خواتین سے تعصب ایک خاندانی مسئلہ

سیاسی و معاشرتی حقوق کے لیے مصری خواتین کی کامیاب جدوجہد طبقہ نسواں کے لیے ایک مثال

ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی
( مضمون نگار عین شمس یونیورسٹی، قاہرہ میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں)

مصر میں ہرسال سولہ مارچ کو مصری خواتین کا دن منایا جاتا ہے
دنیا نے اس سال بھی آٹھ مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا۔ اس دن کا مقصد صنفی مساوات کو حاصل کرنا، مختلف شعبوں میں خواتین کو بااختیار بنانا، ان کے خوابوں، ان کی تمناوں اور آرزووں کو پورا کرنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کرنا ک، دنیا بھر کے معاشروں کو خواتین کے مضبوط اور بااثر حالات کی یاد دلانا، ان کی کامیابیوں کا جشن منانا اور ان کے مسائل پر توجہ دے کر صنفی مساوات کی حمایت کرنا ہے۔ ہم خواتین کی بہت سی کامیاب مثالیں دیکھتے ہیں جنہوں نے تعصب اور تفریق کے دقیانوسی تصورات کو توڑا ہے۔ تمام معاملات بالخصوص اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے انہوں نے جو جہدوجہد کی ہے وہ قابل تعریف ہے۔ کام کرنے کا حق، تعلیم، صحت، معاشی برابری جیسے شعبوں میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان کا عزم اور ان کا کردار کمال کا ہے۔
مصر کی تاریخ مختلف شعبوں میں خواتین کے حیرت انگیز کارناموں سے بھری پڑی ہے۔ عہد قدیم اور قرون وسطیٰ سے لے کر جدید دور تک، مصر کے معاشرے میں بہت سی کامیاب خواتین کی زندگی ایک نمونہ ہے۔ بہت سی با صلاحیت مصری خواتین نے کئی شعبوں میں نمایاں اور باوقار کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جیسے ہی انہیں مواقع میسر آئے، انہوں نے اپنے پورے حوصلے اور نہ ختم ہونے والے عزم کے ساتھ اپنی موجودگی کا ثبوت دیا اور مقامی اور بین الاقوامی سطح تعلیم، صحافت، سیاست، ہوا بازی، سائنسی تحقیق وغیرہ شعبوں میں دھوم مچا دی۔
آٹھ مارچ کو عالمی یوم خواتین کے ساتھ ساتھ مصر میں ہر سال سولہ مارچ کو مصری خواتین کا دن منایا جاتا ہے۔اس تاریخ کا انتخاب خاص طور پر اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ یہ مختلف تاریخی مراحل میں مصری خواتین کی زندگی میں اہم مقامات کی یاد رکھتی ہے، جن میں نوآبادیات کے خلاف ان کی بغاوت، آزادی کے لیے ان کی جدوجہد اور ان کے دو اہم ترین سیاسی حقوق حاصل کرنے کی یاد ہے۔ تقریباً سو سال قبل اسی دن انگریزوں کے قبضے کے خلاف لڑائی میں خواتین شہید ہوئی تھیں۔ مصری یوم خواتین کی تاریخ سولہ مارچ 1919ء کو شروع ہوئی جب خواتین نے جدید مصر کی تاریخ میں پہلی بار انگریزی قبضے کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کیا۔ اس کی شروعات حقوق پرست رہنما مسز ہدی شعراوی کی جانب سے انگریزوں کے قبضے کے خلاف خواتین کے مظاہرے کی دعوت سے ہوئی۔ انہوں نے خواتین کے ایک ایسے مظاہرے کی قیادت کی جسے اپنی نوعیت کا پہلا مظاہرہ سمجھا جاتا تھا۔ اس میں تین سو سے زائد مصری خواتین نے شرکت کی۔ مظاہروں کے دوران کچھ خواتین ’وطن کی شہید‘ بن گئیں اور اس دن سے لڑائی مصری خواتین کے اپنے حقوق اور اپنے ملک کے حقوق کے دفاع کے پیغام کا حصہ بن گئی۔ اس مظاہرے کے ذریعہ انہوں نے پہلی مصری فیڈریشن برائے خواتین کے قیام خواتین کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے اور سماجی و سیاسی مساوات کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔
سولہ مارچ 1923ء کو ہدیٰ شعراوی نے مصر میں پہلی خواتین یونین کے قیام کا مطالبہ کیا، جس کا مقصد خواتین کے لیے مردوں کے برابر سیاسی اور معاشرتی حقوق حاصل کرنا تھا۔ انہوں نے لڑکیوں کو یونیورسٹی تک تمام مراحل میں عوامی تعلیم حاصل کرنے اور شادی سے متعلق قوانین میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا اور مطالبہ کیا کہ شادی، تعلیم اور سیاسی حقوق کے استعمال سے متعلق مصر کے قوانین تبدیل کیے جائیں۔ سولہ مارچ کا یہ واحد متاثر کن واقعہ نہیں تھا جس کا مرکزی کردار مصری خاتون تھیں۔ سولہ مارچ 1928ء کو پہلی لڑکیوں کا گروپ قاہرہ یونیورسٹی میں داخل ہوا۔ کئی خواتین نے تعلیم اور عوامی ملازمت کے حق کو یقینی بنانے کے لیے پیشہ ورانہ شعبوں میں کامیابی حاصل کی ہے۔ پہلی مصری خاتون نے لیسٹر آف رائٹس کی ڈگری حاصل کی اور پہلی مصری اور عرب وکیل کی حیثیت سے منیرہ کا نام 1924ء میں مخلوط عدالتوں کے سامنے وکلاء کی فہرست میں درج کیا گیا۔ ہیلینا سیڈاروس نے طب کے میدان میں کامیابی حاصل کی اور پہلی مصری ڈاکٹر بن گئیں۔ خواتین نے سماجی انصاف پر اصرار کیا اور سائنسی طور پر اعلی درجے حاصل کئے۔ سولہ مارچ 1956ء کو مصری خواتین پارلیمنٹ کی رکن بن گئیں۔ مصری آئین نے انہیں امیدوار بننے کی اجازت دی تھی اور انہیں پارلیمنٹ کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق بھی دیا تھا۔
آج سو سال اور اس سے زیادہ عرصے کے بعد، مصری خواتین تمام شعبوں میں اپنی صلاحیت، قابلیت کی بنیاد پر حقیقی طور پر بااختیار بننے کا ثمر حاصل کر رہی ہیں۔ مصری خواتین اب ایسے اہم عہدوں پر فائز ہو رہی ہیں جو پہلے انہیں میسر نہیں تھے۔ آج کی مصری خواتین کامیابی کی علامت بن چکی ہیں، ان کی رسائی ججوں کے پلیٹ فارم تک ہو چکی ہے۔ خواتین کچھ دن قبل ہی عدلیہ کی اس مسند تک پہنچ گئیں جو اب تک صرف مردوں کے لیے مخصوص تھی۔ مصرکی تاریخ میں پہلی بار پانچ مارچ کو جج رضوی حلمی مسند عدالت پر بیٹھیں۔ مصر کی عورت کی اس کاميابی کا سہرا ’اومنیہ جاد اللہ‘ کے سر باندھا جانا چاہیے جنہوں نے قانون میں گریجویشن کیا اور بعد میں قانون میں ماسٹر ڈگری بھی حاصل کی ہے۔ انہوں نے The Platform is Her Right کی شروعات بھی کی اور انسانی حقوق کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے، لڑکیوں کی حمایت کرنے اور مصری خواتین کی عدلیہ تک رسائی سے روکے جانے کے معاملوں کے حوالے سے امتیازی سلوک کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں بیداری پیدا کی۔ وہ خواتین کے اعلی منصب پر پہنچنے کی پرزور وکالت کرتی رہی ہیں۔ عدالتوں میں خاص طور پر اور معاشرے اور عمومی طور پر خواتین کی ترقی کے معاملوں پر وہ بے حد یقین رکھتی ہیں۔ انہوں نے خواتین کے پسماندہ رہنے اور ریاستی کونسل کے اندر ان کے حقوق دبائے جانے کے معاملات کو پوری طرح مسترد کیا ہے۔ جب کونسل نے ایک خاتون کا بحیثیت جج تقرر کرنے سے انکار کیا تو امنیہ نے ریاستی کونسل میں بطور معاون مندوب مقرر ہونے کی اپنی اہلیت کے حوالے سے ایک مقدمہ دائر کیا جس میں ان کا دعوی تھا کہ تقرری اور ملازمت کی شرائط کے مطابق انہیں بھی ریاستی کونسل میں عدلیہ کے پوڈیم تک پہنچنے کا موقع ملنا چاہیے۔ ’جاداللہ‘ نے خواتین کی عدلیہ تک رسائی کے حق کے دفاع کے لیے اپنی مہم جاری رکھی، یہاں تک کہ صدر جمہوریہ نے فیصلہ جاری کر دیا اور اب ریاستی کونسل میں 98 خواتین جج اپنے ساتھی ججوں کے ساتھ بنچ پر بیٹھنے کی حقدار ہوگئی ہیں۔
مصر میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس وقت یہاں ایک خاتون وزیر سیاحت ہے۔ اب تک یہ عہدہ روایتی طور پر مردوں کے ماتحت اور ان کی بالادستی میں رہا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک خاتون کی قیادت میں اس شعبہ نے بہت زیادہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ انہوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ خواتین دنیا میں تبدیلی لانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ انہوں نے داخلی اور خارجی طور پر مصر کی بہترین نمائندگی کرکے یہ ثابت کر دیا کہ کوئی بھی چیز ناممکن نہیں ہے۔ انہوں نے تعصب کے سانچے کو توڑنے میں کامیابی حاصل کی اور اس عہدے پر کام کرکے 2019ء میں مصر کی تاریخ میں سیاحت سے ہونے والی آمدنی کے پرانے ریکارڈ توڑ دیے۔
ان کے علاوہ بہت سی ایسی عظیم مصری خواتین ہیں جو اپنی پیشہ ورانہ اور ذاتی کامیابیوں کے ذریعے ہر روز صنفی تعصبات کو توڑ رہی ہیں۔ مصری سینیٹ (پارلیمنٹ) میں خواتین کی غیر معمولی موجودگی کے علاوہ سرکاری ملازمتوں میں خواتین کی شرح پینتالیس فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ حکومت میں خاتون وزراء کا تناسب پچیس فیصد تک پہنچ گیا۔ یعنی وزراء کا ایک چوتھائی حصہ خواتین پر مشتمل ہے ۔ گزشتہ کئی برس کے دوران مختلف ریاستی اداروں میں خواتین نے کی نمائندگی میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔ خواتین نے پہلی بار قومی کونسل برائے انسانی حقوق کی صدارت حاصل کی۔ ریاستی کونسل اور انتظامی پراسیکیوشن میں بھی ان کو اپنی کارکردگی دکھانے کا موقع ملا۔ مرکزی بینک کی پہلی ڈپٹی سربراہ، ڈپٹی گورنر، صدر جمہوریہ کی مشیر برائے قومی سلامتی اور اقتصادی عدالت کی پہلی خاتون صدر ہونے کا شرف بھی مصری خواتین کا حاصل ہو چکا ہے۔ یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ بعض سیاست دانوں نے خواتین کے ساتھ تفریق اور سوتیلے برتاو کے خلاف چلائی جانے والی خواتین کی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ان کے حقوق کی بازیابی کی راہ ہموار کرنے میں مدد کی ہے۔ انہوں نے خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کام کیا ہے اور مختلف شعبوں میں خواتین کی صلاحیتوں کا کھل کر اعتراف بھی کیا ہے۔
آخر میں، میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ وہ تعصب اور تفریق جو عورت کی ترقی اور اس کے آگے بڑھنے کو مشکل بنائے اس کو مٹا دینا چاہیے۔ چاہے یہ تعصب اور تفریق جان بوجھ کر ہو یا انجانے میں۔ تعصب و تفریق کو توڑنے کے لیے معاشرے کو سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ یہ ناروا سلوک ہے۔ ميرے خیال میں خواتین کے ساتھ اختیار کیے جانے والا تعصب ایک سماجی مسئلہ ہونے سے پہلے ایک خاندانی مسئلہ ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ خواتین کے خلاف تعصب سب سے پہلے کنبے اور خاندان سے شروع ہوتا ہے۔ در اصل تعصب اور تفریق کا رواج بہت سے خاندانوں میں فطری معلوم ہوتا ہے، کیونکہ اخلاقی اور روایتی لحاظ سے نسلوں کو یہ تعصب وراثت میں ملتا ہے۔ اس کو ہمارے بچوں، مردوں اور عورتوں کی طرف سے بڑھایا جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر میں کہنا چاہوں گی کہ اس تعصب کو ختم کرنا صرف قانون سازی سے ممکن نہیں ہو سکتا، بلکہ اس کے لیے گھروں، دفتروں، کارخانوں، اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور ہمارے آس پاس کی جگہوں پر بیداری پیدا لانا ہوگا تاکہ اس صنفی اور جنسی تفریق و تعصب کا خاتمہ ہو۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ عورت اور مرد مل کر ایک محفوظ اور مستحکم معاشرہ بناتے ہیں۔
اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ عورت معاشرے کا نصف حصہ ہے۔ وہی خوشی و انبساط کا منبع ہے۔ اپنے اردگرد رہنے والوں کے لیے طاقت اور توانائی کی بنیاد ہے۔ اپنے شوہر اور بچوں کے لیے نرمی اور محبت کا سر چشمہ ہے۔ وہ ماں ہے، بیوی ہے، بیٹی ہے اور بہن ہے۔ اسلام نے عورت کو عزت دی ہے اور اسے اپنے خاندان میں ایک خاص مقام عطا کیا ہے۔ ایام جاہلیت میں بھی اسلام نے قبیلوں کے غیر انسانی رسم و رواج کو بدل کر لڑکیوں سے محبت کرنے کا حکم دیا، جو معاشرہ لڑکیوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا اس کو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ اللہ تعالی نے بھی قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے ’’میں تم میں سے عمل کرنے والوں کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ تم آپس میں ایک ہی ہو۔‘‘ ایک جگہ اور ارشاد فرمایا گیا ’’جس نے نیک کام کیے خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اس کو پاکیزہ زندگی بسر کروائیں گے اور ہم ان کو ان کے نیک کاموں کی ضرور جزا دیں گے۔‘‘ آخر میں، میں ہر اس خاتون کو سلام پیش کرتی ہوں جس نے ہمیشہ اس بات کو ثابت کیا ہے کہ وہ ترقی اور تعمیر میں قوم کی ڈھال اور تلوار ہے۔
***

 

***

 عورت معاشرے کا نصف حصہ ہے۔ وہی خوشی و انبساط کا منبع ہے۔ اپنے اردگرد رہنے والوں کے لیے طاقت اور توانائی کی بنیاد ہے۔ اپنے شوہر اور بچوں کے لیے نرمی اور محبت کا سر چشمہ ہے۔ وہ ماں ہے، بیوی ہے، بیٹی ہے اور بہن ہے۔ اسلام نے عورت کو عزت دی ہے اور اسے اپنے خاندان میں ایک خاص مقام عطا کیا ہے۔ ایام جاہلیت میں بھی اسلام نے قبیلوں کے غیر انسانی رسم و رواج کو بدل کر لڑکیوں سے محبت کرنے کا حکم دیا، جو معاشرہ لڑکیوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا اس کو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ عورتوں کے ساتھ حسن کرو۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مارچ تا 18 مارچ 2023