مدھیہ پردیش حکومت نے گورنر کی منظوری کے بعد ’’لَو جہاد‘‘ مخالف قانون نافذ کیا
مدھیہ پردیش، مارچ 31: پی ٹی آئی کی خبر کے مطابق مدھیہ پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے مذہبی تبدیلی مخالف بل کو نافذ کردیا ہے۔ گورنر آنندی بین پٹیل کی رضامندی بعد اب یہ بل ایک قانون بن چکا ہے۔
ایڈیشنل چیف سکریٹری (ہوم) راجیش راجورا نے کہا ’’مدھیہ پردیش آزادیِ مذہب قانون 2021 کو ایک دن قبل (26 مارچ کو) گورنر کی منظوری کے بعد 27 مارچ کو گزٹ نوٹیفکیشن میں جاری اور شائع کیا گیا ہے۔‘‘
مدھیہ پردیش قانون ساز اسمبلی نے اسے 8 مارچ کو اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود منظور کیا تھا۔
اس قانون کے تحت وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی بین المذاہب شادیوں کے خلاف مہم اور آگے بڑھی ہے۔ پارٹی اس طرح کی شادیوں کو ’’لو جہاد‘‘ (Love Jihad) کے طور پر بیان کرتی ہے، جو ہندوتوا تنظیموں کی ایک من گھڑت اصطلاح ہے جس کے تحت وہ مسلمان مردوں پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ ہندو خواتین کا مذہب شادی کے نام پر تبدیل کرواتے ہیں۔
اس سے قبل اتر پردیش اسمبلی نے بھی 24 فروری کو اسی طرح کا ایک قانون منظور کیا تھا اور اس کے بعد سے ریاست میں بہت سے مسلمان افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ وہیں ہریانہ حکومت نے بھی ایسے ہی ایک قانون کی تشکیل کے لیے تین رکنی مسودہ تیار کرنے والی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ گجرات کے وزیر اعلی وجے روپانی نے بھی اعلان کیا ہے کہ ان کی حکومت بھی زبردستی مذہبی تبدیلی کی روک تھام کے لیے ایک ’’سخت قانون‘‘ متعارف کروائے گی۔
اسمبلی میں اس بل کی منظوری کے بعد مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا نے کہا تھا کہ بی جے پی حکومت کسی بھی ایسی شادی کی مخالفت کرے گی جس کا نتیجہ ’’جہاد‘‘ ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’’کوئی بھی محبت جو ہمارے جذبات کو مجروح کرتی ہے، ہم اس کی مخالفت کریں گے۔ کوئی بھی محبت جو ہماری بیٹیوں اور بہنوں کو تکلیف پہنچائے گی، ہم اس کی مخالفت کریں گے۔‘‘
معلوم ہو کہ اس قانون کے تحت مجرم پائے جانے والے شخص کو 5 سے 10 سال تک کی سزا اور ایک لاکھ روپے تک کا جرمانہ لگایا جاسکتا ہے۔