عتیق احمد قتل: سپریم کورٹ 24 اپریل کو اس معاملے کی آزاد تحقیقات کی درخواست کی سماعت کرے گی

نئی دہلی، اپریل 18: سپریم کورٹ نے منگل کو 24 اپریل کو اتر پردیش کے پریاگ راج میں گینگسٹر سے سیاستداں بنے عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف کے قتل کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کرنے والی درخواست کی سماعت کرنے پر اتفاق کیا۔

چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی زیرقیادت بنچ نے ایڈوکیٹ وشال تیواری کی عرضیوں کا نوٹس لیا، جنھوں نے عرضی داخل کی اور فوری سماعت کا مطالبہ کیا۔

احمد برادران کو 15 اپریل کو تین افراد نے خود صحافی ظاہر کرتے ہوئے قریب سے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا جب پولیس اہلکار انھیں طبی معائنے کے لیے لے جا رہے تھے۔

اس وقت دونوں بھائی وکیل امیش پال کے قتل کے سلسلے میں پولیس کی حراست میں تھے جو 2005 میں بہوجن سماج پارٹی کے ایم ایل اے راجو پال کے قتل کا گواہ تھا۔امیش پال کو 24 فروری کو پریاگ راج میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اتر پردیش پولیس نے احمد، اس کی بیوی شائستہ پروین، ان کے دو بیٹوں اور بھائی اشرف سمیت دیگر کے خلاف امیش پال کے قتل کا مقدمہ درج کیا تھا۔

پچھلے مہینے عتیق احمد نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور کہا تھا کہ ان کی جان کو اتر پردیش پولیس سے خطرہ ہے۔ عتیق کے وکیل نے عدالت میں کہا تھا ’’اگر یہ عدالت [عتیق احمد] کو تحفظ دینے سے انکار کرتی ہے، تو اس کا مطلب اس کے لیے ڈیتھ وارنٹ ہوگا۔‘‘

تاہم جسٹس اجے رستوگی اور بیلا ایم ترویدی کی ڈویژن بنچ نے اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا اور عتیق احمد سے کہا تھا کہ وہ اس کے بجائے ہائی کورٹ چلے جائیں۔

سپریم کورٹ کے سامنے اپنی عرضی میں تیواری نے 2017 سے اتر پردیش میں ہوئے 183 ’’انکاؤنٹرس‘‘ کی تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

2017 میں اتر پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ’’انکاؤنٹرز‘‘، یا ماورائے عدالت قتل میں اضافہ ہوا ہے۔

امیش پال قتل کیس کے سلسلے میں پولیس نے 13 اپریل کو جھانسی میں عتیق احمد کے نوعمر بیٹے اسد اور ایک معاون کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ 27 فروری اور 6 مارچ کو اس کیس کے مزید دو ملزمین کو بھی پولیس کی طرف سے ’’انکاؤنٹر‘‘ میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

تیواری نے اپنی عرضی میں کہا کہ ’’جمہوری معاشرے میں پولس کو حتمی انصاف فراہم کرنے کا طریقہ یا سزا دینے والی اتھارٹی بننے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ سزا دینے کا اختیار صرف عدلیہ کے پاس ہے۔‘‘

انھوں نے اس قتل کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں ایک آزاد ماہر کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ جب پولیس ہمت شیطان بن جاتی ہے تو قانون کی پوری حکمرانی ختم ہو جاتی ہے اور لوگوں کے ذہنوں میں پولیس کا خوف پیدا ہوتا ہے جو جمہوریت کے لیے بہت خطرناک ہے اور اس کا نتیجہ مزید جرائم کی صورت میں نکلتا ہے۔

دریں اثنا عتیق احمد کے وکیل وجے مشرا نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ ان کے مؤکل کی طرف سے لکھا گیا ایک خط اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ اور چیف جسٹس چندر چوڑ کو بھیجا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عتیق احمد نے کہا تھا کہ اگر کوئی حادثہ ہوا یا قتل ہوا تو سیل بند لفافے میں یہ خط [وزیر اعلیٰ اور چیف جسٹس] کو بھیجا جائے۔

مشرا نے دعویٰ کیا کہ وہ نہیں جانتے کہ خط میں کیا لکھا ہے۔ انھوں نے کہا ’’اسے کہیں اور رکھا گیا ہے اور کسی اور شخص کے ذریعے بھیجا جا رہا ہے۔‘‘