!مرکزی حکومت عدالت عظمیٰ کے ساتھ ٹکراو کے راستے پر

عوام کے منتخب وزیر اعلیٰ کےمقابلے میں دو سرکاری عہدیداروں کو زیادہ طاقتور بنانے کا اقدام!!

زعیم الدین ،احمد حیدرآباد

متنازعہ آرڈیننس کے ذریعہ سپریم کورٹ کے ایک اہم فیصلے کو الٹ دیا گیا
ہمارے ملک میں بنیادی طور پر دو طرح کی ملازمتیں ہوتی ہیں، ایک مرکزی حکومت کے تحت دوسرے ریاستی حکومت کے تحت۔ قابل فہم بات یہ ہے کہ ملازمین پر حکومتوں کو اختیار ہوتا ہے، مرکزی حکومت کے زیر انتظام اداروں کے ملازمین پر مرکزی حکومت کا اختیار ہوتا ہے، ریاستی حکومت کے زیر انتظام اداروں پر ریاستی حکومت کو اختیار ہوتا ہے، اس معاملے میں کوئی شخص بھی غلط فہمی کا شکار نہیں ہے، بات بالکل واضح ہے، لیکن دلی کا معاملہ قدرے مختلف ہے، کیوں کہ یہ ملک کا دارالحکومت ہے اس لیے اسے مکمل ریاست کا درجہ حاصل نہیں ہے، ایسی صورت میں پھر عہدداروں کا تعلق کس حکومت سے ہے، ان عہدداروں پر کون سی حکومت کا اختیار چلے گا، کیا ریاستی حکومت کو اختیار ہوگا جیسا کہ دیگر ریاستی حکومتوں کو ہوتا ہے یا پھر دلی مرکزی زیرِ انتظام علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے عہدیداروں پر مرکزی حکومت کا اختیار ہوگا؟ سوال یہ ہے کہ یہاں مرکزی حکومت کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے لیفٹننٹ گورنر با اختیار ہے یا عوامی نمائندے؟ اس سوال کو لے کر اکثر و بیشتر مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت کے درمیان رسہ کشی جاری رہتی ہے، یہی موضوع مرکزی و ریاستی حکومت کے درمیان کشیدگی کا باعث بن ہوا ہے۔
اس مسئلہ کے مستقل حل کے لیے دلی کی ریاستی حکومت نے عدالت عظمٰی کا رخ کیا تھا، عدالت عظمٰی نے اس مسئلہ کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا، فریقین کے درمیان کافی بحثیں بھی ہوئیں، بالآخر عدالت عظمٰی نے اس مسئلے کا حل نکالتے ہوئے ایک تاریخ ساز فیصلہ سنایا کہ مرکزی عہدیدار اس حکومت کے تحت کام کریں گے جسے عوام نے انتخابات کے ذریعے منتخب کیا ہے، وہ کسی بھی سطح پر برسر کار ہوں وہ عوام کی منتخبہ حکومت کے تحت ہی کام کرنے کے پابند ہیں، نہ کہ کسی مقررہ شخصیت کے تحت؟ چاہے وہ آئی اے یس افسران ہوں یا گروپ اے کے افسران ہوں یا کوئی اور، وہ عوام کی منتخب کردہ حکومت کے تحت ہی کام کرنے کے پابند ہیں۔ اس فیصلے کو سہ رخی حکم نامہ بھی قرار دیا گیا ہے۔ وجوہات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے کہا کہ کیوں عوامی نمائندے یا اسمبلی عوام کو جواب دہ ہوتی ہے۔ ممبران اسمبلی عوام سے مختلف وعدے کرتے ہیں جنہیں پورا کرنا ان کے لیے لازمی ہے۔ چونکہ ممبران اسمبلی بذات خود وعدوں پر عمل درآمد نہیں کر سکتے اس لیے ملک میں سرکاری عہدیداروں و ملازمین کا نظم ہے، وہ ان وعدوں کو یا حکومتی منصوبوں پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہوتے ہیں، اسی وجہ سے عہدیدار عوامی نمائندوں کے ماتحت کام کرنے کے پابند ہیں، اسمبلی کو وزرا جواب دہ ہیں، اور وزیروں کو یہ عہددار جواب دہ ہوتے ہیں، اسی لیے انہیں ریاستی حکومت کے ماتحت ہونا لازمی ہے۔ یہ سہ رخی احتساب کے اصول پر قائم رہتا ہے، اس مسئلہ پر بہت ہی واضح انداز میں اپنا فیصلہ سنا دیا گیا ہے۔
اس اصول کے تحت لیفٹننٹ گورنر کو کسی قسم کے اختیارات نہیں ہوتے ہیں، وہ بھی صرف ریاستی وزیر اعلیٰ اور وزرا کے مشوروں کے ماتحت ہی کام کرتا ہے اور اسے اسی طرح کام کرنا بھی چاہیے، اسے بھی راست طور پر کام کرنے کے اختیارات نہیں ہیں۔
چونکہ دلی مرکزی زیر انتظام علاقہ ہے اسی لیے اسے ایک خاص عہدہ حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ ریاستی حکومت کو تین شعبوں لینڈ، پولیس اور پبلک آرڈر پر کوئی اختیار نہیں ہوتا ہے، ان کے علاوہ ریاستی حکومت کو دیگر معاملات میں اختیارات ہوتے ہیں۔ دستور میں وفاقیت بنیادی حقوق میں سے ہے اور دلی میں جو حکومت قائم ہے اس کو چونکہ عوام نے منتخب کیا ہے لہٰذا یہ بھی وفاقی ڈھانچے کا ایک حصہ ہے۔ وفاقی روح کے مطابق سارے عہدیداروں کو اسی حکومت کے ماتحت کام کرنا چاہیے، لیکن دلی کو ایک خاص درجہ حاصل ہے، اس کی حیثیت مکمل ریاست کی نہیں ہے اسی وجہ سے پبلک آرڈر، لینڈ اور پولیس اس کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے، یہ اختیارات لیفننٹ گورنر اور مرکزی وزارت داخلہ کو حاصل ہیں۔ یہ ادارے راست طور پر وزارت داخلہ کے تحت کام کرتے ہیں۔ اس واضح فیصلے کہ باوجود مرکزی حکومت نے عدالت عظمٰی کے فیصلے کے خلاف اس فیصلے کو ختم کرتے ہوئے ایک آرڈیننس جاری کر دیا ہے۔ آخر مرکزی حکومت کی اس دیدہ دلیری کو کیا سمجھا جائے؟ کیا اس کو مرکزی حکومت کی ناسمجھی گردانا جائے یا پھر اسے تکبر و انا میں غرق سمجھا جائے؟ آرڈیننس بھی بے تکا قسم کا ہے، بڑی عجیب و غریب باتیں اس درج کی گئی ہیں، اس میں لیفننٹ گورنر کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ عہدیداروں کے تبادلے، تقررات کر سکتا ہے اور ان پر کڑی نگاہ رکھ سکتا ہے۔ یوں سارے اختیارات لیفننٹ گورنر کے ہاتھ میں دے دیے گئے ہیں۔ آرڈیننس کے تحت’’دلی نیشنل کیپیٹل ٹیریٹری سیول سرویس اتھارٹی‘‘ کے نام سے ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں دہلی کے وزیر اعلیٰ، پرنسپال سکریٹری ہوم اور چیف سکریٹری حکومت دہلی کو شامل کیا گیا ہے۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ عوام کے منتخب کردہ ایک وزیر کے ساتھ دو ایسے افراد کو رکھا گیا ہے جو اصولاً اس کے ماتحت ہیں، یعنی ان دونوں افراد کا درجہ عوام کے منتخب نمائندے کے برابر کر دیا گیا ہے۔ عدالت عظمٰی کے فیصلے کے مطابق عہدیداران ایک منتخب عوامی نمائندے کے ماتحت کام کرنے والے ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں کمیٹی میں وزیر اعلیٰ کے ساتھ اس کے ماتحت کام کرنے والے کو رکھ دیا گیا ہے، آخر یہ کیسا انصاف ہے؟ ایک اور مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ یہ کمیٹی جو بھی فیصلے کرے گی وہی حتمی مانے جائیں گے، اس کے فیصلے کثرت آرا کی بنیاد پر کیے جائیں گے، یعنی ایک عوامی نمائندے کے مقابلے میں دو سرکاری عہدیدار! آپ خود غور فرمائیں کہ کیسے نا معقول قسم کے فیصلے صادر ہوں گے، یعنی دو سرکاری عہدیداروں کو ملا کر ایک منتخب وزیر اعلیٰ سے زیادہ طاقتور بنا دیا گیا ہے۔ اگر وہ دو سرکاری عہدیدار کسی مسئلہ پر ایک ہو جائیں، اور فطری طور پر سرکاری عہدیدار ایک ہی سوچ کے حامل ہوتے ہیں، کیونکہ ان کا تقرر مرکزی حکومت کرتی ہے، تو ایسی صورت میں مرکزی حکومت کی مرضی سے ہٹ کر فیصلوں کی توقع نہیں کی جا سکتی، وہ عوامی امنگوں کے مطابق فیصلہ تھوڑی کریں گے؟ اگر غائر نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کمیٹی کو تشکیل دے کر مرکزی حکومت نے ایک طرح سے عوامی حکومت کا خاتمہ ہی کر دیا ہے، اب فیصلے ان کے مقرر کردہ سرکاری عہدیدار کریں گے جو کہ ان کا دائرہ کار ہے ہی نہیں، ان کا کام تو فیصلوں پر عمل درآمد کرنا ہے۔ اس اقدام سے صاف ظاہر ہے کہ مرکزی حکومت بالواسطہ طور پر دلی کے وزیر اعلی کو بے اختیار کر کے لیفننٹ گورنر کے ذریعے حکومت کرنا چاہتی ہے۔ اس میں ایک اور مضحکہ خیز بات یہ شامل کی گئی ہے کہ اگر ان تینوں میں اختلاف آرا پایا جائے اور کوئی فیصلہ نہیں ہو پا رہا ہو تو ایسی صورت میں حتمی فیصلہ لیفننٹ گورنر کا ہوگا۔ اب آپ مرکزی حکومت کے ارادوں کو دیکھ لیجیے کہ وزیر اعلیٰ ہو کر بھی وہ کوئی فیصلہ نہیں کر سکے گا، اس بے چارے کو کوئی اختیار نہیں ہوگا، حتمی فیصلہ لیفننٹ گورنر کا ہوگا یعنی بالواسطہ دلی پر مرکزی حکومت کا اختیار چلے گا۔
اس سے زیادہ خطرناک اور عدالت عظمٰی کو بے وقعت کرنے والی حرکت کوئی نہیں ہو سکتی۔ ویسے بی جے پی اور سنگھیوں کے نزدیک عدالت و دستور کی عزت رہی کب تھی؟ ان کے پاس جمہوریت کی کوئی قدر نہیں، ان کا دستور ناگپور میں ترتیب پایا ہے، وہ اسی دستور پر عمل پیرا ہیں۔ وہ بی جے پی جو 1947 سے 2013تک یہ مطالبہ کرتی رہی کہ دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ دیا جائے، اب اسے مکمل اختیار حاصل ہے تو اس کا رویہ یکسر تبدیل ہو گیا ہے، وہ دلی کو مکمل ریاست کا درجہ دینے کے بجائے الٹا اس کے اختیارات کو ہی ختم کر رہی ہے۔ اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ دلی کی عوام کو اسے شکست دینے پر سزا دے رہی ہے، چور دروازے سے دلی کی عوام پر حکومت کرنا چاہتی ہے، وہ انہیں یہ بتانا چاہتی ہے کہ ہم ہار کر بھی تم پر حکومت کریں گے۔ ایسے موقع پر دلی کا عوامی نمائندہ کیا کرے، گھر بیٹھے یا گورنر کے احکام کی پابندی کرے؟ جبکہ عدالت عظمٰی نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ گورنر وزیر اعلی و وزراء کے مشیر کے طور پر کام کرے گا۔ یہ بات اس نے صرف اسی فیصلے میں نہیں کہی ہے بلکہ اس سے قبل بھی وہ کئی فیصلوں میں یہ بات واضح کر چکی ہے۔ یہ فیصلہ صرف دلی کے لیے ہی نہیں ہے بلکہ دیگر ریاستوں کے گورنروں کے لیے بھی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ سنگھی ذہنیت والے دستور کو اور عدالت کے فیصلوں کو خاطر میں لاتے ہی نہیں، ان کے دلوں میں ابھی بھی ناگپوری دستور بیٹھا ہوا ہے، اسی لیے ان سے ایسی حرکتیں صادر ہو رہی ہیں۔ ملک کے عوام کو انہیں وہی سبق سکھانا چاہیے جو کرناٹک کے عوام نے سکھایا ہے، تبھی ان کی عقل ٹھکانے لگے گی۔
***

 

***

 سوال یہ ہے کہ یہاں مرکزی حکومت کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے لیفٹننٹ گورنر با اختیار ہے یا عوامی نمائندے؟ اس سوال کو لے کر اکثر و بیشتر مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت کے درمیان رسہ کشی جاری رہتی ہے، یہی موضوع مرکزی و ریاستی حکومت کے درمیان کشیدگی کا باعث بن ہوا ہے۔ اس مسئلہ کے مستقل حل کے لیے دلی کی ریاستی حکومت نے عدالت عظمٰی کا رخ کیا تھا، عدالت عظمٰی نے اس مسئلہ کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا، فریقین کے درمیان کافی بحثیں بھی ہوئیں، بالآخر عدالت عظمٰی نے اس مسئلے کا حل نکالتے ہوئے ایک تاریخ ساز فیصلہ سنایا کہ مرکزی عہدیدار اس حکومت کے تحت کام کریں گے جسے عوام نے انتخابات کے ذریعے منتخب کیا ہے، وہ کسی بھی سطح پر برسر کار ہوں وہ عوام کی منتخبہ حکومت کے تحت ہی کام کرنے کے پابند ہیں، نہ کہ کسی مقررہ شخصیت کے تحت؟


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 جون تا 10 جون 2023