قسط (2):مسلمانوں میں مثبت، تعمیری اورمعتدل اسلامی سوچ کی آبیاری
جماعت اسلامی ہند نے فرقوں میں بٹی ہوئی امت کو قرآن کی بنیاد پر اتحاد کی دعوت دی
تحریکی جدوجہد کے 75 سال کے موقع پر امیرجماعت اسلامی ہند کا خطاب
دین پر اعتماد بحال کرنے کے ساتھ جماعت نے ان لوگوں کو ملک اور امت کی تعمیر و ترقی کے مثبت عملی پروگرام فراہم کیے۔جماعت نے ان کو یہ بات سمجھائی کہ مسلمان کی حیثیت سے ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کی دعوت کا فریضہ انجام دیں اور اسلام کی رہنمائی کے مطابق انسانوں کے مسائل حل کرنے اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم کردار ادا کریں۔ یہ ان کا دینی فریضہ ہے اور ہندوستان کا جمہوری معاشرہ اس تعمیری جدوجہد کے مواقع اور آزادی انہیں فراہم کرتا ہے۔ایک لمبے عرصہ تک ملک بھر میں جماعت کے اسٹڈی سرکلوں اور اجتماعات نے ایک پوری نسل کی ذہن سازی کی اور ان خطوط پر مثبت، تعمیری اور حرکیاتی سوچ ان کے اندر پروان چڑھائی۔ آج ملک کے تمام شہروں میں ایسے ہزاروں تعلیم یافتہ لوگ ملیں گے جو تعلیم، دعوت، سیاست، سماجی خدمت وغیرہ میدانوں میں گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کا جماعت سے کوئی رسمی تعلق نہیں ہے لیکن ان کی تربیت اور ان کی سوچ پر جماعت کی فکر کے گہرے اثرات ہیں۔ تعلیم کے میدان میں دینی و دنیوی تعلیم کی تقسیم کا خاتمہ اور دین کی رہنمائی کے مطابق جدید عصری تعلیم کا انتظام، معیشت کے میدان میں سود سے پاک قرضوں کی فراہمی، سیاست میں اخلاقی قدروں اور امن و انصاف کے اسلامی اصولوں کی ترویج، غیر مسلم بھائیوں سے ربط و تعلق اور ان میں اسلام کی دعوت کا کام، جدید طریقوں کے مطابق اسلامی تحقیق اور جدید اسلوب میں اسلامی لٹریچر کی تیاری، اسلامی اصولوں کی بنیاد پر ملک و سماج کے مسائل کے حل کے لیے ایک متبادل ڈسکورس کی تشکیل، وغیرہ جیسے دسیوں امور ہیں جن کے سلسلہ میں جماعت کے خیالات کسی زمانہ میں، اجنبی سمجھے جاتے تھے۔جماعت نے ایک پوری نسل کی تربیت کی اور اس تربیت کی بنیاد پر نئے خواب اور نئی آرزووں کو پروان چڑھایا۔ آج یہ نسل ملک کے مختلف گوشوں میں ان سب میدانوں میں گراں قدر خدمات انجام دے رہی ہے۔ اور یہ خواب اب پوری امت کے خواب ہیں اور امت کے تمام ہی طبقات ان خطوط پر سرگرم عمل ہیں۔الحمد للہ علیٰ ذالک۔
جماعت کی ایک بڑی خدمت یہ ہے کہ اس نے ہندوستانی مسلمانوں میں مثبت، تعمیری اور اعتدال پر مبنی اسلامی سوچ کو پروان چڑھایا۔ حالات کی سختی قوموں میں انتہاپسندانہ رویے پیدا کرتی ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہر حالت میں اہل اسلام کو عدل و اعتدال پر قائم رہنے کا حکم دیا ہے۔ قُلْ أَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ ۖ وَأَقِيمُوا وُجُوهَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۚ (]اے محمد، ان سے کہو، میرے رب نے تو راستی اور انصاف کا حکم دیا ہے اور اس کا حکم تو یہ ہے کہ ہر عبادت میں اپنا رخ ٹھیک رکھو اور اسی کو پکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص رکھ کر) ہندوستانی مسلمانوں کو آزادی کے بعد سخت حالات کے مرحلوں سے گزرنا پڑا۔ تقسیم کا درد سہنا پڑا۔ فسادات کے پیہم سلسلوں کی مار برداشت کرنی پڑی۔ ان کا سماجی مقام و مرتبہ تیزی سے گراوٹ کا شکار ہوا۔بابری مسجد کا سانحہ انہوں نے دیکھا۔ دہشت گردی کے نام پر طرح طرح کی دہشت گردیوں کے وہ شکار بنائے گئے۔ لیکن ان سب حالات کے باوجود انہوں نے مجموعی طور پر اعتدال و توازن کی شاہراہ سے انحراف نہیں کیا۔اس میں دیگر لوگوں اور دیگر عوامل کے ساتھ جماعت کی صالح فکر کا بھی بڑا رول ہے۔ جماعت نے ملک کے تئیں ایجابی اورمثبت رویہ اختیار کرنے کی فکر عام کی۔ ایسے اقدامات کیے (جن کی تفصیل آگے آرہی ہے) جن سے ایک طرف مثبت اور ایجابی رویے کی طرف رہنمائی بھی ہوتی ہے، اور دوسری طرف منفی، انتہا پسندانہ اور تخریبی رجحانات کی حوصلہ شکنی بھی ہوتی ہے۔ آزادی کے فوری بعد جماعت نے جو پالیسی و پروگرام تشکیل دیا اس میں فرقہ پرستی کے خاتمہ کو ایک اہم ہدف کے طور پر شامل رکھا، اور جہاں اکثریتی فرقہ پرستی کے خاتمہ کو اپنا ہدف قرار دیا وہیں خود مسلمانوں میں موجود ”قوم پرستانہ“ (یعنی فرقہ پرستانہ) رجحانات کے خاتمہ کو اپنا ایک اہم پروگرام قرار دیا۵؎۔ آج بھی عالمی سطح پر موجود انتہا پسندانہ رجحانات سے بڑی حد تک ہندوستانی مسلمان محفوظ ہیں۔ اس بات کو ارباب حکومت بھی تسلیم کرتے ہیں۔
اس مثبت اور معتدل سوچ کا ایک اہم دینی پہلو یہ ہے کہ جماعت نے امت کے رشتہ کو قرآن سے مضبوط کرنے کی شعوری کوشش کی اور اس میں اسے بڑی کا میابی بھی ملی۔ مسلکوں اور فرقوں میں بٹی ہوئی امت کو اس نے قرآن کی بنیاد پر متحد ہونے کی دعوت دی اور یہ یقین پیدا کیا کہ مسلکی و نظریاتی اختلافات، اتحاد امت کے راستے میں رکاوٹ نہیں ہیں۔اس کے لیے جماعت نے جگہ جگہ تعلیم یافتہ مسلمانوں کے قرآن فہمی کے حلقے شروع کیے۔متعدد ترجمے اور تفاسیر شائع کیں۔ تمام علاقائی زبانوں میں قرآن کے تراجم شائع کیے۔ آج قرآن فہمی کی یہ تحریک بھی تمام مسالک اور مکاتب فکر کی تحریک بن چکی ہے۔
قرآن فہمی کی مثبت دعوت کے ساتھ، جماعت نے یہ سوچ بھی پیدا کرنے کی کوشش کی کہ مسلمانوں کے مسلکی و دیگر مذہبی اختلافات کی نوعیت جزوی اور فروعی ہے۔ اور ان اختلافات کے باوجود دین کے متفق علیہ حصہ کی بنیاد پر (جو بہت بڑا حصہ ہے) وہ متحد ہوسکتے ہیں اور مل جل کر اپنی منصبی ذمہ داریاں ادا کرسکتے ہیں۔خود جماعت کی تنظیم میں تمام اہم مسالک کے لوگ موجود ہیں اور اپنے اپنے مسلک پر رہتے ہوئے، ایک جماعت اور ایک نظم کا حصہ ہیں۔ اس عملی مظاہرہ کے علاوہ جماعت نے امت کی تمام جماعتوں اور تنطیموں کو مختلف مشترکہ پلیٹ فارموں پر ایک جگہ لانے میں اہم اور کلیدی کردار ادا کیا۔
جماعت نے امت میں تنظیم سازی اور منظم اجتماعی زندگی کا شعور اور سلیقہ عام کیا۔ ملک کے اکثر حصوں میں تنظیم اور جماعت کا مطلب کسی کرشماتی قائد یا مرشد کے بے زبان مریدوں اور متبعین کا مجموعہ ہے۔قیادتیں عام طور پر موروثی ہوتی ہیں اور فیصلہ سازی کی مجالس برائے نام ہوتی ہیں۔ ایسے ماحول میں جماعت نے اصولوں اور تحریری دستور کی بنیاد پر ادارہ سازی کے رجحان کو نہ صرف قائم کیا بلکہ مسلسل کئی دہوں سے اسے کامیابی کے ساتھ نبھا بھی رہی ہے۔ ستر برسوں سے جماعت میں انتہائی سخت پابندی کے ساتھ انتخابات بھی ہوتے رہے ہیں اور اس کے تمام تنظیمی ادارے، اس کے دستور کے مطابق کارگر رہے ہیں اور کہیں بھی موروثی اور خاندانی قیادتوں کا کوئی شائبہ تک پیدا نہیں ہوا ہے۔ جماعت میں بہت سے مسائل پر اختلافات بھی پیدا ہوئے لیکن اس کے مضبوط شورائی نظام نے اور پائیدار تنظیمی روایات نے ان اختلافات کو حل کرنے کی غیر معمولی صلاحیت کا مظاہر کیا اور ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ میں بلکہ شاید ہندستان کی حالیہ تاریخ میں یہ واحد جماعت ہے جو تقسیم اور ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ رہی۔
ادارہ سازی کی اس صلاحیت اور مستحکم جمہوری روایات کا جماعت نے صرف اپنی تنظیم کی حد تک ہی مظاہرہ نہیں کیا بلکہ اس کے وابستگان کے زیر انتظام اور اس کے زیر اثر جو سیکڑوں ادارے اور دیگر تنظیمیں ملک بھر میں کارگر ہیں ان میں بھی اس اسپرٹ کا مظاہر ہوتا ہے۔اور ہر جگہ یہ ادارے اپنے اپنے دساتیر کے مطابق کام کرتے ہیں۔ انتخابات میں آسانی سے قیادتیں بدل جاتی ہیں۔یہ شورائی مزاج صرف انتخابات اور قیادت کی تبدیلی کے عمل تک محدود نہیں ہے بلکہ آزادانہ احتساب، تنقید و جائزہ کے باقاعدہ فورمس اور ان کی روایات، فیصلہ سازی کے جمہوری طریقے وغیرہ جیسے رجحانات جماعت نے قائم بھی کئے اور ایک لمبے عرصہ سے ان کو نبھا بھی رہی ہے۔یہ دعوی یقیناً مبالغہ آمیر نہیں ہوگا کہ مثبت جمہوری روایات کے اہتمام میں جماعت نہ صرف تمام دیگر مسلم جماعتوں کے مقابلہ میں بلکہ ملک کی اکثر سیاسی و سماجی تنظیموں کے مقابلہ میں بھی زیادہ کامیاب ہے، اور جس جمہوری طریقہ سے یہاں انتخابات ہوتے ہیں جس آسانی سے قیادتیں تبدیل ہوتی ہیں اور جس شوارئی اسپرٹ کے ساتھ فیصلے کیے جاتے ہیں، اس کی نظیر شاید ہی ملک کے کسی اجتماعی نظام میں ملے۔(جاری)
***
***
آزادی کے فوری بعد جماعت نے جو پالیسی و پروگرام تشکیل دیا اس میں فرقہ پرستی کے خاتمہ کو ایک اہم ہدف کے طور پر شامل رکھا، اور جہاں اکثریتی فرقہ پرستی کے خاتمہ کو اپنا ہدف قرار دیا وہیں خود مسلمانوں میں موجود ”قوم پرستانہ“ (یعنی فرقہ پرستانہ) رجحانات کے خاتمہ کو اپنا ایک اہم پروگرام قرار دیا۵؎۔ آج بھی عالمی سطح پر موجود انتہا پسندانہ رجحانات سے بڑی حد تک ہندوستانی مسلمان محفوظ ہیں۔ اس بات کو ارباب حکومت بھی تسلیم کرتے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 جنوری تا 07 جنوری 2023