قسط ۔4: بھارتی مسلمانوں کا تعلیمی ایجنڈا۔ چند تجاویز
’این آئی او ایس‘ سے الحاق مدارس دینیہ کے طلبہ کو عصری تعلیم سے جوڑنے کی ایک عملی شکل
سید تنویر احمد
(ڈائریکٹر ہولسٹک ایجوکیشن بورڈ)
’ او بی ای‘ اسکیم کے تحت طلبہ کو اسکول یا کالج میں باقاعدہ تعلیم جارے رکھنے کا موقع
مدارس دینیہ کے طلبہ کے لئے عصری تعلیم کے مراکز:
ہمارے ملک میں دینی مکاتب و مدارس کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ الحمدللہ ان کی خدمات بھی لائق ستائش ہیں، جہاں یہ دین کے تحفظ اور ترویج کا ذریعہ ہیں وہیں ملک میں خواندگی کی شرح میں ان کے ذریعہ اضافہ ہورہا ہے اور ملک کی تعمیر و ترقی میں یہ اپنا رول ادا کررہے ہیں۔ ادھر کچھ عرصے سے دین کے یہ قلعے کچھ خارجی دباؤ اور مسائل کا شکار ہیں۔ ان مسائل میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ان اداروں کو عصری علوم سے کس طرح جوڑا جائے۔ عصری علوم سے ان اداروں کو جوڑنے کی مختلف شکلیں ہوسکتی ہیں۔ ان میں سے ایک آسان اور قابل عمل شکل ان اداروں کا ’این آئی او ایس ( Naional institute of open schooling ) سے الحاق بھی ہے۔
یہ مرکزی حکومت کی جانب سے قائم کردہ ایک بورڈ ہے جو ابتدائی تعلیم
( کلاس سوم، کلاس پنجم اور کلاس ہشتم) دسویں، بارہویں اور کچھ ڈپلوما کورسوں کو فاصلاتی نظام کے تحت چلاتا ہے۔ اس کے ذریعہ دی جانے والی اسناد چاہے وہ دسویں جماعت کی ہوں یا بارہویں جماعت کی یا ڈپلوما کورسوں کی یا ابتدائی کلاسوں کی، ان تمام اسناد کو ملک کے تمام تعلیمی بورڈ تسلیم کرتے ہیں۔ اس کے ذریعہ بارہویں جماعت میں کامیاب ہونے والے طلبہ نیٹ (NEET) اور دیگر مسابقتی امتحانات میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اس ادارے کا صدر دفتر دلی کے علاقہ نوئیڈا میں واقع ہے جبکہ ریاستی دفاتر متعلقہ ریاستوں کے صدر مقام پر قائم ہیں۔ یہ ادارہ مرکزی وزیر تعلیم کی راست نگرانی میں کام کرتا ہے۔ اس سے حاصل شدہ سرٹیفکیٹوں کے ذریعہ سرکاری نوکریاں اور محکمہ دفاع کے مختلف شعبوں میں بھی داخلہ لیا جاسکتا ہے۔
اس بورڈ کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ یہ بارہویں اور دسویں کے امتحانات کے علاوہ ’او بی ای‘ (Open basic education) اسکیم کے تحت درجہ سوم، پنجم اور ہشتم کے امتحانات بھی منعقد کرتا ہے۔ ان امتحانات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد طلبا اگر چاہے تو اپنی تعلیم ریگولر اسکول یا کالج میں جاری رکھ سکتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی طالب علم ’او بی ای‘ اسکیم کے تحت درجہ سوم کا امتحان دیتا ہے اور اس میں کامیابی حاصل کرلیتا ہے تو وہ کسی بھی عام اسکول میں چوتھی جماعت (Class IV) میں داخلہ لے سکتا ہے اور اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکتا ہے۔ اسی طرح اگر ایک طالب علم’ او بی ای‘ اسکیم کے تحت جماعت پنجم (Class V) کا امتحان دیتا ہے اور وہ کامیاب ہوجاتا ہے تو وہ کسی بھی عام اسکول میں درجہ ششم (Class VI) میں داخلہ لے سکتا ہے۔ اسی طرح جماعت ہشتم (Class VIII) کا امتحان دینے والے طالب علم کو یہ موقع حاصل رہے گا کہ وہ درجہ نہم (Class IX) میں داخلہ لے۔
مضامین کا انتخاب:
اوپن بیسک ایجوکیشن یعنی درجہ سوم (Class III) درجہ پنجم (Class V) اور درجہ ہشتم (Class VIII) کے امتحانات کے لیے ضروری مضامین ’این آئی او ایس’ طے کرتی ہے۔ اس میں دو زبانوں کا انتخاب کرنا ہوتا ہے اور تین مضامین ہوتے ہیں۔ تین مضامین میں ایک سائنس، دوسرا ریاضی اور تیسرا مضمون ’ای وی ایس‘ یعنی انوائرنمنٹل اسٹڈیز (ماحولیات کی تعلیم) ضروری مضامین ہیں۔
یہ تو رہا معاملہ تیسری، پانچویں اور آٹھویں جماعتوں کے امتحانات کا، دسویں اور بارہویں جماعتوں کے لیے طلبہ کو تقریباً 35 مضامین میں سے پانچ مضامین کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ ان پانچ مضامین میں سے زیادہ سے زیادہ دو زبانوں کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔
دینی مدارس کے طلبہ کے لیے مندرجہ ذیل مضامین موزوں ہوسکتے ہیں۔’شاہین گروپ‘ کی طرف سے چلائے جانے والے حفظ (پلس کورس) میں اکثر مراکز میں انہی پانچ مضامین کو پڑھایا جاتا ہے۔ (1) زبان اردو (2) زبان انگریزی (3) سائنس (4) ریاضی (5) ڈیٹا انٹری آپریٹر (کمپیوٹر کی بنیادی تعلیم)۔
یہ مضامین دینی مدارس کے طلبا بآسانی پڑھ لیتے ہیں۔ انہیں زیادہ محنت کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ہمارا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ دینی مدارس سے جو طلبہ حفظ کر کے ’شاہین حفظ پلس کورس‘ میں داخلہ لیتے ہیں، وہ بآسانی ایک سال میں مندرجہ بالا پانچ مضامین کی تیاری کرکے امتحان دیتے ہیں اور اعلیٰ نمبرات کے ساتھ کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ ان مضامین میں سہولت یہ ہے کہ دینی مدارس سے فارغ طلبہ اردو جانتے ہی ہیں، اردو کے علاوہ اگر شعبہ حفظ میں ہیں تو دیگر مضامین کی معلومات کم ہوتی ہیں تاہم ان کا حافظہ بہتر ہونے اور زندگی میں ڈسپلن ہونے کی وجہ سے وہ سخت محنت کرتے ہیں اور ان مضامین کو سیکھ لیتے ہیں۔ وہ طلبہ جو حفظ کے بجائے عالمیت کا کورس کرتے ہیں۔ اس شعبے میں اردو کے علاوہ بنیادی انگریزی اور ریاضی کا علم رکھتے ہیں۔
آج بیشتر بڑے مدارس میں کمپیوٹر کی بنیادی تعلیم دی جارہی ہے۔ اگر کسی مدرسے میں کمپیوٹر کی تعلیم کا انتظام نہیں ہے تو یوں بھی کمپیوٹر کی آج بنیادی معلومات رکھنا ضروری ہے۔ جس طرح آج سے پہلے تعلیم یافتہ ہونے کا مطلب یہ تھا کہ آپ کو قلم پکڑنا اور لکھنا آئے، اسی طرح فی زمانہ اہل علم ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کو کمپیوٹر چلانا آئے۔ اس طرح طلبا دو زبانوں کے علاوہ ان مضامین کو آسانی سے پڑھ لیتے ہیں۔
دسویں اور بارہویں کے امتحانات کے لیے کم سے کم پانچ مضامین کا انتخاب ضروری ہے۔لیکن کوئی طالب علم پانچ سے زائد مضامین لینا چاہتا ہے تو وہ ایسا کرسکتا ہے۔ اس لیے کہ میڈیکل کے لیے تو فزیکس، کیمسٹری اور بائیولوجی مضامین کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ انجینئرنگ کے لیے ریاضی کی اور بعض کورسوں کے لیے کمپیوٹر سائنس کا مضمون لینا ہوتا ہے، لہٰذا اگر ایک طالب علم میڈیکل اور انجینئرنگ دونوں کا ارادہ رکھتا ہے تو وہ فزیکس، کیمسٹری اور بائیولوجی کے علاوہ دو زائد مضامین، ریاضی اور کمپیوٹر سائنس بھی لے سکتا ہے۔ اس طرح اگر اس طالب علم کو میڈیکل میں داخلہ نہیں ملتا ہے تو وہ انجینئرنگ بھی کرسکتا ہے۔
اگر کوئی طالب علم سائنس کے میدان کے بجائے آرٹس یا کامرس کے میدان کو منتخب کرنا چاہتا ہے تو اسی اعتبار سے وہ مضامین کا انتخاب کرسکتا ہے۔
تعلیمی زبان :
’این آئی او ایس‘ تین زبانوں میں تعلیم کا انتظام کرتا ہے۔ انگریزی، ہندی اور اردو۔ دینی مدارس کے طلبہ میٹرک تک کے امتحانات اردو زبان میں لکھ سکتے ہیں۔ جن مضامین کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، ان مضامین کو اردو میں پڑھایا جاسکتا ہے۔ اردو میں ان کئی کتابیں دستیاب ہیں، اردو میں امتحان دیا جاسکتا ہے۔ بعض اداروں میں اس طرح کا انتظام دستیاب ہے، ان اداروں میں میٹرک کا امتحان اردو زبان میں دیا جاتا ہے لیکن ہاں، اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی پر بھی خاصی توجہ دی جاتی ہے۔ طلبہ میٹرک کا امتحان دینے کے بعد گیارہویں اور بارہویں کے امتحانات انگریزی زبان میں دیتے ہیں۔جب وہ بارہویں کا امتحان انگریزی زبان میں دیتے ہیں تو انہیں گریجویشن کی تعلیم کسی بھی شعبے میں حاصل کرنے میں دشواری نہیں ہوتی ہے۔
بارہویں کی تعلیم:
میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد طلبہ بارہویں کا امتحان دے سکتے ہیں جسے ’این آئی او ایس‘ کی زبان میں ’سینئر سیکنڈری ایگزام‘ کہا جاتا ہے۔ دراصل این آئی او ایس ‘ میں گیارہویں نہیں ہوتی ہے بلکہ میٹرک کا امتحان دینے کے بعد دو سال کے وقفے سے بارہویں کا امتحان دیا جاسکتا ہے۔ اس کا دوسرا طریقہ یہ بھی ہے کہ طلبا میٹرک کے ایک سال بعد دو مضامین کے امتحان دیں۔ یعنی پانچ میں سے دو مضامین، اردو اور کمپیوٹر سائنس۔ بقیہ تین مضامین کا امتحان یعنی ریاضی، سائنس اور انگریزی کا امتحان دو سال بعد۔ یہ ایک طریقہ ہے جسے آسانی کی خاطر اختیار کیا جاسکتا ہے۔
عمر کی حد:
’این آئی او ایس‘ کے امتحانات کی بنیاد عمر ہوتی ہے۔ یہ عمر اتنی ہی ہے، جو ’سی بی ایس ای‘ اپنے امتحانات کے لیے طے کرتی ہے۔ عمر کی شرائط مندرجہ ذیل ہیں:
’اوبی ای‘ درجہ سوم کے امتحان کے لیے 8 سال سے زیادہ کی عمر ہونی چاہیے۔ اسی طرح پانچویں کے امتحان کے لیے 10 سال سے زیادہ کی عمر ہونی چاہیے۔ آٹھویں جماعت کے امتحان کے لیے 13 سال سے زیادہ کی عمر ہونی چاہیے۔ میٹرک کے امتحان کے لیے 15 سال کی عمر مکمل ہونی چاہیے اور بارہویں جماعت کے امتحان کے لیے 18 سال مکمل ہونے چاہیے۔ واضح رہے کہ یہ مطلوبہ کم سے کم عمر کی حد ہے۔
دینی مدارس میں اسے کیسے جاری کریں:
(1) شعبہ حفظ۔ شعبہ حفظ میں ’این آئی او ایس‘ کے امتحان کو جاری کرنے کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ دوران حفظ طلبہ کو زبان اردو اور زبان انگریزی یا ریاضی کی بہت بنیادی تعلیم روزانہ یا ہفتہ میں چند دنوں آدھے گھنٹے سے ایک گھنٹے تک دی جا سکتی ہے۔ عموماً طلبا 14 سال کی عمر میں حفظ مکمل کرلیتے ہیں۔ بعض کا دور بھی مکمل ہو جاتا ہے۔ واضح رہے کہ ’این آئی او ایس‘ اسکیم کے تحت درجہ سوم، پنجم، ہشتم اور میٹرک کے امتحانات عمر کی بنیاد پر لیے جاسکتے ہیں۔ میٹرک کا امتحان دینے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ طالب علم نے ’این آئی او ایس‘ کی جماعت ہشتم کا امتحان پاس کیا ہو۔ لیکن بارہویں جماعت کے لیے یہ لازم ہے کہ طالب علم نے میٹرک پاس کیا ہو، چاہے وہ ’این آئی او ایس‘ سے ہو یا کسی بھی حکومت کے تسلیم شدہ بورڈ سے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ میٹرک پاس کرنے کے بعد چاہے طالب علم کی عمر کتنی ہی کیوں نہ ہو، اسے ایک سال کا وقفہ دینا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ’این آئی او ایس‘ میں گیارہویں نہیں ہے بلکہ راست طالب علم بارہویں کا امتحان دیتا ہے۔
رہے وہ طلبہ جو حفظ مکمل کرچکے ہیں، انہیں وہ پانچوں مضامین پڑھانے کا انتظام کیا جائے جنہیں اوپر بیان کیا گیا ہے۔ ان مضامین کو پڑھانے کے لیے ٹائم ٹیبل کچھ اس طرح ہوسکتا ہے :
یومیہ ٹائم ٹیبل کا ایک نمونہ درج ذیل ہے:
یومیہ ڈیڑھ گھنٹہ ریاضی، ایک گھنٹہ سائنس، ایک گھنٹہ کمپیوٹر سائنس، اور ایک گھنٹہ انگریزی، آدھے گھنٹے سے پون گھنٹہ اردو۔ کل ملا کر آپ روزانہ آٹھ گھنٹے تک تدریسی عمل جاری رکھیں۔ آٹھ گھنٹوں میں سے طلبہ مدرسے میں کم سے کم ایک سے دو گھنٹے سیلف اسٹڈی (ذاتی مطالعہ) کریں اور ہوم ورک وغیرہ مکمل کریں۔ اس پروگرام کی جو کلاسیں ہوں گی، وہ عام کلاسوں کی طرح نہیں ہوں گی بلکہ طلبہ کی استعداد کے مطابق ان کے گروپ بنائے جائیں گے۔ ہر گروپ میں چھ تا آٹھ طلبہ ہوں۔ ان کے درمیان استاد بیٹھیں اور ہر طالب علم کی استعداد کے مطابق سبق پڑھایا جائے۔ اس سبق کو جب تک تمام طلبہ مکمل نہ کرلیں آگے کا سبق شروع نہیں کیا جائے۔
عالمیت کورس میں’ این آئی او ایس‘ کا نظام:
عالمیت کورس میں طلبا کو مختلف مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ عموماً عالمیت میں داخلہ 13 یا 14 سال ہی میں لیا جاتا ہے۔ یہاں پر یا تو مضامین تمام کے تمام ایک ساتھ پڑھائے جائیں یا پھر 14 سال کی عمر سے پڑھانا شروع کریں۔ اس کے تین ماڈل ہو سکتے ہیں۔ (1) وہ طلبہ جو 14 سال کی عمر کے ہیں، انہیں عالمیت کے مضامین کے ساتھ ساتھ ان مندرجہ بالا پانچ مضامین میں سے ابتدا میں دو مضامین پڑھائیں جیسے اردو اور کمپیوٹر سائنس۔ اور 15 سال کی عمر میں انہیں دو مضامین کے امتحانات دینے کے لیے تیار کریں۔ (2) دوسرے سال یعنی 16 سال کی عمر میں طالب علم تین مضامین کے امتحانات دیں۔ جیسے ریاضی، سائنس اور انگریزی۔ (3) تیسرا طریقہ یہ بھی ہے کہ اگر طالب علم سمجھ رہے ہیں کہ بوجھ زیادہ ہے تو پھر تیسرے سال بھی ان امتحانات کو دیا جاسکتا ہے اور 17 سال کی عمر میں طالب علم میٹرک پاس کر سکتا ہے لیکن ہمارا یہ تجربہ ہے کہ طلبا کو اگر تھوڑی سی محنت کرادی جائے تو 16 سال کی عمر میں وہ میٹرک پاس کرلیں گے۔
(جاری)
(قارئین سے گزارش ہے کہ اس موضوع پر تجاویز و مشورے مندرجہ ذیل وہاٹس ایپ نمبر پر ارسال کریں تاکہ مضمون کی اگلی قسط میں انہیں شامل کیا جا سکے ۔
وہاٹس ایپ نمبریہ ہے: 9844158731)
***
***
آج بیشتر بڑے مدارس میں کمپیوٹر کی بنیادی تعلیم دی جارہی ہے۔ اگر کسی مدرسے میں کمپیوٹر کی تعلیم کاانتظام نہیں ہے تو یوں بھی کمپیوٹر کی آج بنیادی معلومات رکھنا ضروری ہے۔ جس طرح آج سے پہلے تعلیم یافتہ ہونے کا مطلب یہ تھا کہ آپ کو قلم پکڑنا اور لکھنا آئے، اسی طرح فی زمانہ اہل علم ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کو کمپیوٹر چلانا آئے۔ اس طرح طلبا دو زبانوں کے علاوہ ان مضامین کو آسانی سے پڑھ لیتے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 مئی تا 03 جون 2023