’’انتخابی جمہوریت میں آخری کیل‘‘: جموں و کشمیر میں اپوزیشن جماعتوں نے 25 لاکھ نئے ووٹروں کو فہرست میں شامل کرنے پر تبادلۂ خیال کے لیے آل پارٹی میٹنگ بلائی

سرینگر، اگست 20: چیف الیکٹورل آفیسر ہردیش کمار کی جانب سے انتخابی فہرستوں میں 25 لاکھ اضافی ووٹروں کو شامل کرنے کے اعلان کے بعد جموں و کشمیر میں سیاسی طوفان آ گیا ہے۔

دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد پہلی بار انتخابی فہرستوں کی خصوصی سمری نظرثانی کی جا رہی ہے۔

کمار نے کہا ’’دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد بہت سے لوگ جو سابقہ ​​ریاست جموں و کشمیر میں ووٹر کے طور پر اندراج نہیں کیے گئے تھے اب ووٹ دینے کے اہل ہیں اور اس کے علاوہ کوئی بھی جو عام طور پر یہاں رہ رہا ہے وہ بھی جموں و کشمیر میں ووٹر کے طور پر اندراج کرنے کے موقع سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔‘‘

انھوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کی متوقع 18 سے زیادہ عمر والی آبادی تقریباً 98 لاکھ ہے، جب کہ آخری ووٹر لسٹ کے مطابق اندراج شدہ ووٹرز کی تعداد 76 لاکھ ہے۔ کمار نے کہا ’’ہم حتمی فہرست میں 20 سے 25 لاکھ نئے ووٹروں کے اضافے کی توقع کر رہے ہیں۔‘‘

دریں اثنا باہر کے لوگوں کو ووٹروں کے طور پر شامل کرنے سے سیاسی پارٹیوں نے اسے جموں و کشمیر کی آبادیاتی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے احتجاج درج کرایا ہے۔

جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا ’’چیف الیکٹورل آفیسر نے ایک نیا حکم جاری کیا ہے۔ بی جے پی کے 25 لاکھ ووٹر، جو غیر مقامی ہیں، جموں و کشمیر میں بطور ووٹر شامل کیے جائیں گے۔ یہ جموں و کشمیر میں انتخابی جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ہے۔ اگر بی جے پی کے 25 لاکھ ووٹر باہر سے آئیں گے تو جموں و کشمیر کے ووٹروں کی کیا قیمت رہ جائے گی؟ جموں و کشمیر کا مسئلہ اب انتخابات سے آگے بڑھ چکا ہے۔ مسئلۂ کشمیر کے حل کا وقت آگیا ہے۔‘‘

جموں و کشمیر کے ایک اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ بی جے پی باہر سے ووٹروں کو درآمد کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انھوں نے کہا ’’کیا بی جے پی جموں و کشمیر کے حقیقی ووٹروں کی حمایت کے بارے میں اتنی غیر محفوظ ہے کہ اسے سیٹیں جیتنے کے لیے عارضی ووٹروں کو درآمد کرنے کی ضرورت ہے؟ جب جموں و کشمیر کے لوگوں کو اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کا موقع دیا جائے گا تو ان میں سے کوئی بھی چیز بی جے پی کی مدد نہیں کرے گی۔‘‘

پیپلز کانفرنس کے سجاد لون نے کہا کہ یہ خطرناک ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔ براہ کرم 1987 کو یاد رکھیں۔ ہمیں ابھی اس سے باہر آنا ہے۔ 1987 کو نہ دہرائیں۔ یہ اتنا ہی تباہ کن ہوگا۔‘‘

اپوزیشن نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے اس مسئلے پر بات چیت کے لیے پیر کو ایک آل پارٹی میٹنگ طلب کی ہے۔ نظریاتی اختلافات سے اوپر اٹھ کر نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے تمام سیاسی جماعتوں کو میٹنگ میں مدعو کیا ہے۔