’خدا بخش لائبریری‘ کی بات کچھ ایسی ہے کہ پٹنہ کے لوگ بھی اب بول رہے ہیں۔۔۔

افروز عالم ساحل

کسی بھی شہر کی پہچان اس کی تہذیب و ثقافت اور وہاں موجود پرانی تاریخی عمارتوں سے ہوتی ہے۔ بہار کے دارالحکومت پٹنہ کی بھی پہچان یہاں ’اشوک راج پتھ‘ پر دونوں طرف بنی تاریخی عمارتوں سے ہے۔ دھول پھانکتی ان عمارتوں میں بعض اپنی خاص ’پہچان‘ کے لیے دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ یہ عمارتیں اس ملک کی آزادی کی پوری تاریخ اپنے سینے میں دفن کیے ہوئے ہیں۔ ان عمارتوں میں برطانوی دور سے لے کر آزادی تک کی تمام تاریخی روابط محفوظ ہیں۔ لیکن موجودہ دور کے حکمران ترقی کے نام پر کئی تاریخی عمارتوں کو منہدم کرنے کے بعد اب اس شہر کی ایک پوری تاریخ کو ختم کر دینے کی تیاری میں ہیں۔

ان تاریخی عمارتوں سے محبت کرنے والوں کا ماننا ہے کہ پٹنہ شہر کبھی بولتا نہیں ہے۔ کئی تاریخی ورثہ رکھنے والی عمارتوں کو دن کی روشنی میں ڈھا دیا گیا، لیکن کسی نے کچھ نہیں کہا لیکن ’خدا بخش لائبریری‘ کی بات کچھ ایسی ہے کہ پٹنہ کے لوگ بھی اب بول رہے ہیں۔

دراصل معاملہ پٹنہ کو ٹریفک جام کے مسئلے سے نجات دلانے کا ہے۔ اس کے لیے ’بہار راجیہ پل نرمان نگم‘ کا گاندھی میدان کے قریب موجود کارگل چوک سے این آئی ٹی موڑ تک ایک ڈبل ڈیکر فلائی اوور تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے۔ یہ ڈبل ڈیکر فلائی اوور پٹنہ کی اس تاریخ پر ہمیشہ کے لیے پردہ ڈال دے گا جس کے لیے پٹنہ شہر جانا جاتا ہے۔ کیونکہ اسی ’اشوک راج پتھ‘ پر قدم قدم پر تاریخی عمارتیں موجود ہیں۔ پٹنہ یونیورسٹی، پی ایم سی ایچ، اردو لائبریری، بی این کالج، پٹنہ کالج، سینٹ جوزیف کنونٹ، ویلر سینیٹ ہال جیسے تاریخی ادارے اسی سڑک پر موجود ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ ہنگامہ عالمی شہرت یافتہ ’خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری‘ کو لے کر ہے۔ اس ڈبل ڈیکر فلائی اوور کی وجہ سے جہاں لائبریری کے آگے موجود گارڈن اجڑ جائے گا وہیں تاریخی ’کرزن ریڈنگ روم‘ انہدام کا شکار ہو جائے گا۔ ’کرزن ریڈنگ روم‘ سے مسابقتی امتحانات کے لیے تیاری کرنے کی ایک تاریخ رہی ہے۔

’ان پڑھ‘ لوگوں کو یا یوں کہیے کہ آبادی کو ’ان پڑھ‘ رکھنے کا ارادہ رکھنے والوں کو نہیں معلوم کہ جو بھی پڑھتا ہے یا جس نے بھی کتابوں کے سہارے اپنی زندگی میں آگے بڑھنے کی کوشش کی ہے، وہ لائبریری کے اس ’ریڈنگ روم‘ سے بخوبی واقف ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج سماج کے ہر طبقے سے اس کے بچاؤ کے لیے آواز اٹھ رہی ہے۔ سچ پوچھیں تو کتابوں سے محبت رکھنے والا ہر شخص حکومت کی اس نام نہاد ’ترقی‘ کی مخالفت کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔

آپ کو بتا دیں کہ 1903ء میں وائسرائے لارڈ کرزن لائبریری میں موجود کتابوں کے ذخیرے کو دیکھنے کے لیے آئے تھے۔ ان کی یہ آمد کئی معنوں میں کافی اہم تھی۔ لارڈ کرزن کی آمد کی ایک خاص اہمیت اس لیے بھی رہی کہ ان کی مدد سے خدا بخش لائبریری میں مخطوطات کی فہرست سازی کا آغاز ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ بطور اظہار تشکر خدا بخش مرحوم نے اپنے مکان کا ایک ہال ’کرزن ریڈنگ روم‘ کے طور پر وقف کر دیا تھا۔ یہ ’کرزن ریڈنگ روم‘ 1905 میں بن کر تیار ہو گیا اور اسے مطالعہ کرنے والوں کے لیے کھول دیا گیا۔

’اگر ضرورت پڑی تو میں اس لائبریری کے لیے سڑک پر اترنے سے بھی گریز نہیں کروں گا‘

بہار کی حزب مخالف پارٹی ’راشٹریہ جنتا دل‘ کے رکن اسمبلی سدھاکر سنگھ کی اس لائبریری کے ساتھ کئی یادیں جڑی ہوئی ہیں۔ ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں وہ بتاتے ہیں کہ آج بھی اگر کسی حادثے یا حقائق کو تاریخ کے آئینے سے دیکھنا ہوتا ہے تو ہم لوگ خدا بخش لائبریری ہی جاتے ہیں۔ اس لائبریری کا دائرہ مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں، ’کرزن ریڈنگ روم‘ کو بچانا نئی نسل کے لیے بہت ضروری ہے۔ خاص طور پر اس دور میں جب کہ پڑھنے لکھنے کے رجحان میں کمی آ رہی ہے، اس دور میں یہ لائبریری یا ریڈنگ روم ہی ہمارے مستقبل کی رہنمائی کرے گا۔ سرکار کئی طریقوں سے پٹنہ کو ترقی دے سکتی ہے لیکن خدا بخش لائبریری جہاں کھڑی ہے، اسے وہیں کھڑا رہنا چاہیے۔ اگر ضرورت پڑی تو میں اس لائبریری کے لیے سڑک پر اترنے سے بھی گریز نہیں کروں گا اور یقیناً بہار کے حزب اختلاف کی تمام پارٹیاں ہمارے ساتھ ہوں گی۔

حکومت پڑھنے لکھنے کے ماحول کو ہی ختم کر دینا چاہتی ہے!

بہار حکومت کے ایک اعلیٰ افسر نے نام نہ شائع کرنے کی شرط پر بتایا کہ گزشتہ کچھ دنوں سے ایسا نظر آرہا ہے کہ حکومت بہار سے پڑھنے لکھنے کے ماحول کو ہی ختم کر دینا چاہتی ہے۔ آپ دیکھ لیجیے کہ پٹنہ کی ’سنہا لائبریری‘ بند ہے۔ پڑھنے لکھنے یا تہذیب و ثقافت سے وابستہ ہر ادارے کا یہی حال ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ موجودہ دور میں ملک کی تمام سرکاریں صرف اونچی اونچی بلڈنگس یا فلائی اوورز بنانے کو ہی ترقیاتی کام سمجھتی ہیں جبکہ ان کے اس نام نہاد ترقیاتی کاموں سے ملک کی اپنی تہذیب و ثقافت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ دراصل ’اشوک راج پتھ‘ پر جس ڈبل ڈیکر فلائی اوور کی بات کی جا رہی ہے، اس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ یہ ٹریفک جام کے مسئلے کو مزید بڑھائے گی۔ ذرا سوچ کر دیکھیے کہ این آئی ٹی موڑ کے آگے کیا؟ اور سب سے بڑا سوال یہ کہ اس کے بن جانے کے بعد ٹریفک کے شور میں جو اضافہ ہو گا، کیا اس کے بعد یہاں طلبا کو پڑھنے کے لیے پر سکون ماحول میسر آئے گا؟

ان کا کہنا ہے کہ ’اشوک راج پتھ‘ کو اگر حقیقت میں ٹریفک جام کے مسئلے سے نجات دلانا ہے تو آپ بس دو ایماندار پولس والوں کو کھڑا کر دیجیے، جو ٹھیلے یا سڑک کے کنارے دکانداروں سے وصولی نہ کریں اور انہیں سڑک پر دکانیں لگانے نہ دیں، آدھا مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا۔ مزید حل چاہیے تو جو آپ نے میرین ڈرائیو بنایا ہے، اس میں چار جگہ اشوک راج پتھ کو جوڑ دیجیے۔

فلائی اوور کے نقشے میں ’گورنمنٹ اردو لائبریری‘ کی آدھی عمارت

پٹنہ کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس میں شعبۂ اردو کے صدر صفدر امام قادری ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں بتاتے ہیں کہ اسی ’اشوک راج پتھ‘ پر قدیم عظیم آباد یعنی مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کے آثار قدم قدم پر محفوظ ہیں۔ یہی علاقہ بعد میں جدید تعلیم کا مرکز بنا۔ خدا بخش لائبریری کے بعد اسی ’اشوک راج پتھ‘ پر ایک اور کتب خانہ ’گورنمنٹ اردو لائبریری‘ کی بنیاد پڑی۔ اسی لائبریری کی زمین کے ایک حصے میں حکومت بہار نے ’بہار اردو اکادمی‘ کی عمارت بنائی۔ اب فلائی اوور کے نقشے میں ’گورنمنٹ اردو لائبریری‘ کی آدھی عمارت آرہی ہے۔

صفدر امام قادری خدا بخش لائبریری کی موجودہ انتظامیہ کے رویے سے بھی ناراض نظر آرہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سارا معاملہ گزشتہ تین ماہ سے چل رہا ہے۔ این او سی کے لیے تین مہینے قبل ہی لائبریری کو نوٹس دیا گیا تھا۔ اس سے متعلق تین چار میٹنگیں بھی ہوئی، لیکن لائبریری انتظامیہ نے اس معاملے کو باہر آنے سے روکا۔

بتا دیں کہ ’بہار راجیہ پل نرمان نگم‘ نے اس سال شروعات میں ہی خدا بخش اور گورنمنٹ اردو لائبریری کو ایک مکتوب بھیجا تھا۔ اس سلسلے میں 16 جنوری 2021 کو ہندی بھون میں ایک ہنگامی میٹنگ بلائی گئی، جس میں دونوں لائبریری کے عہدیداروں کے ساتھ پٹنہ ڈی ایم بھی موجود تھے۔

کیا کہتی ہیں لائبریری کی ڈائریکٹر ڈاکٹر شائستہ بیدار؟

اس پورے معاملے میں ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں ’خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری‘ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر شائستہ بیدار بتاتی ہیں کہ حکومت کا لائبریری کے سامنے سے ایک الیویٹیڈ کوریڈور لے جانے کا پلان ہے۔ ’بہار راجیہ پل نرمان نگم‘ نے لائبریری سے ’نو آبجیکشن سرٹیفیکٹ‘ مانگا ہے۔ اس وجہ سے لائبریری کے آگے کے حصے کی تین کٹھا زمین چلی جائے گی، ساتھ ہی تاریخی ’کرزن ریڈنگ روم‘ کا نصف سے زائد حصہ چلا جائے گا۔ یہی نہیں، اس الیویٹیڈ کوریڈور کے بن جانے کے بعد ’خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری‘ کی عمارت کی خوبصورتی بھی ختم ہو جائے گی اس لیے اس کو بچانا ضروری ہے۔

اس کے لیے لائبریری انتظامیہ کیا کر رہی ہے؟ اس سوال پر ڈاکٹر شائستہ بیدار بتاتی ہیں، ہم نے بہار حکومت کے سامنے چار متبادل رکھے ہیں، تاکہ اس لائبریری کو بچایا جاسکے۔ یہ پوچھنے پر کہ کیا حکومت آپ کے ذریعے دیے گئے متبادل کو منظور کرے گی؟ اس پر ڈاکٹر شائستہ بیدار کہتی ہیں کہ ہم لوگ تو حکومت سے صرف گزارش ہی کرسکتے ہیں، آخری فیصلہ حکومت کو ہی لینا ہے۔ امید ہے کہ حکومت اس متبادل پر ضرور غور کرے گی۔ اگر حکومت نے آپ کی بات نہیں مانی تو؟ اس پر وہ کہتی ہیں، ’کوشش کرنا انسان کا کام ہے، باقی اوپر والے پر چھوڑ دینا چاہیے۔‘

اس درمیان بہار کے ’روڈ کنسٹرکشن ڈپارٹمنٹ کے ذریعہ میڈیا میں یہ خبر بھی آئی کہ اس منصوبے کی ڈی پی آر بناتے وقت خدا بخش لائبریری انتظامیہ سے بات چیت کی گئی تھی، جس میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ ’کرزن ریڈنگ روم‘ جیسا ایک روم لائبریری کی بلڈنگ کے بغل میں موجود پرانی بلڈنگ کی جگہ پر بنا دیا جائے گا۔ جس کے لیے ’بہار راجیہ پل نرمان نگم‘ تیار ہے۔ لیکن ڈاکٹر شائستہ بیدار اس خبر کو غلط و فرضی بتاتی ہیں۔

اس کے باوجود علمی دنیا سے تعلق رکھنے والے لوگ لائبریری انتظامیہ سے اس بات پر ناراض نظر آتے ہیں کہ انہوں نے متبادل راستہ کیوں پیش کیا؟ جس لائبریری کا چیئرمین یہاں کا گورنر ہے، وہ حکومت کے سامنے اتنا بے بس و لاچار کیوں ہے؟

باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ لائبریری انتظامیہ نے حکومت بہار کے متبادل راستے کی تجویز گورنر کے ساتھ ہوئی میٹنگ کے بعد ہی دی ہے۔ ایک اور خبر کے مطابق گورنر پھاگو چوہان نے ڈی ایم کو خط لکھ کر لائبریری کو بچانے اور متبادل راستہ تلاش کرنے کی ہدایت دی ہے۔

لائبریری کو کسی بھی قیمت پر نقصان نہیں پہنچنے دیا جائے گا — وزیر محمد زماں خان

اس معاملے پر ہفت روزہ دعوت نے بہار کے محکمہ اقلیتی فلاح و بہبود کے وزیر محمد زماں خان سے بھی خاص بات چیت کی۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت نے اس سلسلے میں ایک کمیٹی بنائی ہے۔ ’خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری‘ کو کسی بھی قیمت پر نقصان نہیں پہنچنے دیا جائے گا۔

لیکن ہفت روزہ دعوت کے نمائندے نے اس کمیٹی کے متعلق جانچ پڑتال کی تو پتہ چلا کہ حکومت کی جانب سے ایسی کوئی کمیٹی سرے سے بنائی ہی نہیں گئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بہار اسمبلی کے لائبریری کمیٹی کے سبھاپتی سدامہ پرساد کے ذریعہ بہار اسمبلی کے صدر کو ایک خط لکھ کر اس پورے معاملے سے واقف کرایا ہے اور گزارش کی ہے کہ فلائی اوور بنانے کے نام پر خدا بخش لائبریری کو نقصان پہنچانے کی کارروائی پر فوری طور پر روک لگائی جائے۔

اس سے قبل ’انڈین نیشنل ٹرسٹ فار آرٹ اینڈ کلچرل ہیریٹیج‘ (انٹیک) نے بھی ایک خط لکھ کر بہار کے وزیر اعلیٰ نیتیش کمار سے اپیل کی ہے کہ وہ 130 سالہ قدیم خدا بخش لائبریری کے سامنے والے حصے کو مسمار ہونے سے بچائیں، کیونکہ اس تاریخی لائبریری کے کسی بھی حصے کا خاتمہ نہ صرف پٹنہ کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے "ورثے کا یادگار نقصان” ہوگا اور یہ اس ادارہ کی عظمت کو ہمیشہ کے لیے گرہن لگائے گا۔

خدا بخش لائبریری میں گاندھی جی

بابائے قوم گاندھی جی بھی اس لائبریری کا دورہ کر چکے ہیں۔ یہ سال 1925 تھا۔ 8 اکتوبر 1925ء کے ینگ انڈیا میں گاندھی جی لکھتے ہیں، ’مجھے خدا بخش اورینٹل لائبریری دیکھنے کی خواہش بہت دنوں سے تھی۔ اس بار میں نے اپنی خواہش پوری کی۔ میں نے اس کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا۔ لیکن یہ نہیں سوچا تھا کہ اس کے پاس اتنا قیمتی خزانہ ہے۔ اس کے بانی خان بہادر خدا بخش ایک وکیل تھے۔ اس کے لیے انہوں نے کتابیں جمع کرنا اپنا فرض بنالیا تھا۔ وہ بیرون ممالک سے بھی عربی اور فارسی کے بہت سی قدیم اور نایاب کتابیں لے کر آئے۔ میں نے ’قرآن‘ کی ہاتھ سے لکھی ہوئی کاپیاں دیکھیں، ان کی سجاوٹ بہت خوبصورت تھی۔ یقیناً نامعلوم فنکاروں نے اس پر برسوں تک صبر سے کام کیا ہو گا۔ ’شاہنامہ‘ کے ایڈیشن کا ہر ایک صفحہ ایک حیرت انگیز فن ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس لائبریری میں محفوظ کردہ کچھ نسخوں کی ادبی اہمیت بھی کم نہیں ہے۔ قوم کو یہ عظیم تحفہ دینے کے لیے اس ادارے کے بانی کو جتنا اعزاز بخشا جائے کم ہے۔‘

کیا ہے ’خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری‘ کی تاریخ

ہندوستان کی سب سے قدیم لائبریریوں میں ایک یہ لائبریری جنوبی اور وسطی ایشیا کے دانشورانہ اور ثقافتی ورثے کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ عدالت آصفیہ کے میر مجلس یعنی چیف جسٹس چھپرہ کے مولوی خدا بخش خان کی طرف سے تقریباً 1400 مسودات اور بہت ہی نایاب کتابوں کے عطیہ سے شروع ہونے والی یہ لائبریری کبھی ہندوستان کے لیے باعث افتخار ہوا کرتی تھی۔ خدا بخش خان نے 1888ء میں تقریباً اسی ہزار روپے کی لاگت سے تعمیر کی گئی دو منزلہ عمارت میں اس لائبریری کو متعارف کرایا۔ 5 اکتوبر 1891ء کو گورنر سر چارلس ایلیٹ کے ہاتھوں اس کا افتتاح ہوا اور پھر اسے عوام کے لیے وقف کر دیا گیا۔ تب اس کا نام لائبریری ’بانکی پور اورینٹل لائبریری‘ یا ’اورینٹل پبلک لائبریری‘ تھا۔

اس وقت لائبریری میں عربی، فارسی اور انگریزی کے چار ہزار نایاب مسودات موجود تھے۔ اب یہ تعداد اکیس ہزار سے بھی زائد ہے۔ اس میں کئی ایسے مخطوطے بھی موجود ہیں جن کی کوئی دوسری کاپی دنیا کے کسی بھی دوسری لائبریری میں نہیں ہے۔ قرآن کے کئی قدیم اور نایاب نسخوں کے علاوہ ہرن کی کھال پر لکھی قرآنی آیات بھی یہاں موجود ہیں۔ اسی خدا بخش لائبریری میں بادشاہ شاہ جہاں کے ذریعہ مصدقہ اکبر کے زمانے کی ’تاریخ خاندان تیموریہ‘ کی واحد کاپی بھی موجود ہے۔ لائبریری کی یہ کتاب UNESCO’s Memory of the World Register on heritage میں درج ہے۔ اس کے علاوہ جرمن، فرانسیسی، ترکی جاپانی، روسی، سنسکرت، پشتو، پنجابی، عربی، فارسی، اردو، انگریزی اور ہندی زبانوں میں بے شمار نادر اور نایاب مخطوطات کے ساتھ ساتھ تقریباً ڈھائی لاکھ کتابیں یہاں موجود ہیں۔ یہی نہیں، لائبریری کے آرکائیول سیکشن کے پاس آڈیو، ویڈیو کا اچھا کلیکشن بھی موجود ہے۔

جب لائبریری کی دو منزلہ عمارت ایک منزلہ ہوکر رہ گئی

جنوری 1933 میں بہار میں قیامت خیز زلزلہ آیا تھا۔ اس زلزلہ کی وجہ سے لائبریری کی دو منزلہ عمارت صرف ایک منزلہ ہوکر رہ گئی تھی تب اس وقت کی برٹش حکومت نے اس کی مرمت پر ۱۰ ہزار روپے خرچ کیے تھے۔

ڈاکٹر ذاکر حسین کا بھی اس لائبریری میں رہا ہے اہم رول

سال 1957میں جب ڈاکٹر ذاکر حسین بہار کے گورنر بنے تو اس لائبریری کی ترقی میں کافی اہم رول ادا کیا بلکہ یوں کہیے کہ ڈاکٹر صاحب کی وجہ سے اس لائبریری کو نئی زندگی ملی اور اس کے استحکام اور ترقی کی نئی صورتیں سامنے آئیں۔ انہوں نے اس لائبریری کے لیے قدیم کتابیں اور مخطوطے خریدوائے۔ اسی زمانے میں بتیا راج کی کافی چیزیں یہاں آئیں۔ دیسنہ کے ’کتب خانہ الاصلاح‘ کے حالات کو خود جاکر دیکھا اور یہاں کے ذمہ داروں سے بات کی۔ اس کے نتیجے میں 17 جولائی 1940 کو کتابوں اور رسالوں کا مایہ ناز ذخیرہ دیسنہ سے خدا بخش لائبریری منتقل ہو گیا۔ آج بھی پٹنہ کے خدا بخش لائبریری میں ’دیسنہ لائبریری سیکشن‘ موجود ہے۔

ڈاکٹر ذاکر حسین کی خواہش تھی کہ خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف کے کتب خانے کی قدیم قیمتی کتابیں بھی خدا بخش لائبریری میں محفوظ ہو جائیں۔ لیکن خانقاہ کے ناظم شاہ فضل احمد قادری صاحب کا کہنا تھا کہ خانقاہ مجیبیہ کی لائبریری خلوت شریف سے منسلک ہے، صاحب سجادہ فرصت کے اوقات میں مطالعہ کرتے ہیں۔ اس پر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ’میں ان کے لیے خدا بخش لائبریری میں حجرہ بنوا دوں گا۔‘ لیکن بات نہیں بنی۔ تب ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف لائبریری کے لیے ایک عالیشان عمارت کا نقشہ بنوایئے۔ لیکن افسوس کہ ڈاکٹر صاحب کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔

ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب جب صدر جمہوریہ بنے تو انہی کی کوششوں سے 26 دسمبر 1969ء کو حکومت ہند نے ایک وفاقی قانون سازی بنام خدا بخش اورئینٹل پبلک لائبریری ایکٹ (1969ء) کے ذریعہ اِس لائبریری کو قومی کتب خانوں کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے اِس کی مالی ذمہ داریاں اپنے ذمہ لے لیں۔ تب سے اس لائبریری کی عملداری حکومت ہند کی وزارت ثقافت کے دائرہ اختیار میں ہے جبکہ اس کی نمائندگی بہار کے گورنر کے پاس ہے۔

گورنمنٹ اردو لائبریری کی بھی ہے اپنی ایک تاریخ

’بہار راجیہ پل نرمان نگم‘ کے مجوزہ ڈبل ڈیکر فلائی اوور کی زد میں ’گورنمنٹ اردو لائبریری‘ کی آدھی عمارت بھی آرہی ہے۔ پٹنہ کے اشوک راج پتھ پر قائم یہ اردو لائبریری کبھی بہار کی شان ہوا کرتی تھی۔ اس لائبریری کی بنیاد ڈاکٹر سید محمود (1889۔71) نے رکھی تھی۔ وہی ڈاکٹر سید محمود جو ’آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت‘ کے بانی تھے۔ اس لائبریری کی پہلی چیئرمین لیڈی انیس امام تھیں، جو 1938 سے جون 1979 تک اس عہدے پر فائز رہیں۔

کبھی اس لائبریری کی بھی ملک بھر میں اپنی ایک الگ پہچان تھی، کیونکہ اردو کتابوں اور اخبارات کا جتنا بڑا ذخیرہ یہاں موجود ہے، اتنا شاید ہی اس ملک کی کسی اور لائبریری میں موجود ہو۔ اس لائبریری میں 38 ہزار کتابیں ہیں۔ لیکن اس لائبریری کی کتابیں اب دھول چاٹ رہی ہیں۔ یہی نہیں، اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے غنڈے یہاں کئی بار ہنگامہ کر چکے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اردو کتابوں کو ہٹا کر اسے ہندی لائبریری بنایا جائے۔

سال 2014 سے ہی بدحالی کے دور سے گزر رہی ہے خدا بخش لائبریری

سال 2014 سے ہی خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری بدحالی کے دور سے گزر رہی ہے۔ پورے پانچ سال بعد اس لائبریری کو ایک عدد ڈائریکٹر تو نصیب ہوا، لیکن لائبریری کی رونق دھیرے دھیرے ماند پڑنے لگی ہے۔

بتادیں کہ جون 2014 میں اس لائبریری کے ڈائریکٹر ڈاکٹر امتیاز احمد کی میعاد مکمل ہوئی۔ جولائی 2014 میں ڈائریکٹر کی بحالی کے لیے اشتہار نکلا اور اس وقت کے بہار گورنر (جو بورڈ کے چیئرمین ہوتے ہیں) کی منظوری کے بعد اپریل 2015 میں انٹرویو بھی ہوئے۔ اس کے بعد جون 2015 میں سلیکشن بورڈ کے ذریعہ منتخب شدہ شخص کا نام اپائنٹمنٹ کمیٹی آف انڈیا کی منظوری کے لیے حکومت ہند کی وزارت ثقافت کو بھیج دیا گیا۔ یہاں سے پورے پانچ سال بعد اپریل 2019 میں ڈاکٹر شائستہ بیدار کے نام کا اعلان ہوا۔ اس درمیان یہ لائبریری اپنی عظمت رفتہ پر آنسو بہاتی رہی۔

پٹنہ کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس میں شعبۂ اردو کے صدر صفدر امام قادری ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں بتاتے ہیں کہ لائبریری کی حالت اب بھی کوئی بہتر نہیں کہی جا سکتی اور اس حالت کے لیے لائبریری انتظامیہ ہی زیادہ ذمہ دار ہے۔ یہ جس عظمت کی قابل لائبریری ہے، کیا اس کی عمارت بس اتنی ہی ہونی چاہیے؟ نہ لائبریری انتظامیہ اور نہ ہی حکومت کے پاس اس کا کبھی کوئی ایکسپینشن پلان رہا۔ ایک وقت تھا کہ لائبریری کو گیسٹ ہاؤس کے لیے حکومت زمین دینا چاہتی تھی، لیکن اس وقت کے ڈائریکٹر عابد رضا بیدار نے اسے قبول نہیں کیا اور کیمپس میں ہی گیسٹ ہاؤس بنا دیا۔ لائبریری کی اچھی خاصی زمین پی ایم سی ایچ نے قبضہ کرلی ہے جو کہ خدا بخش خان کی ذاتی ملکیت تھی، لیکن کبھی بھی اس مسئلے پر لائبریری انتظامیہ نے کچھ نہیں کہا۔ لائبریری میں ڈپٹی ڈائریکٹر کا پوسٹ ہوتا تھا، لیکن حکومت کو خوش کرنے کے لیے بیدار صاحب نے یہ پوسٹ بھی ختم کرادیا۔ یہ بھی ایک تاریخی غلطی تھی۔

صفدر امام قادری مزید بتاتے ہیں کہ لائبریری کا ریسرچ سیکشن کام نہیں کر رہا ہے۔ یہاں جونیر و سینئر ریسرچ فیلو کے 12 عہدے تھے جو کہ سب کے سب خالی پڑے ہیں۔ لائبریری کچھ نامور لوگوں کو فنڈ دے کر کتابیں لکھواتی تھی وہ سلسلہ بھی اب بند ہے۔ لائبریری کبھی مطالعات اسلامی، عربی، اردو اور فارسی زبان، مذاہب کے تقابلی مطالعہ، طب، تصوف، عہد وسطیٰ کی تاریخ اور تحریک آزادی ہند سے متعلق ریسرچ کے لیے خدا بخش ایوارڈ بھی دیتی تھی۔ اس کا بھی اب اتا پتا نہیں ہے۔ کبھی بھی اس لائبریری کی شناخت مقامی نہیں رہی بلکہ اسے ہمیشہ بین الاقوامی سطح پر جانا گیا۔ اس کا ہر پروگرام معیاری ہوتا تھا لیکن موجودہ دور میں اسے زمین دوز کر دیا گیا ہے۔

گرانٹ بڑھانے کی بات حکومت کے سامنے رکھی گئی ہے— ڈاکٹر شائستہ بیدار

ہفت روزہ دعوت نے اس سلسلے میں خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری کی ڈائریکٹر ڈاکٹر شائستہ بیدار سے بھی بات چیت کی۔ جب ان میں پوچھا گیا کہ حکومت کی جانب سے ملنے والے گرانٹ یا فنڈ میں کوئی کمی کی گئی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ یہاں پانچ سال سے ڈائریکٹر کا عہدہ خالی رہا ہے جس کی وجہ سے حکومت کے ذریعے ملنے والے گرانٹ کا پورا استعمال نہیں ہو سکا۔ کچھ فنڈس واپس بھی چلے گئے، جس کی وجہ سے اب گرانٹ کم ہیں۔ لیکن میں کوشش کر رہی ہوں کہ لائبریری کے گرانٹ میں اضافہ ہو۔ اس سلسلے میں بورڈ کے چیئرمین اور گورنر صاحب کے درمیان میٹنگ بھی ہوچکی ہے۔ کم از کم 25 فیصد گرانٹ بڑھانے کی بات حکومت کے سامنے رکھی گئی ہے۔ مجھے پوری امید ہے کہ اسے ضرور بڑھایا جائے گا۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ لائبریری کئی پروجکٹس شروع کرنے کی تیاری میں ہے۔ ریسرچ کے کام کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ کئی اہم کتابوں کے ترجمے ہو رہے ہیں۔ ریسرچ فیلوشپ کی شروعات بھی جلد ہی کی جائے گی۔ میرے رہتے اب تک 30 لیکچرز ہو چکے ہیں۔

اس لائبریری سے استفادہ کرنے والوں کی شکایت ہے کہ یہاں انتظامیہ کا رویہ بہتر نہیں ہے۔ دوسری طرف یہ تلخ حقیقیت بھی ہے کہ ہماری قوم میں پڑھنے کا رجحان کم ہوا ہے۔ کاش! قوم کے نوجوانوں کے ساتھ ساتھ لائبریری انتظامیہ خدا بخش خان کی اس کہانی سے کچھ سبق حاصل کرتی۔

خان صاحب! آپ نے یہ کتب خانہ نہیں، بلکہ کتابوں کا قبرستان بنایا ہے!

’ایک بار ایک یورپین کتب خانہ دیکھنے آیا۔ خان بہادر خدا بخش خان نے تمام نادر چیزیں دکھلائیں۔ وہ اتنی اعلیٰ اور بیش قیمت چیزیں دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ لیکن جب دیکھا کہ ریڈنگ روم میں ان کتابوں کو پڑھنے والا ایک بھی نہیں تو خدا بخش خان سے کہا، ’واہ خان بہادر صاحب! آپ نے یہ کتب خانہ نہیں بنایا ہے بلکہ کتابوں کا قبرستان بنایا ہے۔ اگر یورپ میں ایسا کتب خانہ ہوتا تو پڑھنے والوں کا تانتا لگ جاتا۔۔۔ ‘ پیارے دوستو! اگر سوشل میڈیا پر آپ کی اس لائبریری کے لیے مہم ختم ہو چکی ہے تو آپ سے گزارش ہے کہ اس مرتبہ جب آپ پٹنہ جائیں تو اس لائبریری میں چند گھنٹے ضرور گزار آئیں۔

***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 2 مئی تا 8 مئی 2021