کہ جو اس ملک کو بچا سکتا ہے؟ کیا اس میں کوئی شک ہے کہ پوری انسانیت کی بھلائی کا، ان کی کامیابی وکامرانی کا اور ان کی دنیا و آخرت کی سرخ روئی کا بہترین منصوبہ ملت اسلامیہ کے پاس ہے اور وہ منصوبہ جو ہر طرح کے شک و شبہ سے پاک ہے؟ ہم اگر اپنے بنیادی عقیدہ کو اور اس کلمہ کو ہی سمجھ لیں تو اندازہ ہوگا کہ سب سے بڑی ذمہ داری اسی ملت پر آتی ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ روئے زمین پر اگر انسانوں کی کامیابی کے لیے کوئی دستور حیات ہے تو وہ اللہ کی آخری کتاب ہے جس کی رو سے زمین کی اس آبادی میں صرف دو ہی پارٹیاں ہیں۔ ایک اللہ کی پارٹی حزب اللہ، دوسرے شیطان کی پارٹی حزب الشیطان۔ شیطان کی پارٹی میں خواہ باہم اصول و مسلک کے اعتبار سے کتنے ہی اختلافات ہوں، قرآن ان سب کو ایک سمجھتا ہے کیونکہ ان کا طریق فکر اور طریق عمل بہر حال اسلام نہیں ہے اور جزوی اختلاف کے باوجود بہر حال وہ سب شیطان کی اتباع پر ہیں۔ قرآن کہتا ہے :
’’شیطان ان پر غالب آگیا اور اس نے خدا سے انہیں غافل کردیا۔ وہ شیطان کی پارٹی کے لوگ ہیں۔ اور جان رکھو کہ شیطان کی پارٹی ہی آخر کار نا مراد رہنے والی ہے‘‘
اب ان دو پارٹیوں کے کلمے بھی دو ہی ہیں۔ سورہ ابراھیم، آیات 24تا25 میں ہے: حزب اللہ کا کلمہ ہے کلمہ طیبہ اور حزب الشیطان کا کلمہ ہے کلمہ خبیثہ۔ مفکر اسلام مولانا مودودی نے کلمہ طیبہ کی تشریح میں لکھا ہے کہ ’’کلمہ طیبہ ایسا بارآور اور نتیجہ خیز کلمہ ہے کہ جو شخص یا قوم اسے بنیاد بنا کر اپنی زندگی کا نظام اس پر تعمیر کرے، اس کو ہر آن مفید نتائج حاصل ہوتے رہتے ہیں وہ فکر میں سلجھاؤ، طبیعت میں سلامتی، مزاج میں اعتدال، سیرت میں مضبوطی، اخلاق میں پاکیزگی، روح میں لطافت، جسم میں طہارت و نظافت، برتاؤ میں خوشگواری، معاملات میں راست بازی، کلام میں صداقت شعاری، قول و قرار میں پختگی، معاشرت میں حسن سلوک، تہذیب میں فضیلت، تمدن میں توازن، معیشت میں عدل و مواسات، سیاست میں دیانت، جنگ میں شرافت، صلح میں خلوص اور عہد وپیمان میں وثوق پیدا کرتا ہے۔ وہ ایک ایسا پارس ہے جس کی تاثیر اگر کوئی ٹھیک ٹھیک قبول کرلے تو کندن بن جائے۔
اور حزب الشیطان کا کلمہ، کلمہ خبیثہ ہے۔ یہ کلمہ طیبہ کی ضد ہے۔ جس کا اطلاق اگرچہ ہر خلاف حقیقت اور مبنی بر غلط قول پر ہو سکتا ہے، مگر یہاں اس سے مراد ہر وہ باطل عقیدہ ہے جس کو انسان اپنے نظام زندگی کی بنیاد بنائے، قطع نظر اس سے کہ وہ دہریت، الحاد اور زندیقہ ہو، شرک یا بت پرستی ہو یا کوئی اور ایسا تخیل جو انبیاء کے واسطے نہ آیا ہو۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسانیت تو کلمۂ خبیثہ کے درخت شجر خبیثہ کے کڑوے کسیلے پھلوں کا مزا چکھ چکی ہے اور ان خباثتوں نے انسانیت کو جس عذاب الیم میں مبتلا کر رکھا ہے اسے سب بھگت رہے ہیں ۔۔۔ پھر کون اسے شجر طیبہ کے سایہ میں لائے گا؟
کیا وہ ملت جو اس کلمہ طیبہ کی امانت اپنے پاس رکھتی ہے، وہ کسی اور کا انتظار کر رہی ہے؟ ملت اسلامیہ کو، کلمہ طیبہ جو قول حق اور عقیدہ صالحہ اور راستی پر مبنی ہے اسی کی طرف انسانیت کو بلانا ہوگا تاکہ شجر طیبہ کے سایہ میں انسانیت کو سکون و اطمینان امن وامان نصیب ہو۔
یہ کام ملک میں آج سوائے امت مسلمہ کے اور کون کر سکتا ہے؟
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا

 

***

 ہم اگر اپنے بنیادی عقیدہ کو اور اس کلمہ کو ہی سمجھ لیں تو اندازہ ہوگا کہ سب سے بڑی ذمہ داری اسی ملت پر آتی ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ روئے زمین پر اگر انسانوں کی کامیابی کے لیے کوئی دستور حیات ہے تو وہ اللہ کی آخری کتاب ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مارچ تا 18 مارچ 2023