مشہور ہونے کے لیے عتیق احمد کو قتل کیا، پولیس نے حملہ آوروں کے حوالے سے کہا
نئی دہلی، اپریل 17: اترپردیش پولیس نے کہا ہے کہ تینوں حملہ آوروں نے بتایا ہے کہ انھوں نے مشہور ہونے کے لیے پریاگ راج میں سابق ایم پی عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف کو قتل کیا۔
پولیس نے پہلی معلوماتی رپورٹ میں حملہ آوروں کے حوالے سے بتایا ’’ہم عتیق اور اشرف کے گینگ کو ختم کرنا چاہتے تھے اور مشہور ہونا چاہتے تھے کیوں کہ اس سے ہمیں مستقبل میں یقینی طور پر فائدہ ہوگا۔‘‘
تینوں افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور ان کی شناخت لولیش تیواری (22)، موہت عرف سنی پرانے (23) اور ارون کمار موریہ (18) کے طور پر کی گئی ہے۔ تینوں کو پریاگ راج کی عدالت میں پیش کیا گیا، جس نے انھیں 29 اپریل تک عدالتی تحویل میں بھیج دیا۔
احمد اور اس کے بھائی اشرف کو ہفتے کے روز پریاگ راج کے ایک اسپتال لے جانے کے دوران گولی مار دی گئی تھی۔ ان پر اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ پولیس اہلکاروں اور صحافیوں میں گھرے میڈیا سے بات کر رہے تھے۔
اتوار کو پولیس نے بتایا کہ حملہ آوروں نے پوچھ گچھ کے دوران کہا کہ وہ عتیق اور اشرف کا اسی وقت سے پیچھا کرنے لگے تھے جب انھیں معلوم ہوا کہ پولیس انھیں پریاگ راج لے آئی ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق ’’جس لمحے ہمیں عتیق اور اشرف کو پولیس کی تحویل میں لینے کی اطلاع ملی، ہم نے انھیں مقامی صحافی ظاہر کرکے اور بھیڑ کے ساتھ گھل مل کر قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔‘‘
تینوں کے خلاف تعزیرات ہند کے تحت قتل اور قتل کی کوشش سے متعلق دفعات اور آرمس ایکٹ اور فوجداری قانون (ترمیمی) ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
دریں اثنا اتر پردیش حکومت نے احمد اور اشرف کے قتل کی تحقیقات کے لیے ایک تین رکنی عدالتی کمیشن بھی تشکیل دیا ہے۔
کمیشن کی سربراہی ہائی کورٹ کے سابق جج اروند کمار ترپاٹھی کریں گے۔ سابق جج برجیش کمار سونی اور اتر پردیش کے سابق ڈائریکٹر جنرل پولیس سبیش کمار سنگھ اس کے دو دیگر ممبر ہوں گے۔
احمد اور اشرف کی لاشوں کو پولیس کی بھاری نفری میں پریاگ راج میں ان کے آبائی گاؤں میں دفنایا گیا۔
دریں اثنا اتوار کو سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی جس میں احمد اور اشرف کے قتل کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد ماہر کمیٹی تشکیل دینے کی درخواست کی گئی۔
اپنی عرضی میں ایڈوکیٹ وشال تیواری نے 2017 سے اتر پردیش میں ہوئے 183 ’’انکاؤنٹرس‘‘ کی تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
تیواری نے کہا کہ پولیس کی اس طرح کی کارروائیوں سے جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو شدید خطرہ ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’’جمہوری معاشرے میں پولیس کو حتمی انصاف فراہم کرنے کا طریقہ یا سزا دینے والی اتھارٹی بننے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ سزا دینے کا اختیار صرف عدلیہ کے پاس ہے۔‘‘