کھیل اور کھلاڑی

ٹینا رحیمی، ایک باحجاب مسلم باکسر

پیرس اولمپکس 2024 میں آسٹریلیا کی نمائندگی کا موقع
’’آپ کیا کرنا چاہتی ہیں اس کا فیصلہ خود کریں، حجاب رکاوٹ نہیں ہے‘‘
27 سالہ باکسر ٹینا رحیمی 2022 میں دولت مشترکہ کھیلوں میں حصہ لینے والی آسٹریلیا کی پہلی مسلم خاتون باکسر تھیں۔ اب وہ پیرس اولمپک 2024 میں آسٹریلیا کی نمائندگی کے لیے منتخب ہونے والی اولین خاتون مسلم باکسر ہیں۔
جب رحیمی نے برطانیہ میں کامن ویلتھ گیمز میں حصہ لیا تو وہ ایسا کرنے والی پہلی باحجاب آسٹریلوی مسلمان باکسر تھیں۔ انہوں نے فیدر ویٹ ڈویژن (57 کلوگرام) میں کانسے کا تمغہ جیتا تھا۔ کامن ویلتھ گیمز کے بعد انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا ’’اپنے ملک اور اپنی کمیونٹی کی نمائندگی کرنا حیرت انگیز ہوتا ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا ’’میں امید کرتی ہوں کہ میں وہاں موجود نوجوانوں کو اور ہر ایک کو دکھاؤں گی کہ حجاب میں آپ کیسی نظر آتی ہیں، آپ کو کیسا لباس پہننا ہے، حجاب کوئی روکاوٹ نہیں ہے ۔ آپ سب کچھ کرسکتی ہیں‘‘۔
ٹینا جب باکسنگ کرتی ہیں تو سر کی حفاظت کے لیے ہیڈگیر استعمال کرتی ہیں اور ساتھ ہی لانبے آستینوں کا مکمل سائز والا حجاب زیب تن کرتی ہیں۔ 2017 سے پہلے جب ٹینا نے باکسنگ شروع کی تو خواتین مسلم باکسرز پر ملبوسات کی پابندیاں لگائی گئیں تھیں۔ 2019 میں انٹرنیشنل باکسنگ ایسوسی ایشن (AIBA) نے اپنے قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے مسلم باکسرز کو رنگ میں حجاب اور پورے جسم کو ڈھانپنے کی اجازت دی۔
فی الحال رحیمی پیرس اولمپکس پر توجہ مرکوز کر رہی ہیں۔ کھیل کا یہ عالمی میلہ جولائی 2024 میں منعقد ہونے جارہا ہے۔ انسٹاگرام پر انہوں نے مائیک ٹائسن کے ایک مقولے کے ساتھ اپنی فائٹنگ کا ایک کلپ پوسٹ کیا ہے: ’’عظمت کی چاہ دنیا کی سب سے بڑی دوا ہے۔‘‘
اپنے پوسٹ میں انہوں نے کہا ’’میں کبھی بھی اپنی کامیابیوں سے مطمئن نہیں ہوں۔ میرے لیے محض یہ بات اطمینان کا باعث نہیں ہے کہ فی الحال میرے پاس اچھی چیز ہے کیونکہ میں نے اولمپکس کے لیے کوالیفائی کیا ہے۔ یہ چیز میرے لیے کوئی بہانہ نہیں ہے کہ میں اسی پر مطمئن ہوکر بیٹھ جاوں‘‘۔
’’جی ہاں، میں واضح طور پر اپنے جسم کو اس کی ضرورت کے مطابق تھوڑا سا آرام دے رہی ہوں۔ لیکن جانتی ہوں کہ بے خوف ہوکر اولمپکس میں حصہ لینے کے لیے میرے پاس صرف سات آٹھ مہینے ہی رہ گئے ہیں‘‘۔
ٹینا رحیمی کہتی ہیں ’’آپ کبھی بھی کسی کو یہ محسوس ہونے نہ دیں کہ آپ کافی اچھے یا ان چیزوں کو حاصل کرنے کے قابل نہیں ہیں جنہیں حاصل کرنے کی چاہ آپ کے اندر سب سے زیادہ ہے۔‘‘
ایک مسلمان خاتون کے طور پر اور وہ بھی حجاب پہن کر کھیلنا ان کے لیے کتنا مشکل تھا، اس تعلق سے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا ’’پہلے تو یہ کافی مشکل تھا کیونکہ میں واقعی پر اعتماد خاتون نہیں تھی، میں نے سوچا کہ لوگ میرا فیصلہ کریں گے۔ خاص طور پر حجاب پہننے کے بارے میں۔ جس وقت میں نے لڑنا شروع کیا تھا اس وقت مسلمانوں کے تعلق سے بہت نفرت تھی۔ میں نے اسے سڈنی لنڈت کیفے سیج کے وقت سے پہننا شروع کر دیا تھا۔ مجھے سڑک پر کچھ نفرت انگیز فقرے سننے پڑے تھے‘‘۔
انہوں نے مزید کہا ’’جب ایسا ہوا تو مجھے لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنے میں مشکل پیش آئی کیونکہ مجھے لگتا تھا کہ وہ ہمیشہ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ باکسنگ میں جانا واقعی مشکل تھا، خاص طور پر اقلیت ہونے کی وجہ سے آپ کو بہت سے باکسرز حجاب پہنے ہوئے نظر نہیں آتے۔ حجاب پہننے کے اپنے فیصلے کی وجہ سے مجھے بہت زیادہ نفرت اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ مشکل تھا، لیکن اب میرا اعتماد بڑھ گیا ہے کیونکہ میں بات جان چکی ہوں کہ ہر کوئی آپ کو آپ کا لباس دیکھ کر نہیں پرکھتا۔ مجھے جو کرنا پسند ہے میں وہ کررہی ہوں اور کھیل میں حصہ لیتی ہوں۔ آپ سے دنیا بھر کے لوگوں کو نفرت ہوسکتی ہے لیکن اسے نظر انداز کرنا پڑتا ہے۔ عام طور پر خواتین باکسرس کے تئیں بہت زیادہ نفرت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ یہ دنیا کا مشکل ترین کھیل ہے۔ بہت سارے مرد ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمیں باورچی خانے میں ہونا چاہیے۔
(بشکریہ ریڈیئنس ویوز ویکلی)

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 مارچ تا 9 مارچ 2024