ماہ رمضان اور اللہ کے رسول ﷺکا طرزعمل
محمد کمال اختر
ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی،علی گڑھ
رمضان المبارک ایساعظیم الشان اور بابرکت مہینہ ہے،جس میں خالق کائنات کی طرف سے بے پناہ رحمتوں،نعمتوں اوربرکتوں کا نزول ہوتا ہے، ظاہری کائنات میں جس طرح موسم بہار ہوتا ہے ،جس میں تمام چیزیں حسین اور دیدہ زیب ہوجاتی ہیں ٹھیک اسی طرح روحانی کائنات کا موسمِ بہار ماہ رمضان ہے ، جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کونازل فرمایاجس میں کائنات کو تروتازگی بخشنے کے تمام وسائل موجود ہیں،یہ قران رشدوہدایت بھی فراہم کرتا ہے اورحق و باطل ،خیر وشر اور نفع وضرر کے درمیان تمیز کرنے کا پیمانہ بھی۔رمضان المبارک کی عظمت اوراس کے فیوض و برکات کے اثرات ملاءاعلی میں بھی ہر طرف چھائے رہتے ہیں،یہ ایساموسم بہار ہے جس کے بارے میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
’’جب ماہ رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو پابہ زنجیر کر دیا جاتا ہے۔‘‘(بخاری)
رمضان المبارک ایسا سدا بہار مہینہ ہے جس کی ایک ایک ساعت برکتوں اور سعادتوں سے معمورہے جس میں گناہوں کی مغفرت اور نیکیوں کی قدروقیمت میں بے پناہ اضافہ کر دیا جاتا ہے،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِیْمَانًا وَّإِحْتِسَابًا غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّم مِنْ ذَنْبِہِ.(بخاری، الصحیح، کتاب الصلاۃ التراویح، باب فضل لیلۃ القدر، رقم:۱۹۱۰ )’’جو شخص بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘
ایک دوسری روایت میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
’’جس نے رمضان میں بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘(بخاری)
رمضان کی عظمت واہمیت اور اس میں موجود بے شمار برکات کا تقاضا ہے کہ پورے شوق ورغبت کے ساتھ پہلے سے ہی اس کی تیاری کی جائے ،اس کا استقبال کیا جائے اوراس کے لیے باضابطہ منصوبہ بندی کی جائے تا کہ اس کی کوئی ساعت غفلت اور بے توجہی کا شکار نہ ہوپائے،استقبال رمضان کے لیے ضروری ہے کہ روزہ، قران مجید کی تلاوت و تدبر،اجتماعی مطالعہ قران، تراویح ،نفل نمازیں اور اذکار،شبِ قدر میں قیام، اعتکاف، اِنفاق ،لوگوں کو افطار کرانے کا اہتمام، صدقہ فطر کی ادائیگی اسی طرح دیگرمصروفیات کو کم سے کم کرنے اورغیر ضروری سفرکو ملتوی کرنے کے لیے پہلے سے پلاننگ کی جائے ۔
آسمان پر رمضان کا استقبال
رمضان کے استقبال کی تیاریاں عالم بالا میں بھی خوب زوروشور سے کی جاتی ہیں اور استقبال رمضان کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے،رمضان کے استقبال میں سرکش شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے،جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں،اللہ کے خصوصی انعام واکرام اور رحمت وبرکات کے دہانے کھول دئے جاتے ہیں،خیر وبرکت کے طلب گاروں کے لیے نیکیوں کے حصول کو آسان کر دیا جاتاہے۔ایک حدیث میںارشاد ہے:
’’جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیطان اور سرکش جن جکڑ دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھلا نہیں رکھا جاتا۔ اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ بند نہیں کیا جاتا، پکارنے والا پکارتا ہے۔ اے خیر کے طلب گار! آگے بڑھ، اور شر کے طلب گار! رک جا اور اللہ کے بہت سے بندے آگ سے آزاد کیے جاتے ہیں اور ایسا (رمضان کی) ہر رات کو ہوتا ہے۔‘‘(ترمذی)
ایک دوسری روایت کے مطابق رمضان کا چاند دیکھنے پر آنحضور ﷺ نے خیر وبرکت اورسلامتی کی دعا مانگی اور اس کے بعد لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا:
’’اے لوگو! یہ رمضان کا مہینہ ہے۔ اس میں شیاطین جکڑ دئے گئے ہیں اورجہنم کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں اور اس میں جنتوں کے دروازے کھول دیے گئے ہیں۔ اور ہر رات کو منادی اعلان کرے گا کہ کیا کوئی مانگنے والا ہے تاکہ اسے عطا کیا جائے، کیا کوئی بخشش کا طلبگار ہے تاکہ میں اسے بخش دوں۔‘‘
اللہ کے رسول ﷺ اس ماہ مبارک کا والہانہ استقبال فرماتے تھے،استقبال رمضان کے اہتمام کے لیے اللہ کے رسول کے طرزعمل کو جاننا ضروری ہے تا کہ رمضان المبارک کے فیوض وبرکات سے استفادہ کیا جا سکے اور ان خرافات سے بچا جائے جن کو استقبال رمضان کے نام پر دین کا حصہ بنا لیا گیا ہے۔
رمضان کا انتظار
رمضان جس قدر خیروبرکات اور نعمت ورحمت والا مہینہ ہے اس کا تقاضا ہے کہ اس کا انتظار کیا جائے شوق مغفرت اور اپنے دامن کو رحمتوں سے بھرنے کی تڑپ میں اس ماہ مبارک کی آمد پر پلکیں بچھائی جائیں، اللہ کے رسول ﷺ رمضان کا انتظار رجب اور شعبان سے کرتے،رمضان کے پانے کی تڑپ بڑ ھ جاتی تھی او رآپ کی محفلوں اور مجالس میں رمضان سے پیشتر ہی رمضان کا تذکرہ شروع ہوجاتاتھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رجب کے مہینہ کا چاند دیکھتے تو یہ دعا فرمایا کرتے تھے:
’’اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکت عطا فرما،اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا دے۔آپ ﷺ یہ دعا بھی فرماتے تھے
’’ اے اللہ! مجھے رمضان کے لیے اور رمضان کو میرے لیے صحیح سالم رکھیے اور رمضان کو میرے لیے سلامتی کے ساتھ قبولیت کا ذریعہ بنادیجئے۔‘‘
اس دعا میں آپ ﷺ کی طلب اور رمضان تک پہنچنے کی شدید تڑپ کا اندازہ ہوتا ہے،یہ اس بات کی دعا تھی کہ خیریت وعافیت اور صحت کے ساتھ ہمیں رمضان تک پہنچا دے تاکہ رمضان کی برکات حاصل ہوسکیں۔ ملا علی قاری رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ: ’’ان مہینوں میں ہماری طاعت و عبادت میں برکت عطا فرما،اور ہماری عمر لمبی کر کے رمضان تک پہنچا؛ تا کہ رمضان کے اعمال روزہ اور تراویح وغیرہ کی سعادت حاصل کرسکیں‘‘۔
شعبان سے ہی روزہ کا ریہرسل
جب شعبان کا مہینہ شروع ہوجائے تو استقبال رمضان کے لیے پیشگی تیاری کرنی چاہیے،بطور خاص روزہ کی عادت ڈالنی چاہیے تاکہ رمضان کا روزہ گراں محسوس نہ ہو،اللہ کے رسول ﷺ شعبا ن میں روزہ رکھنے کا اہتمام فرماتے تھے، شعبان کے آتے ہی ذوق وشوق مزید بڑھ جاتا اور آپ کے روزوشب رمضان کی طرح ہوجاتے۔ رمضان کی برکات سے فیضیاب ہونے کے لیے یہ روزے رکھنا ایک طرح کی عملی مشق اور ریہرسل تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’ رسول اللہ ﷺ شعبان کے مہینہ میں اس قدر نفلی روزے رکھتے کہ ہمیں محسوس ہوتا گویا آپ مسلسل روزے رکھتے چلے جائیں گے۔ اور جب روزہ رکھنا چھوڑ دیتے تو ہمیں لگتا کہ آپ مزید روزے نہ رکھیں گے۔ نیز آپ بیان فرماتی ہیں کہ میں نے رمضان کے علاوہ ﷺ کو کبھی پورے مہینے کے نفلی روزے رکھتے نہیں دیکھا اور جتنے روزے آپ شعبان میں رکھتے میں نے کسی مہینہ میں اس سے زیادہ روزے رکھتے آپ کو نہیں دیکھا۔‘‘
استقبال رمضان کا یہ ایک طریقہ تھا کہ شعبان سے ہی نفلی روزوں کااہتمام فرماتے اوررمضان کی تیاری کے پیش نظراس کثرت سے روزے رکھتے کہ دیکھنے والے کو یہ محسوس ہوتا کہ آپ نے پورے مہینہ کا روزہ رکھا ہے۔ صحیح مسلم کی روایت کے مطابق آپؐ صحابہ کو بھی شعبان کے مہینہ میں روزہ رکھنے کی ترغیب دلاتے۔حضرت عمران بن حصینؓ کہتے ہیں:
’’رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’تم نے شعبان کے اول میں کچھ روزے رکھے؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم افطار کے دن تمام کر لو تو دو دن روزے رکھو۔‘‘(مسلم)
رمضان کے روزے کے لیے تازہ دم ہونا
استقبالِ رمضان کا ایک انداز یہ بھی تھا کہ آپ ﷺ شعبان اور رمضان کے درمیان فصل کرتے ،یعنی شعبان کے اکثر ایام میں روزہ رکھتے لیکن شعبان کے آخر میں روزہ نہیں رکھتے تھے بلکہ تازہ دم اور ہشاش بشاش رہنے کے لیے کھاتے پیتے اور صحابہ کو بھی شعبان کے آخری ایام میں روزہ رکھنے سے منع فرماتے تاکہ شعبان کے مہینہ کو رمضان میں داخل ہونے کے لیے روحانی اور اخلاقی تربیت کرتے ہوئے گزارا جائے اور رمضان کی آمد سے قبل روزے رکھنے چھوڑ دیے جائیں تاکہ فرحت وبشاشت،صحت مندی اور تازگی کے ساتھ رمضان کا آغاز ہو اوررمضان کے روزوں کی لذ توں کا الگ احساس ہو۔چنانچہ آپ فرمایا کرتے تھے:
’’ رمضان سے ایک دو دن قبل روزہ نہ رکھا جائے۔‘‘( بخاری)
بعض روایات کے مطابق شعبان کے نصف آخر میں روزہ نہ رکھنے کی تلقین فرماتے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا:
’’جب آدھا شعبان گزر جائے تو پھر روزے نہ رکھو۔‘‘
استقبال رمضان کے لیے اللہ کے رسول کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ شعبان کے ایام گن گن کر گزارتے اور لوگوں کو بھی شعبان کے ایام بار بار شمار کرنے کی تاکید فرماتے،تاکہ رمضان کی اہمیت بھی ملحوظ رہے ، رمضان کی آمد کے پیش نظر شعبان کی تاریخوں کا بھی حساب رکھا جائےاور رمضان کے ایام کسی بھی طرح کی کوتاہی یا غفلت کے نذر نہ ہونے پائے۔اللہ کے ر سول ﷺفرماتے تھے:
’’ شعبان کے ایام رمضان کے انتظار میں گن گن کر گزارو۔‘‘(ترمذی)
رمضان کا بار بار تذکرہ اوریاد دہانی
استقبال رمضان کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ رمضان کی آمد جوں جوں قریب ہوتی جاتی اسی قدررمضان کے تذکرہ میں اضافہ ہوتا جاتا،بار بار رمضان کی یاد دہانی کرائی جاتی،کبھی رمضان کی ترغیب دلائی جاتی،کبھی رمضان اوراس کے روزے کی اہمیت اور اس کے فوائد سے واقف کرایا جاتا،اس طرح پورے طور پر رمضان کا ماحول برپا کردیا جاتا تا کہ رمضان کے تعلق سے کوئی شخص کسی بھی طرح کی غفلت کا شکار ہو کر اس کے بے شمار فوائدوبرکات سے محروم نہ رہ سکے۔ چنانچہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے شعبان کی آخری تاریخ کو وعظ فرمایا اور رمضان کی آمد کی خبر دیتے ہوئے ایک طویل خطبہ دیا جس میں رمضان کی اہمیت،شب قدر کی تلاش،غمخواری اور مواسات کی ترغیب،کلمہ طیبہ اور استغفار کی تاکیداور جنت کی طلب اور جہنم کی آگ سے پناہ مانگنے کی تلقین فرمائی۔حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا:‘‘سنو! سنو! تم پر ایک مہینہ سایہ فگن ہونے والاہے جو بہت بڑا اوربہت مبارک مہینہ ہے۔ اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے رکھنافرض فرمایا اور اس کی رات کے قیام کو ثواب ٹھہرایاہے۔ جو شخص اس مہینہ میں کوئی نفلی نیکی بجا لائے گا تو وہ ایسے ہی ہے جیسا کہ عام دنوں میں فرض کا ثواب ہواور جو شخص اس مہینہ میں کسی فرض کو ادا کرے گا وہ ایسا ہے جیسے غیر رمضان میں ستر فرائض ادا کرے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے، یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کرنے کا ہے۔ اس مہینہ میں مومن کارزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے اس کے لیے گناہوں کے معاف ہو نے اور آگ سے نجات کا سبب ہو گا اور اسے روزہ دار کے ثواب کے برابر ثواب ہو گا مگر روزہ دار کے ثواب سے کچھ بھی کمی نہیں ہوگی۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر شخص تو اتنی طاقت نہیں رکھتا کہ روزہ دار کو افطار کرائے۔ تو آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ (یہ ثواب پیٹ بھر کرکھلانے پر موقوف نہیں) بلکہ اگر کوئی شخص ایک کھجور سے روزہ افطار کرا دے یا ایک گھونٹ پانی یا ایک گھونٹ دودھ کاپلادے تو اللہ تعالیٰ اس پربھی یہ ثواب مرحمت فرما دیگا۔یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اول حصہ رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ جہنم کی آگ سے آزادی کاہے۔ جو شخص اس مہینہ میں اپنے غلام اور نوکر کے بوجھ کو ہلکا کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادے گا اور آگ سے آزادی عطا فرمائے گا۔ اس مہینہ میں چار چیزوں کی کثرت کیا کرو جن میں سے دو چیزیں اللہ کی رضا کے لیے ہیں اور دوچیزیں ایسی ہیں جن سے تمہیں چارہ کار نہیں۔ پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور جہنم کی آگ سے پناہ مانگو۔جو شخص کسی روزہ دار کو افطار کراتے ہوئے پانی پلائے گا تو اللہ تعالیٰ میرے حوض سے اس کوایسا پانی پلائے گا جس کے بعد جنت میں داخل ہو نے تک اسے پیاس نہیں لگے گی۔‘‘
رمضان کا چاند دیکھنے کا اہتمام اور حصول برکات کی دعا
اللہ کے رسول کے استقبال رمضان کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ آپ چاند دیکھنے کا اہتمام فرماتے اور رمضان کا چاند دیکھ لینے کے بعد رمضان کی برکتوں کی حصول اور اس کے تقاضے کی تکمیل کی توفیق کی دعائوں کا اہتمام فرماتے۔حضرت ابو جعفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر جب آپ نے رمضان کا چاند دیکھا تو آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور پھر یہ جامع دعا کی:
’’ اے اللہ اسے (رمضان کے چاند کو) ہم پر امن، ایمان، سلامتی اسلام، عظیم عافیت کے ساتھ طلوع فرما۔ اور بیماریوں کودور کرنے، روزوں، نماز، تلاوت قرآن کے لیے مددگار کے طور پر (طلوع ہو) اے اللہ! ہمیں رمضان کے لیے سلامت رکھیو اور رمضان کو ہمارے لیے سلامتی کا موجب بنا۔ اور اسے ہم سے اس حالت میں واپس لے کہ رمضان جائے اور تو ہمیں بخش چکا ہو، ہم پر رحم فرما چکا ہو اور ہم سے درگزر فرماچکا ہو۔‘‘
[email protected]
***
’’جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیطان اور سرکش جن جکڑ دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھلا نہیں رکھا جاتا۔ اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ بند نہیں کیا جاتا، پکارنے والا پکارتا ہے۔ اے خیر کے طلب گار! آگے بڑھ، اور شر کے طلب گار! رک جا اور اللہ کے بہت سے بندے آگ سے آزاد کیے جاتے ہیں اور ایسا (رمضان کی) ہر رات کو ہوتا ہے۔‘‘(ترمذی)
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مارچ تا 18 مارچ 2023