موسمیاتی تبدیلی اور زرعی معیشت
بھارت کی پندرہ ریاستوں میں 2050 تک قدرتی آفات بڑھ جانے کا اندیشہ۔آسٹریلیائی ادارے کی رپورٹ
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
موسم کی سختی اورقیمتوں میں کمی۔ کسانوں کو دوہری مار کا سامنا
کسانوں سے خیرخواہی اور زرعی معیشت کے تحفظ کے لیے سائنس دانوں اور پالیسی سازوں کو سنجیدہ غور و فکر کی ضرورت
ساری دنیا میں موسم کا مزاج تیزی سے بگڑ رہا ہے۔ جہاں شدید ٹھنڈ ہوتی تھی وہاں گرمی کا احساس ہونے لگا ہے اور جہاں شدید گرمی اور تپش رہتی تھی وہاں اب ٹھنڈ پڑنے لگی ہے۔ ریگستان میں بے وقت کی بارشیں آدھمکتی ہیں اور کافی تباہی مچاتی ہیں اور جہاں پورے سال بارش ہوتی تھی وہاں لوگ پانی کو ترس رہے ہیں۔ قحط جیسا سماں ہے۔ حالیہ دنوں میں کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافہ اور تکلیف دہ ماحولیاتی مصائب سے دنیا بھر میں قدرتی آفات کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے، اس میں ہمارا ملک بھی شامل ہے۔ آسٹریلیا کے کراس ڈیپنڈیسی انشیٹیو کی رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کی حالت ایسی ہی رہی تو بھارت کی پندرہ ریاستوں میں 2050 تک قدرتی آفات کی مصیبت کافی بڑھ جائے گی۔ اس رپورٹ میں دنیا کے سو سے زائد ریاستوں کو منتخب کیا گیا ہے جن میں چین، امریکہ اور بھارت کی ریاستیں ہیں۔ ہمارے ملک کی جن ریاستوں کو شامل کیا گیا ہے ان میں اتر پردیش، بہار، آسام، راجستھان، مدھیہ پردیش، تمل ناڈو، مہاراشٹر، گجرات، پنجاب، کیرالا، ہریانہ، کرناٹک، آندھرا پردیش اور مغربی بنگال شامل ہیں۔ ان میں بعض صنعتی اعتبار سے کافی اہم ہیں اور بعض زراعت کے لحاظ سے اہمیت کی حامل ہیں۔ ان ریاستوں میں مصائب میں سب سے زیادہ اندیشہ سیلاب اور موسلا دھار بارش کا ہوتا ہے۔ جہاں گزشتہ سالوں میں حد سے زیادہ بارشوں اور بے موسم کی برسات کے حادثات بڑھے ہیں، وہیں درجہ حرارت کا حد سے بڑھنا ایک تکلیف دہ حالت ہے۔ اس سے کئی سڑکیں جل تھل ہو گئیں۔ گزشتہ ڈیڑھ دو دہائیوں میں کئی بار ایسا ہوا کہ اوسط درجہ حرارت تاریخی طور پر بڑی اونچائی پر پہنچ گیا۔ گزشتہ سال کی طرح امسال بھی فروری میں ہمالیائی علاقوں سے لے کر ساحل سمندر والے شہروں مثلاً ممبئی اور چینئی میں درجہ حرارت معمول سے زیادہ رہا جہاں موسلا دھار بارشوں سے شہری زندگی اتھل پتھل ہوگئی۔ گزشتہ سال ایسے ہی حالات کی وجہ سے ملک کے اکثر علاقوں میں گیہوں کی کاشت پر بڑا خراب اثر پڑا۔ امسال بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔ حکومت نے اس کے تدارک کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔یاد رہے کہ آبادی کے اعتبار سے ہماری ریاستیں کئی ممالک سے بڑی ہیں یا اس کے برابر۔ بعض ممالک رقبہ کے اعتبار سے ہماری ریاست سے بہت چھوٹے بھی ہیں۔ مذکورہ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ جن ریاستوں میں مختلف طرح کے انفراسٹرکچرس زیادہ ترقی یافتہ ہیں وہاں خطرات بھی زیادہ ہیں۔ اس کا اثر ملکی معیشت پر پڑنا لازمی ہے۔ شرح نمو بھی متاثر ہوئی ہے۔ اگرچہ موسمیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ ہے اس لیے اس کا حل بھی مشترکہ طور پر عالمی مفاہمت اور مصالحت سے ہونا چاہیے۔ عالمی موسمیاتی کنونشن میں مخلصانہ تحریک کا فقدان ہے۔ اس لیے بھارت اور عالمی برادری کو اس مسئلہ کو بہت زیادہ حساسیت سے لینا ہوگا۔ مانسون کی کمی بیشی سے بھارتی معیشت کی بنیاد، زراعت پر خطرہ منڈلاتا رہتا ہے اور اس درمیان درجہ حرارت میں اضافہ کی وجہ سے کسانوں کو غیر یقینیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی مانسون میں کمی کے باوجود زراعتی پیداوار میں کسی حد تک بہتری بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ درحقیقت ہمارے ملک میں موسم سرما اور موسم بہار کے درمیان خریف کی فصل کے مقابلے میں ربیع کی فصل اچھی رہتی ہے۔ فروری اور مارچ میں درجہ حرارت بڑھ جانے سے کاشت کاروں کے لیے غیر یقینی صورتحال رہتی ہے۔ اس سے ربیع کی فصل کا متاثر ہونا فطری ہے۔ مانسون کی کمی بیشی سے خریف فصل زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ اس وقت بہتر آبپاشی نظام کی ضرورت ہوتی ہے۔ ربیع کی فصل پر اولوں اور بجلی کی کڑک کا اثر زیادہ ہی ہوتا ہے۔ فصل کی پیداوار بے وقت گرمی کی شدت اور موسم سرما کی کمی کی وجہ سے متاثر ہو جاتی ہے۔ مارچ 2022 میں درجہ حرارت میں شدت کی وجہ سے گیہوں کی فصل برباد ہوگئی تھی۔ حالیہ دنوں میں گیہوں کی کاشت والے علاقوں میں درجہ حرارت معمول سے تین تا پانچ ڈگری زیادہ درج کا گیا ہے۔ آئندہ دو ہفتے کاشت کے لیے اہم ہیں جبکہ اوپری درجہ حرارت کم رہتا ہے اس لیے مارچ 2022کی طرح خطرہ کم رہنے کا امکان ہے۔ اب تو کاشت کاری درجہ حرارت کے رحم و کرم پر رہنے لگی ہے۔ ہمارے ملک میں محض موسم کی بے یقینی کسانوں کے لیے خطرہ نہیں رہتی بلکہ گیہوں کی قیمتوں میں بھی غیر یقینی کیفیت رہتی ہے۔ ادھر پیاز اور آلو کی قیمتں بھی زمیں بوس ہوگئیں۔ سرسوں بھی ’مینیمم سپورٹ پرائس‘ (ایم ایس پی) سے کم پر فروخت ہورہا ہے۔ اس طرح کسانوں پر دوہری مار موسمیاتی تبدیلی اور کم قیمتوں کی پڑتی ہے۔ اس لیے کسانوں کے ساتھ خیر خواہی کرتے ہوئے زرعی سائنس دانوں اور پالیسی سازوں کو سنجیدگی سے غور و فکر کرنا ہوگا کہ بہتر پیداوار کے لیے کم سے کم پانی اور مناسب فرٹیلازر سے زراعت کے نظم کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے کیونکہ آج کی زراعت کل کی زراعت سے بالکل مختلف ہے۔ اب روایتی طرز زراعت کو خیر باد کہہ کر زرعی ٹکنالوجی کے ذریعہ موسمیاتی تبدیلیوں کے مصائب کا بآسانی مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ ابھی تک گیہوں کی کاشت کا مناسب وقت پندرہ نومبر کے قریب سمجھا جاتا ہے مگر موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے اس وقت زراعت کا آغاز کرنے سے نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اب زرعی سائنس دانوں نے الگ قسم کے گیہوں کے بیجوں کو روبہ کار لایا ہے جس کا نام نام 2967 ایچ ڈی ہے۔ اس دانے کے استعمال کا زراعت پر کوئی مضر اثر ہوتا اور نہ ہی دیگر کوئی مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ اب تو فصل کو ترقی دینے کا نیا منصوبہ بن رہا ہے۔ مثلاً ایک ایسی قسم کی مونگ جو نہ صرف گرمی کو برداشت کرتی ہے بلکہ گرمی میں اضافہ سے اس کی پیداوار بھی بڑھتی ہے ۔
شمالی بہار میں پہلے دو فصل ربیع کی ہوتی رہی ہے۔یہاں زیادہ تر کسان آلو کے ساتھ مکئی کی کاشت کرتے ہیں۔ ایسی کاشت کو کل ہند سطح پر آگے بڑھانے کا منصوبہ ہے ۔ اس طرح خریف میں دھان کی فصل کے لیے دو کیچڑ کرکے کاشت کاری کرنے کی روایت رہی ہے۔ اب زرعی سائنس دانوں نے براہ راست کاشت کی ٹکنالوجی دریافت کرلی ہے حالانکہ سیلاب زدہ علاقوں میں پہلے بھی اسی طرح دھان کی بوائی ہوتی تھی جس سے فی ہیکٹر پیداوار کم ہوتی تھی مگر زرعی تکنیک کے ذریعہ اس پر قابو پا لیا گیا ہے۔سرسوں اور تلہن کی زراعت کے لیے کئی کاشت کاروں کو کھیتی کی جتائی کرنی ہوتی ہے۔ اب جتائی کے بغیر بھی ترقی یافتہ تکنیک کے ذریعہ پیداوار میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ دنیا میں بدلتے موسم کے اثرات سے کھیتی کو محفوظ رکھنے کے لیے بھارت کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک اپنے طریقے سے کوششیں کررہے ہیں۔ اگر ملک کے کھیتوں اور کسانوں کو محفوظ رکھنا ہے تو ہمیں صرف روایتی طریقہ زراعت پر ہی اکتفا نہ کرتے ہوئے اس میں نئی ٹکنالوجی کو بھی جوڑنا ہو گا۔
***
***
دنیا میں بدلتے موسم کے اثرات سے کھیتی کو محفوظ رکھنے کے لیے بھارت کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک اپنے طریقے سے کوششیں کررہے ہیں۔ اگر ملک کے کھیتوں اور کسانوں کو محفوظ رکھنا ہے تو ہمیں صرف روایتی طریقہ زراعت پر ہی اکتفا نہ کرتے ہوئے اس میں نئی ٹکنالوجی کو بھی جوڑنا ہو گا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مارچ تا 18 مارچ 2023