!کلکتہ ہائی کورٹ میں جج بمقابلہ جج

مشکوک سیاسی کردار کی وجہ سے جج مذاق کا موضوع

ہفت روزہ دعوت بیورو کولکاتا

ضابطہ اخلاق کی پامالی سے عدالتی نظام پر عوامی اعتبارجوکھم میں
ملک کا عدالتی نظام بحران کا شکار ہے۔سیاست کی طرح عدالت بھی اکثریت کے مفادات کے تحفظ اور اس کی طرف اپنے واضح رجحانات کا اظہار کرنے سے ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کررہی ہے۔جامع مسجد گیان واپی کے تہ خانے میں پوجا کی اجازت کا مقامی عدالت کا فیصلہ نہ صرف انصاف و قانون کا قتل ہے بلکہ اکثریت نوازی کی بدترین مثال ہے۔یہ فیصلہ واضح کرتا ہے کہ ملک کی عدالتیں اکثریت نوازی کی خاطر کسی بھی حدتک جاسکتی ہے۔گزشتہ سات دہائیوں کے دوران جس قدر انصاف کا خون اس ملک کی عدالتوں کے ججوں نے کیا ہے وہ شاید ہی کسی اور نے کیا ہوگا، پھر بھی ملک کی اقلیتیں، دلت وقبائل ، پسماندہ طبقات اور حاشیہ پر دھکیلے گئے لوگ سب سے زیادہ اس ملک کی عدالتوں پر ہی اعتماد اور یقین رکھتے ہیں۔ آزاد بھارت کی تاریخ میں ایسے بہت ہی کم مواقع آئے ہیں جہاں طاقتور، اشرافیہ اور غالب طبقات مجرم کے کٹہرے میں کھڑے ہوئے نظر آئے ہیں۔ ملک کی عدالتی تاریخی کا سروے اور تجزیہ کرنے والے بتاتے ہیں اس ملک کی عدالتوں نے جن افراد کو سزائیں دی ہیں ان میں زیادہ تر افراد کا تعلق کمزور طبقات سے ہے۔ان حقائق کے باوجود حالیہ برسوں میں جس طریقے سے عدالتیں تقسیم ہوتی ہوئی نظر آئی ہیں وہ اس سے قبل کبھی نظر نہیں آئی۔ججوں کی تقرری، ان کے سیاسی نظریات اور ریٹائرمنٹ کے بعد کمیشن کی چیرمین شپ پر سوالات اٹھتے رہے لیکن ان دنوں کلکتہ ہائی کورٹ میں ججوں کی جو تقسیم نظرآرہی ہے وہ بے نظیر ہے۔ شاید ہی بھارت کی عدالتی تاریخ میں ایسا ہوا ہوگا جب کہ یک رکنی بنچ کے جج نے ڈویژن بنچ کے فیصلے پر سوالات اٹھائے ہوں، یا پھر کسی جج نے اپنے ہی ساتھی جج کی ایمان داری پر انگلی اٹھائی ہے۔مگر حالیہ دنوں میں دونوں طرح کی صورت حال کلکتہ ہائی کورٹ میں پیش آئی ہے۔
گزشتہ ہفتے کلکتہ ہائی کورٹ کے جج ابھیجیت گنگوپادھیائے نے اپنے ساتھی جج جسٹس سومین سین پر بنگال کی حکم راں جماعت ترنمول سے قربت اور اپنے فیصلوں میں حکومت کی طرف داری کرنے کے سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔جسٹس ابھیجیت گنگوپادھیائے نے جسٹس سومن سین کی قیادت والی بنچ کے فیصلے پر بھی سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ ڈویژن بنچ کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔گزشتہ ہفتہ پیش آنے والے اس غیر معمولی واقعے پر سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ نے سماعت کی۔سپریم کورٹ نے اس معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے دونوں ججوں کو ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کرنے سے روک دیا تھا۔دوسری طرف ایک معاملے پر ان دونوں ججوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے تھے جب میڈیکل کالجوں کے داخلہ میں بدعنوانی معاملہ کی جانچ جسٹس ابھیجیت گنگو پادھیائے کی یک رکنی بنچ نے 24؍ جنوری کو ریاستی پولیس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے سی بی آئی کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن محض ایک گھنٹے کے بعد ہی جسٹس سومین سین کی قیادت والی بنچ نے زبانی درخواست پر یک رکنی بنچ کے فیصلے پر روک لگا دی۔ اس کے بعد ہی جسٹس گنگوپادھیائے سخت ناراض ہو گئے۔ انہوں نے 25؍ جنوری کو پہلے ڈویژن بنچ کے فیصلے پر سوال اٹھایا اور اس کے بعد سی بی آئی کی جانچ جاری رکھنے کی ہدایت دی۔جسٹس گنگوپادھیائے نے جسٹس سومین سین کے خلاف سیاسی جماعت کی طرف داری اور بدعنوانی میں ملوث ہونے کے الزامات لگائے۔انہوں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ جسٹس سین دوسرے ججوں کو ترنمول کانگریس کے جنرل سکریٹری ابھیشیک بنرجی کی حمایت کے لیے راضی کر رہے تھے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیوں سپریم کورٹ کالجیم کی سفارش کے باوجود ان کا اڑیسہ ہائی کورٹ میں ٹرانسفر نہیں ہو رہا ہے، آخر کون ہے جو ان کے ٹرانسفر کو روک رہا ہے؟ یہ صورت حال کلکتہ ہائی کورٹ میں ججوں کے درمیان رسہ کشی کو بے نقاب کرتی ہے۔ کلکتہ ہائی کورٹ کے ججوں کا اس معاملے میں مختلف نقطہ نظر ہے۔ تاہم، کلکتہ کے ہائی کورٹ کے وکلا بھی کہہ رہے ہیں کہ ہائی کورٹ کے ججوں کے درمیان اختلافات سے عدالت کی بدنامی ہوئی ہے ۔
جسٹس ابھیجیت گنگوپادھیائے، جنہوں نے اساتذہ تقرری اور بلدیاتی گھوٹالوں کی جانچ کو سی بی آئی کے سپرد کیا تھا، وہ بالخصوص اساتذہ تقرری گھوٹالے میں سخت فیصلے کرنے کی وجہ سے بنگال کے نوجوانوں میں خاصے مقبول ہیں۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کانگریسی لیڈر ادھیر رنجن چودھری کہتے ہیں اگر جسٹس ابھیجیت گنگوپادھیائے وزیر اعلیٰ کے عہدے کے امیدوار ہوتے ہیں تو ہم ان کی حمایت کریں گے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی جسٹس ابھیجیت گنگوپادھیائے تنازعات کے بھی شکار رہے ہیں۔ انہوں نے ایک ٹی وی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اساتذہ تقرری گھوٹالے میں ابھیشیک بنرجی کے رول کی سخت تنقید کی تھی۔اس کے بعد سپریم کورٹ نے انہیں انٹرویو دینے پر روک لگادی تھی اور کئی معاملات ان کی بنچ سے دوسری بنچ کو منتقل کرنے کی ہدایت دی تھی۔ لیکن اس کے بعد بھی جسٹس ابھیجیت گنگوپادھیائے عدالت میں بھی اور عدالت کے باہر بھی ابھیشیک بنرجی پر تنقید کرتے رہے۔چنانچہ ابھیشیک بنرجی نے جسٹس ابھیجیت گنگوپادھیائے کے خلاف سپریم کورٹ میں شکایت کی ہے۔اس کے علاوہ جسٹس ابھیجیت گنگوپادھیائے پر عدالت کے باہر سرگرمیوں کی وجہ سے بھی سوالات اٹھتے رہے۔ وہ اپنے ماضی کی وجہ سے بھی سوالوں کی زد میں ہے۔ کلکتہ ہائی کورٹ کے سینئر وکیل اور سی پی ایم کے راجیہ سبھا کے رکن بکاش رنجن بھٹاچاریہ کے وہ جونیئر وکیل رہے ہیں۔سی پی آئی ایم 34برسوں تک بنگال میں برسراقتدار رہی ہے۔کلکتہ ہائی کورٹ کے وکلا کہتے ہیں کہ اس وقت عدالت دو حصوں میں تقسیم ہے۔کچھ جج حکم راں جماعت ترنمول کانگریس کے قریبی ہیں اور کچھ ججوں کا کمیونسٹ پارٹی کی طرف جھکاو رہا ہے۔ بی جے پی کی ایک چھوٹی سی لابی بھی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی طرف ججوں کا جھکاؤ کوئی نئی بات نہیں ہے، نہ اس معاملے میں کلکتہ ہائی کورٹ منفرد ہے۔جج بھی بھارتی معاشرہ کا حصہ ہیں۔ہر شہری کی طرح ان کا بھی کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف جھکاؤ ہو سکتا ہے۔ مگر حالیہ عرصے میں ججوں کا سیاسی جماعت کی طرف جھکاؤ کا اظہار نیا ہے۔ 1997میں چیف جسٹس آف انڈیا کی قیادت والی کمیٹی نےججوں کے لیے سیلف ریگولیشن چارٹر بنایا تھا۔اس سیلف ریگولیشن میں کہا گیا تھا کہ ججوں کو سرگرام عوامی زندگی سے خود کو دور رکھنا چاہیے۔ انہیں عوامی یا سیاسی بحث میں شامل نہیں ہونا چاہیے یا کسی ایسے معاملے پر اظہار خیال نہیں کرنا چاہیے جو زیر التوا ہے یا عدالتوں کے سامنے آسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ججوں کو میڈیا کو انٹرویو نہیں دینا چاہیے اور اپنے فیصلوں کو خود بولنے دینا چاہیے۔
مگر المیہ یہ ہے کہ اس معاملے میں صرف کلکتہ ہائی کورٹ ہی نہیں بلکہ سپریم کورٹ اور ملک کی دیگر عدالتوں کے جج بھی سیلف ریگولیشن چارٹر پر عمل پیرا نہیں ہیں، جیسا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کو گجرات کی مندروں میں پوجا کرتے ہوئے ٹی وی چینلوں پر لائیو دکھایا گیا تھا۔ رام مندر کے افتتاح کے موقع پر سپریم کورٹ کے کئی سابق چیف ججوں کی شرکت سیلف ریگولیشن کا مذاق نہیں تو کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ جب سپریم کورٹ کے جج سیلف ریگولیشن پر عمل پیرا نہیں ہیں تو پھر کلکتہ ہائی کورٹ کے ججوں سے کیا امید کی جاسکتی ہے؟ دیکھنا یہ ہے کہ جسٹس ابھیجیت گنگوپادھیائے اور جسٹس سومن سین کے درمیان تنازع پر سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ کیا فیصلہ سناتی ہے۔ مگر ایک بات طے ہے کہ اس پورے تنازع میں عدالت سے عوام کا اعتماد اگر ختم نہیں ہوا ہے تو کم ضرور ہوا ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 فروری تا 17 فروری 2024