لیبیا میں دنیا کے آٹھویں عجوبہ کی تباہی

صحرائی ملک میں انسانی ہاتھوں کا تعمیر کردہ دنیا کاسب سے بڑا دریا تقریباً سوکھ گیا

زعیم الدین احمد حیدرآباد

کہا جاتا ہے کہ کرہ ارض کا تین چوتھائی حصہ پانی ہے اور ایک چوتھائی خشکی، اور یہ پانی بھی مختلف شکلوں میں پایا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ پانی سمندروں کی شکل میں ہے اور کچھ برفیلے پہاڑوں کی شکل میں ہے جنہیں گلیشیر کہا جاتا ہے۔ کچھ زیر زمین بھی ہے، اور جو سب سے قلیل حصہ پانی کا وہ ہے جسے تازہ پانی یا فریش واٹر کہا جاتا ہے، وہ دریاؤں یا جھیلوں کی شکل میں ہے۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ پانی کے ان تمام ذخائر میں بہت ہی قلیل مقدار میں تازہ یا پینے کے قابل پانی پایا جاتا ہے، کیوں کہ سمندر کا پانی کھارا ہونے کی وجہ سے پینے کے قابل نہیں ہوتا۔ الغرض کرہ ارض پر پائے جانے والے پانی کا 72 فیصد حصہ پینے کے قابل نہیں ہے۔ موجود پانی کے ذخائر کا محض 3 فیصد حصہ ہی تازہ پانی یا پینے کے قابل ہے۔ اس 3 فیصد حصہ میں بھی 2.5 فیصد حصہ برفیلی پہاڑوں گلیشیر کی شکل میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ زمین پر محض 0.5 فیصد پانی ہی ہمارے پینے یا استعمال کے قابل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ذخائر کو زمین کے مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا ہے، کہیں قدرتی گیس کے ذخائر ہیں تو کہیں معدنی ذخائر ہیں، کوئی علاقہ تیل کے ذخائر سے مالامال ہے تو کہیں سونے کی کانیں ہیں، اسی طرح پانی کے ذخائر جو صرف 0.5 فیصد ہیں وہ بھی ہر ملک میں نہیں پائے جاتے، کوئی ملک آبی ذخائر سے مالا مال ہے تو کسی ملک میں پانی کا قحط پایا جاتا ہے۔ ایسے ممالک جہاں پانی کی قلت ہے یا جہاں کوئی دریا یا ندی نہیں ہے وہاں جدید ٹکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے سمندری پانی میں سے نمک نکال کر اسے پینے کے قابل بنالیا گیا ہے۔ مصنوعی بارش کے ذریعے بھی پانی کی قلت دور کی جا رہی ہے۔ جنوبی افریقہ کے حالات تو اس قدر خراب ہو گئے تھے کہ پانی کی شدید قلت کو دور کرنے کے لیے یہ منصوبہ بنایا گیا تھا کہ انٹارکٹیکا سے کیپ ٹاون تک برف کے تودوں کو کھینچ کر یعنی ٹو کرکے لایا جائے تاکہ اسے صاف کرکے پینے کے قابل بنایا جائے۔
آج ہم ایک ایسے ملک کے بارے میں بات کریں گے جو صحرائی علاقوں سے بھرا ہوا ہے جہاں پانی کی شدید قلت پائی جاتی تھی لیکن اس ملک کے ایک حکمراں نے پانی کی قلت کو دور کرنے کے لیے ایک حیرت انگیز منصوبہ بنایا اور اس منصوبے پر عمل درآمد کرتے ہوئے ایک ایسا کارنامہ انجام دیا کہ جسے دیکھ کر دنیا دنگ رہ گئی۔ اس کارنامے کو دنیا نے آٹھواں عجوبہ قرار دیا ہے۔ آج ہمارا موضوع لیبیا میں انسانی ہاتھوں سے تعمیر کیا گیا دریا ہے۔ لیبیا جو صحراوں سے بھرا ہوا ملک ہے جسے ایک خشک علاقہ بھی کہا جاتا ہے، جہاں کئی کئی سال بارش کی ایک بوند بھی نہیں برستی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں دس دس سالوں تک بارش نہیں ہوتی ہے۔ اگر اسے سیٹلائٹ سے دیکھا جاتا تو صرف ریت ہی ریت نظر آتی تھی، جہاں گھاس کا ایک تنکا تک نہیں اگتا تھا۔ لیبیا کا 95 فیصد حصہ ریگستانی علاقوں پر مشتمل ہے۔ پھر تو آپ نے یہاں ہونے والی گرمی کی شدت اندازہ لگا لیا ہوگا۔ پانی اس علاقے میں لمحہ بھر میں بھاپ بن کر اُڑ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے اس ملک میں ایک بھی قدرتی دریا نہیں پائی جاتی۔ یہ تھی 1950 میں لیبیا کی صورت حال۔ ایسی صورت حال میں اس وقت کے حکمراں معمر القذافی نے اعلان کیا کہ وہ اس ملک کی قسمت کو بدل دیں گے اور آئندہ دس سالوں میں یہاں کی خشک سالی کو خوشحالی میں تبدیل کر دیں گے۔ یہاں کی پانی کی قلت کو ختم کر کے آبی فراوانی کو یقینی بنائیں گے۔ ملک کے سارے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے خشک سالی کے مسئلہ پر قابو پایا جائے گا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس صحرا میں ایک دریا جاری کریں گے اور انہوں نے اس حیرت انگیز کارنامے کو پائے تکمیل تک پہنچا بھی دیا۔ ان کی تعمیر کردہ اس دریا کو انسانوں کی بنائی ہوئی سب سے بڑی دریا قرار دیا گیا۔
1950 کی دہائی میں جب خام تیل کی کھوج میں کھدائیاں شروع کی ہوئیں تو یہاں ایک حیرت انگیز دریافت سامنے آئی۔ وہ حیرت انگیز دریافت زیر زمین پانی کی شکل میں تھی، ایک ایسا ملک جس کا پچانوے فیصد حصہ صحرائی علاقوں پر مشتمل ہے وہاں زیر زمین پانی کا پایا جانا کسی خزانہ سے کم نہیں تھا۔ یہ پانی کے ذخیرے کی مقدار بھی کوئی معمولی مقدار نہیں تھی یہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ مکعب کلو میٹر تازہ پانی کا ذخیرہ تھا جس کی دریافت ہوئی تھی۔ خدا کی اس نعمت کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو اس سے محروم ہو۔ اس پانی کو ’فوسل واٹر‘ یا آب حجریہ کہا جاتا ہے، جس کو ’’نوبین سینڈ اسٹون اکوافر سسٹم‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ زیر زمین پانی کی اتنی مقدار ہے کہ اگر ساری دنیا بھی اس پانی کا استعمال کرے تب بھی یہ پانی چالیس سال تک ختم نہیں ہوگا۔ سونے پہ سہاگہ کے مصداق یہ پانی کا ذخیرہ صحرائے نوبیا کے جنوب میں پایا جاتا ہے جہاں پر آج لیبیا واقع ہے، اس موقع کو لیبیا کے حکمراں معمر القذافی کسی صورت میں کھونا نہیں چاہتے تھے۔
اسی وقت انہوں نے طے کرلیا کہ اس پانی کو زمین سے نکال کر لیبیا کے مختلف شہروں تک پہنچائیں گے۔ اس بابت انہوں نے پانی کی حصولیابی کا ایک عظیم منصوبہ ترتیب دیا اور اس پر عمل درآمد بھی شروع کر دیا۔ یہ منصوبہ جتنا عظیم تھا اتنا ہی مشکلات سے پر تھا، اس پر عمل درآمد کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے معمر القذافی کو کئی ایک چیلنجوں کا سامنا تھا۔ زیر زمین پانی کا یہ ذخیرہ لیبیا کے جنوبی حصے میں دریافت ہوا تھا اور لیبیا کے سارے شہر شمالی حصے یعنی بحیرہ روم کے ساحل پر واقع ہیں، سب سے بڑا چیلنج تو یہی تھا کہ جنوبی حصے میں موجود پانی کو ملک کے شمالی حصے میں واقع شہروں تک کیسے پہنچایا جائے؟ جب فاصلے کی پیمائش کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ دوری تقریباً دو ہزار آٹھ سو بیس کلومیٹر ہے۔ شمال میں واقع شہروں تک پانی پہنچانے کے لیے انہیں دو ہزار آٹھ سو بیس کلومیٹر لمبی نہر کھودنا تھا اور یہ کوئی معمولی دوری نہیں تھی کہ بڑی آسانی سے نہر کھودی جائے۔ معمر القذافی نے بڑی ہمت سے اس منصوبے کو منظوری دے دی، لیکن نہر کی کھدائی سے پہلے ایک اور مسئلہ درپیش ہوا، وہ یہ کہ صحرا میں جہاں گرمی کی شدت زیادہ ہوتی ہے اور پانی لمحوں میں بھاپ بن کر اُڑ جاتا ہے، اگر کھلی نہر سے پانی گزارا جاتا تو آدھے سے زیادہ پانی تو اپنے مقررہ مقام تک پہنچنے سے پہلے ہی بھاپ بن کر اڑ جاتا، اس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے رائے دی گئی کہ نہر کو زیر زمین گزارا جائے، لیکن زیر زمین نہر گزارنے کے لیے بڑے بڑے پائپ لائنوں کی ضرورت تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ زیر زمین نہر کو گزارتے ہوئے شہروں تک پانی پہنچانے کے لیے انہیں دو ہزار آٹھ سو بیس کلومیٹر لمبی پائپ لائن بچھانے کی ضرورت تھی، پھر بھی اس منصوبے پر عمل درآمد شروع کیا گیا۔ لیبیا میں ہی بڑی بڑی صنعتوں نے پائپوں کی تیاری شروع کردی، جنوب سے شمال تک پائپ لائن بچھانے کے لیے انہیں جملہ پانچ لاکھ پائپوں کی ضرورت تھی۔ ایک ایک پائپ تیرہ فٹ موٹا اور اسّی ٹن وزن تھا، ان پائپوں کی تیاری میں لوہے اور کنکریٹ کا استعمال کیا گیا تھا۔ ایک پائپ میں تقریباً آٹھ کلومیٹر لوہے کا استعمال کیا گیا، پانچ لاکھ پائپوں میں جتنا اسٹیل استعمال ہوا ہے اگر ان کو سیدھا بچھا دیا جائے تو کرہ ارض کے گرد سو مرتبہ چکر لگایا جا سکتا ہے۔
1980 کی دہائی میں بڑے پیمانے پر ان پائپوں کی تیاری کا آغاز ہوا اور ان پائپوں کو تعمیراتی جگہوں پر لے جانے کے لیے بڑی بڑی ٹرکوں کا استعمال کیا گیا، لیکن بدقسمتی سے اس وقت تک لیبیا میں سڑکوں کی تعمیر شروع نہیں ہوئی تھی۔ طے ہوا کہ تعمیراتی جگہوں تک پائپوں کو پہنچانے کے لیے سڑکوں کا جال بجھایا جائے، اور ابتدائی مرحلے میں تین ہزار دو سو کلومیٹر لمبی سڑک کی تعمیر کا آغاز کیا گیا۔ جنوبی کوریا کی ایک کمپنی کو سڑکوں کی تعمیر کا کام دیا گیا، پھر اس کے بعد کھدائی کا کام شروع کیا گیا۔ بیس فٹ گہرائی تک کھود کر پائپوں کو اس میں بچھایا گیا، اس پہلے مرحلے کی کھدائی میں تقریباً تین ارب مکعب فیٹ ریت اور پتھر کی کھدائی کی گئی۔ اب تک جتنا بھی کام ہوا تھا وہ اس بڑے منصوبے کا صرف پہلے مرحلے کا کام ہی تھا جس میں تقریباً پانچ بلین امریکی ڈالر خرچ ہوئے۔
اس منصوبے کے دوسرے مرحلے کا آغاز 1989 میں ہوا۔ اس مرحلے میں پائپ لائن کو لیبیا کے دارالحکومت تریپولی تک بچھانے کا کام تھا۔ اس کام کے لیے جبل حسونہ کے مقام پر دو گہرے کنویں کھودے گئے جن کی گہرائی تقریباً دو سو میٹر تھی اور اسی گہرائی سے پانی کو کھینچا گیا۔ جبل حسونہ سے تریپولی تقریباً سات سو کلومیٹر دوری پر واقع ہے چنانچہ سات سو کلومیٹر لمبی پائپ لائن بچھائی گئی اور ان پائپوں کے ذریعے تریپولی تک پانی پہنچایا گیا، جو کہ اپنے آپ میں ایک حیرت انگیز کارنامہ ہے۔
تیسرے مرحلے میں کفرہ کے مقام پر کنواں کو کھودا گیا اور وہاں سے بن غازی تک پائپ لائن بچھائی گئی۔ بن غازی لیبیا کا دوسرا بڑا شہر ہے جو کفرہ سے تقریباً ایک ہزار کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے چنانچہ یہاں بھی ایک ہزار کلومیٹر لمبی پائپ لائن بچھائی گئی اور پانی کو پہنچایا گیا۔ چوتھے مرحلے میں ان دونوں نہروں کو آپس میں جوڑا گیا۔ انسانی ہاتھوں سے تعمیر کردہ اس دریا میں پانچ بڑے بڑے آبی ذخائر کی تعمیر بھی گئی تاکہ زائد پانی کو محفوظ کیا جاسکے۔ ان آبی ذخائر کا قطر ایک کلو میٹر رکھا گیا جو آج بھی ایک ریکارڈ ہے۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق لیبیا کا یہ منصوبہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی ہاتھوں کا تعمیر کردہ دریا ہونے کے ساتھ ساتھ یہ دنیا کا طویل ترین آب پاشی نظام بھی ہے جو ہزاروں ایکڑ زمین کو سیراب کرتا ہے۔ اس زیر زمین پانی سے نہ صرف لیبیائی باشندوں کے پینے کے پانی کی ضرورت پوری ہوتی ہے بلکہ اس کا ستر فیصد حصہ آب پاشی نظام اور صنعتی ضروریات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی منصوبے کے تحت لیبیا کے شمال اور مغربی علاقوں کو سرسبز و شاداب کیا گیا۔
مختلف اندازوں کے مطابق اس منصوبے میں تقریباً پچیس بلین ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی گئی، اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس منصوبے کے پہلے تین مراحل کو اپنے وقت پر مکمل کر لیا گیا اور ان مراحل میں کسی اور ملک سے کوئی مالی امداد بھی نہیں لی گئی۔ ماہرین کے مطابق یہ نوبین سینڈ اسٹون اکوافر کا پانی اگلے سو سالوں تک استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس اگر لیبیا سمندری پانی کو نمک سے الگ کر کے یعنی (Desalination) کر کے پینے کے قابل بنانے والے منصوبے پر عمل کرتا تو اس کا تخمینہ تقریباً دس گنا بڑھ جاتا۔
22 جولائی 2011 کا وہ دن لیبیا کے لیے قیامت کا دن ثابت ہوا جب اسے خانہ جنگی کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ اسی سال اس عظیم منصوبے کے معمار معمر القذافی کو بھی قتل کر دیا گیا۔ اسی دوران نیٹو افواج نے اس منصوبے کے چوتھے اور پانچویں مرحلے کے لیے بنائے جانے والے پائپوں کی فیکٹریوں کو میزائلیں برسا کر تباہ کردیا۔ چنانچہ اسی وقت سارے منصوبے کے تعمیراتی کاموں کو روک دیا گیا۔ سال 2014 سے 2020 تک جاری دوسری خانہ جنگی کے دوران اس منصوبے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی، پائپوں کی دیکھ بھال پر کوئی توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے پائپوں میں خرابی پیدا ہو گئی اور آب رسانی میں خلل پیدا ہو گیا۔ 10 اپریل 2020 کو لیبیائی باغیوں نے تریپولی تک پہنچائے جانے والے پانی کے نظام پر قبضہ کرلیا اور آبی سربراہی روک دی۔ دیگر آبی سربراہی نظام کی بھی یہی صورت حال ہے۔ آبی ذخائر عدم دیکھ بھال کی وجہ سے تقریباً سوکھ چکے ہیں۔ ایک دور وہ تھا جب یہی پانی لیبیا جیسے صحرائی ملک میں خوشحالی لے کر آیا تھا، آج صورتحال یہ ہے کہ وہی خوشحال ملک بدترین قحط سالی و پانی کی قلت کا شکار ہوچکا ہے۔ کس طرح ایک خوشحال ملک کو آپسی لڑائیوں نے تباہ و برباد کر دیا اس کی کہانی ہمارے سامنے ہے۔ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔
***

 

***

 22 جولائی 2011 کا وہ دن لیبیا کے لیے قیامت کا دن ثابت ہوا جب اسے خانہ جنگی کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ اسی سال اس عظیم منصوبے کے معمار معمر القذافی کو بھی قتل کر دیا گیا۔ اسی دوران نیٹو افواج نے اس منصوبے کے چوتھے اور پانچویں مرحلے کے لیے بنائے جانے والے پائپوں کی فیکٹریوں کو میزائلیں برسا کر تباہ کردیا۔ چنانچہ اسی وقت سارے منصوبے کے تعمیراتی کاموں کو روک دیا گیا۔ سال 2014 سے 2020 تک جاری دوسری خانہ جنگی کے دوران اس منصوبے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی، پائپوں کی دیکھ بھال پر کوئی توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے پائپوں میں خرابی پیدا ہو گئی اور آب رسانی میں خلل پیدا ہو گیا۔۔ ایک دور وہ تھا جب یہی پانی لیبیا جیسے صحرائی ملک میں خوشحالی لے کر آیا تھا، آج صورتحال یہ ہے کہ وہی خوشحال ملک بدترین قحط سالی و پانی کی قلت کا شکار ہوچکا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 مئی تا 20 مئی 2023