’خواتین کے مسائل اور حل‘ (موجودہ حالات کے تناظر میں)
عام فہم انداز میں اپنےموضوع پر منفرد کتاب
کتاب کا نام ۔خواتین کے مسائل اور حل (موجودہ حالات کے تناظر میں)
مصنفہ ۔ بشری ناہید
تبصرہ نگار۔ سہیل بشیر کار ، بارہ ہمولہ کشمیر
قیمت۔ 30 ورپیے
صفحات۔32
ناشر ۔ گلو بل لائٹ پبلشر ۔ اورنگ آباد مہاراشٹر
کتاب کے لیے رابطہ نمبر ۔8855055769
مسائل کا جائزہ بھی اور اسلامی طریقہ پر حل کرنے کی رہنمائی بھی
دین اسلام پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں ان میں ایک بڑا اعتراض خواتین کے حقوق پر ہے۔ اگرچہ ان اعتراضات کا علمی جائزہ اہل علم نے ہمیشہ لیا ہے، لیکن اُن اعتراضات کا محاکمہ اکثر مرد مفکرین نے کیا ہے۔ ادھر گزشتہ کئی سالوں میں مسلمانوں کےیہاں ایک بڑی تعداد میں خواتین اس سلسلے میں آگے آئی ہیںجنہوں نے ان اعتراضات کا جائزہ بھی لیا ہے، اور جواب بھی دیا ہے۔اہل علم خواتین کی طرف سے جو جوابات دیے گئے ہیں ان کے مثبت نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ چند روز قبل معلوم ہوا کہ بہن بشریٰ ناہید نے’’خواتین کے مسائل اور حل‘‘نام سے ایک کتابچہ لکھا ہے، کتاب کی مصنفہ زمینی سطح پر کام کرنے والی ہیں اور ظاہر ہے مسائل کے ساتھ اکثر واسطہ بھی پڑتا ہوگا اس لیے کتابچہ کو دیکھنے کا بہت اشتیاق تھا۔ خیال تھا کہ وہی مروجہ مضامین ہوں گے لیکن فہرست پر نظر پڑی تو محسوس ہوا کہ اس میں مختلف عنوانات پر لکھا گیا ہے۔ مصنفہ نے کتابچہ پانچ عنوانات کے تحت تقسیم کیا ہے :
(1) بھارت کی اخلاقی صورت حال اور خواتین( 2) ڈے کلچر( 3) بچوں اور مردوں میں بڑھتا ہوانشے کا رجحان اور خواتین کے مسائل و ذمہ داریاں(4) مطلقہ کی معاشرتی و معاشی زندگی(5) مونب امپاورمنٹ
ہر مضمون میں مصنفہ کی کوشش رہی ہے کہ ڈیٹا پیش کیا جائے اور مضامین میں جہاں مسائل بیان کیے گئے ہیں وہیں ان کا اسلامی حل بھی پیش کیا گیا ہے۔ کتاب کے بارے میں اس موضوع کے ماہر اور برصغیر کےمشہور و معروف فقیہ ڈاکٹر رضی اسلام ندوی لکھتے ہیں’’یہ مضامین بہت سلیس اسلوب اور عام فہم انداز میں لکھے گئے ہیں اور ان میں اہم سماجی مسائل کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ایک حسّاس اور درمند دل رکھنے والی خاتون نے ان پر خامہ فرسائی کی ہے‘‘۔
مصنفہ کتابچہ کے پہلے باب’’بھارت کی اخلاقی صورتحال اور خواتین‘‘میں لکھتی ہے کہ’ جہاں ہندوستان نے ترقی کے کئی منازل طے کیے ہیں وہیں ان ترقیوں کے نام پر بہت سے اخلاقی بگاڑ بھی پیدا ہوئے ہیں خاص طور پر خواتین کی معاملے میں ایک طرف خواتین کی ترقی کی بات ہو رہی ہے وہیں مردوں اور خواتین کے تناسب میں بہت فرق ہے اور مصنفہ ڈیٹا کے ذریعے بتاتی ہیں کہ یہ مسائل پسماندہ طبقات میں ہی نہیں بلکہ تعلیم یافتہ شہروں میں بھی ہے۔ لکھتی ہیں کہ’’عام طور پر پر یہ رجحان پایا جا تا ہے کہ اس طرح کی اخلاقی پستی صرف نچلی ذات’ پسماندہ طبقات اور نا خواندہ لوگوں میں ہی زیادہ ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پونا ڈومبیولی امراؤ تی وغیرہ جیسے شہروں میں آباد تعلیم یافتہ طبقات میں مرد و خواتین کا تناسب 743/1000 ,847/1000 کی حد تک گرگیا ہے اور یہ عدم توازن دختر کشی کے باعث ہے۔‘‘(صفحہ 6) معاصر خواتین کے مسائل کے بارے میں لکھتی ہیں کہ’’ملک میں عصمت دری کے کئی واقعات تودرج ہی نہیں ہوتے ۔ ملک بھر میں کم سنوں کے ریپ کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ ملک میں اوسط 18 ہزار سے زائد عصمت دری کے واقعات رونما ہوتے ہیں ۔ صرف ممبئی میں خواتین پر ہونے والے تشدد مثلاً چھیڑ خانی، عصمت دری، جہیز کی بنا پر ہونے والی اموات کا تناسب تشویشناک حد تک زیادہ ہے ۔ زیادہ تر واقعات تو بد نامی کے خوف سے درج ہی نہیں کروائےجاتے ہیں ۔‘‘(صفحہ 6)
مصنفہ دوسرے مذاہب اور اسلام میں ان مسائل کے حل کا تقابل کرکے عقلی و نقلی دلائل سے ثابت کرتی ہیںکہ ان سب مسائل کا حل صرف اور صرف اسلام کی تعلیمات میں ہے، مصنفہ لکھتی ہیں کہ ’’دین اسلام نے عورت کو صرف باعزت مقام ہی نہیں دیا ہے بلکہ اس کے حقوق کا تحفظ بھی کیا ہے ۔ بیواؤں کو دوسری شادی کی اجازت دے کر حرام کاری سے بچایا ہے ۔ خلع کا حق دے کر زبردستی کے بندھن سے آزاد ہونے کا راستہ کھلا رکھا ہے ۔ بعض اوقات زبردستی کے اس بندھن سے چھٹکارا پانے کے لئے شوہر بیوی کا قتل کر دیتا ہے یا اسے اتنا ستایا جا تا ہے کہ مجبوراً وہ خودکشی کر لیتی ہے۔‘‘(صفحہ 8)
یہ جو عالمی پیمانے پر دن منانے کا سلسلہ چل پڑا ہے اس سلسلے میں کتابچہ میں دوسرا مضمون’’ ڈے کلچر‘‘کے عنوان کے تحت لکھا ہے، مصنفہ کا ماننا ہے کہ اس ڈے کلچر کا بنیادی مقصد مغربی معیشت کو فروغ دینا ہے لکھتی ہیں کہ ’’درحقیقت اس ڈے کلچر کے فروغ کے پیچھے مغربی معیشت کارفرما ہے ۔ مغربی ممالک مندی کا شکار ہیں ۔ ان کے عوام ضروریات ولوازمات سے جڑی ہر چیز کے مالک بن بیٹھے ہیں ۔عوام خرید خرید کر بھی کتنا خریدے گی اس لیے انہوں نے یہ راہ نکال لی کہ کیوں نہ ایسی چیزوں کو فروغ دیا جائے جو ہر سال خریدی جا سکیں اور اس کے لیے’ویلینٹائن ڈے‘، ’روز ڈے‘،’فرینڈ شپ ڈے‘،’آئی وانٹ ٹو سے ڈے‘سے بہتر اور کیا ہوسکتا ہے۔‘‘(صفحہ 10) اس کے بعد مصنفہ ڈے کلچر سے پیدا ہونے والے مسائلِ کا حل دین اسلام کی روشنی میں بتاتی ہیں۔
کتابچہ کے تیسرے باب میں مصنفہ ’’بچوں اور مردوں میں بڑھتا ہوانشے کا رجحان اور خواتین کے مسائل و ذمہ داریاں‘‘کے تحت لکھتی ہیں کہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ خواتین نشہ نہیں کرتیں اگر کرتی بھی ہیں تو وہ ہائر کلاس کی خواتین ہیں ، حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے، مصنفہ لکھتی ہیں کہ ’’ایسا سمجھا جا تا ہے کہ بھارت کی خواتین میں نشہ خوری کا مرض بہت کم پایا جا تا ہے ۔ صرف ہائر کلاس کی چند خواتین اور جنگل میں رہنے والی کچھ خواتین نشہ کرنے کی عادی ہوتی ہیں ۔ منشیات کے استعمال کا شوق یا عادت عموماً مردوں میں نظر آتا ہے ۔لیکن اب صورتحال بدل رہی ہے اور بچے بھی اس کا شکار ہورہے ہیں۔‘‘(صفحہ 14) اگر اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے مصنفہ نے ڈیٹا دیا ہوتا تو مضمون اور بہتر ہو سکتا تھا، لیکن اس مضمون میں کوئی بھی ڈیٹا نہیں دیا گیا ہے، مصنفہ کا ماننا ہے کہ امت مسلمہ میں اس مرض کی بنیادی وجہ اردو شاعری میں بڑے دلکش پیرائے اور خوبصورت الفاظ کا استعمال کرکے شراب کا ذکر کرنا ہے، حالانکہ یہ بات صد فیصد حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ جو بچے یا خواتین نشہ میں مبتلا ہوتے ہیں دیکھا گیا ہے کہ وہ اردو کے ان شعراء سے واقف ہی نہیں ہیں۔ راقم نے اس سلسلے میں عملی کام بھی کیا ہے اور کسی بھی نشہ کرنے والے نوجوان میں شاعری کے اثرات دیکھنے کو نہیں ملے۔
اسلام میں طلاق کی اجازت ہے اگرچہ اس کو پسند نہیں کیا گیا ہے، طلاق کے نتیجے میں عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ مطلقہ کافی مشکلات کا سامنا کرتی ہے، موجودہ معاشرہ میں طلاق یافتہ خواتین کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام سے تعصب رکھنے والے لوگ اس پر اعتراضات کرتے ہیں۔ کتاب کا چوتھا باب’’مطلقہ کی معاشرتی و معاشی زندگی‘‘ کے عنوان کے تحت ہے، مصنفہ لکھتی ہیں کہ آج کل پرنٹ و سوشل میڈیا کی وجہ سے طلاق کے واقعات پر تبصرے فوراً پوری دنیا میں پھیل جاتے ہیں، اور اس طرح خواتین کے حقوق کے نام پر اسلام دشمن عناصر منفی پروپگینڈا کرنے میںلگ جاتے ہیں حالانکہ جن جوڑوں کے درمیان طلاق ہوتی ہے ان میں اکثر خواتین ہی طلاق چاہتی ہے مصنفہ لکھتی ہیں کہ ’’اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ گزشتہ چند سالوں میں طلاق کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور زیادہ تر طلاق کی مانگ خود بیوی کی طرف سے ہورہی ہے ۔ تامل ناڈو کی خواتین نے ہائی کورٹ میں RT I داخل کیا تو معلوم ہوا کہ تقریبا90 فیصد طلاق کا مطالبہ خودخواتین کی جانب سے ہوتا ہے۔‘‘اس کے بعد مصنفہ طلاق کے اسباب پر مختصر مگر جامع وجوہات بیان کرتی ہے۔ اس کے بعد اسلامی تعلیمات پر روشنی ڈالی گئی ہے، عام طور پر مطلقہ کے نان و نفقہ کے متعلق بھی منفی پروپگینڈا کیا جاتا ہے، حالانکہ اسلام اس مسئلے کا حل بھی پیش کرتا ہے۔ مصنفہ لکھتی ہیں کہ ’’ طلاق کو عورت پر ظلم بتا کر اسلامی قوانین کے خلاف مرد سے نان و نفقہ دلوایاجاتا ہے ۔ جبکہ اسلامی تعلیمات کی رو سے طلاق شدہ عورت ایام عدت گزارنے کے بعد اس کے باپ کی ہے ۔ اگر باپ بقید حیات نہ ہوتو بھائی اور بھائی بھی نہ ہوتو چچا یا کوئی قریبی رشتہ دار اس کی کفالت کی ذمہ داری اٹھائے گا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ میں تم کو یہ نہ بتادوں کہ افضل صدقہ کیا ہے؟ اس بیٹی پر صدقہ کرنا جوتمہاری طرف مطلقہ یا بیوہ ہونے کے سبب واپس لوٹ آئی اور تمہارے سوا کوئی اس کا نہ ہو ( ابن ماجہ راوی حضرت سراقہ بن مالک )‘‘(صفحہ 21)اتناہی نہیں وہ مزید لکھتی ہیں’’ مطلقہ پر اس کے محرم رشتےدارخرچ کرتے ہیں تو یہ کوئی احسان نہیں بلکہ یہ ان کا فرض ہے’’ ان کی ذمہ داری ہے اس کی ادائیگی پراجر ہے اور عدم ادائیگی پر باز پرس ‘‘(صفحہ 22)،مصنفہ اس مسئلہ کے حل کے لیے اسلام پسندوں پر زور دیتی ہے کہ وہ طلاق یافتہ خاتون کو باعزت طریقے سے زندگی گزارنے کے لیے اپنا حق ادا کریں، اس سلسلے میں وہ مطلقہ یا بیوہ کو معاشی طور پر مستحکم ہونے پر زور دیتی ہیں، ساتھ ہی وہ ان وجوہات کا جائزہ بھی لیتی ہیں جن سے یہ مسائل جنم لیتے ہیں. مصنفہ رقمطراز ہیں۔ ’’عام طور پر مطلقہ اور بیوہ کے گھر والے اس کا دوسرا گھر بسانے کی کوشش کرتے بھی ہیں تو خود مذکورہ خاتون اس کے لئے تیار نہیں ہوتی ۔شاید اس کے انکار کے پیچھے جو سوچ کارفرما ہوتی ہے اس کے لئے مسلم معاشرہ ہی ذمہ دار ہوسکتا ہے ۔ یعنی بیوہ اور مطلقہ کو اچھی نگاہ سے نہ دیکھنا۔
اس کی دوسری شادی کو بے شرمی پر محمول کرنا کسی مرد کی ایک بیوی کی موجودگی میں دوسری بیوی بننے کو پہلی پر ظلم قرار دینا وغیرہ۔ اگر واقعی یہ ظلم ہوتا تو سرور کائنات ﷺ اور صحابہ کرام سے اس کی مثالیں نہ ملتیں ۔ طلاق اور نکاح ثانی نہ صرف دور صحابیات بلکہ بعد کے ادوار میں بھی معمول کی بات رہی ہے، پھر رفتہ رفتہ اس کو معیوب سمجھا جانے لگا۔‘‘(صفحہ 23)مزید لکھتی ہیں کہ ’’ خود مردوں کے نکاح ثانی کو ہوس پرستی یا بے حیائی سمجھا جانا جس کی وجہ سے مطلقہ اور بیوہ کے ساتھ نکاح ثانی سے بہت سے مرد رک جاتے ہیں ۔ اگر چہ کہ وہ ثواب کی نیت سے بھی نیکی کرنا چاہتے ہوں لیکن معاشرے کا خوف آڑے آتا ہے ۔ بعض اوقات مرد بیوہ یا مطلقہ سے نکاح کر بھی لیتے ہیں لیکن اس کو رشتہ داروں سے پوشیدہ رکھتے ہیں گویا انہوں نے کوئی ناجائز فعل انجام دیا ہو ۔مسلم معاشرے کی یہی سوچ باقی رہی تو مطلقه و بیوہ خواتین دوباره ازدواجی زندگی کا سکون حاصل کرنے سے محروم رہیں گی ۔ کیونکہ اس طرح کی خواتین سے کنوارے لڑ کے تو نکاح کرنے سے رہے۔ اگر کیا بھی تو انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں ۔ عموماً لڑکوں کو کم سن اور حسین و جمیل لڑکی سے شادی کرنے کی خواہش ہوتی ہے‘‘(صفحہ 23) اس مضمون میں مصنفہ امت مسلمہ کے افراد کو بار بار اپنی ذمہ داریوں کو انجام دینے کی تلقین کرتی ہیں۔
’’وومن امپاورمنٹ‘‘ کےنام سے مصنفہ نے اپنی کتاب کا پانچواں باب لکھا ہے، اس باب میں ان کا ماننا ہے کہ اسلام خواتین کو علمی، معاشی اور معاشرتی اعتبار سے امپاور کرتا ہے، اس باب میں مصنفہ موجودہ صورتحال میں تینوں عنوانات کے تحت مثبت اور منفی دونوں پہلووں کو بیان کرتی ہیں۔علمی صورتحال کے حوالے سے جو مثبت چیزیں سامنے آرہی ہیں مصنفہ ان کے بارے میں لکھتی ہے کہ ’’عصر حاضر میں خواتین کی علمی صورتحال کا جائزہ لیا جائےتو ماضی کی بہ نسبت علمی اعتبار سے خواتین کچھ حد تک امپاور ضرور ہوئی ہیں۔ مسلم ہو یا غیر مسلم بالعموم تعلیمی نتائج میں بہ نسبت لڑکوں کے لڑکیوں کا تناسب زیادہ رہتا ہے۔‘‘ (صفحہ 25) البتہ تعلیمی بیداری کی لہر میں کچھ منفی چیزیں بھی آئی ہیں خاص کر مغربی تہذیب کا غلبہ اس کے بعد مصنفہ نے حصول علم کے ذرائع سے اسلامی نقط نظر بھی پیش کیا ہے، اس سلسلے میں وہ امت مسلمہ کے اکابرین کو چند عملی اقدامات کی طرف بھی توجہ دلاتی ہیں کہ ’’ ریاستی سطح پر ہم خواتین کے لیے تعلیمی میدان میں ڈاکٹر اور ٹیچنگ فیلڈ کے لیے زیادہ نشستوں کا مطالبہ رکھ سکتے ہیں تاکہ مستقل لیڈی ڈاکٹر اور ٹیچر ہو جس سے لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرناآسان ہو جائے۔ میٹر نیٹی ہاسپٹل وغیرہ میں لیڈی ڈاکٹروں کی کمی نہ ہو ۔ خواتین کی تنظیموں ومختلف تحریکات نے جس میں خواتین بھی شامل ہیں، خواتین سے متعلق ایشوز پر لکھنے اور بولنے کی مہارت پیدا کر نے کے علاوہ کمپیوٹرلٹریٹ بنانے کے لیے ٹرینگ کورسیس کا اہتمام کرنا چاہیے ۔اہل خیر حضرات کو لڑکیوں کے لیے پروفیشل کورسیس کے انسٹی ٹیوٹ کھولنے چاہئیں ۔ جہاں اسلامی تعلیمات پرعمل کرتے ہوئےتعلیم حاصل کرنالڑکیوں کے لیے آسان ہو جائے۔‘‘(صفحہ 27) معاشی صورتحال کے تحت مصنفہ معاشی جدوجہد کی وکالت کرتی ہیں لیکن معاشی جدوجہد عورت کو اپنے بنیادی فرائض سے غافل نہ کر دے، اسی طرح انہوں نے معاشی میدان میں خواتین کے لیے کچھ عملی اقدامات پر توجہ دلائی ہے۔
مصنفہ کا ماننا ہے کہ وومن امپاورمنٹ کے اگرچہ بڑے بڑے دعوے ہیں لیکن یہ کڑوی حقیقت ہے کہ خواتین زمانہ جاہلیت کی طرح آج بھی مظلومیت کی شکار ہیں، دختر کشی، زنا بالجبر، جہیز، وراثت سے محرومی آج بھی خواتین کے مسائل ہیں ، اسی طرح خواتین کے حق میں جو قوانین بنائے جاتے ہیں ان پر بھی عمل نہیں کیا جاتا، بدقسمتی سے دیندار طبقہ کے گھروں میں بھی بہت سے مسائل ہیں۔ مصنفہ لکھتی ہیں کہ’’عام مسلم گھرانے ہی نہیں بلکہ بعض دیندارلوگوں کے یہاں بھی بیوی، بہو، ساس جیسے سسرالی رشتوں کو لے کر بے اعتدالی اور ان کے ایک دوسرے کے تئیں حقوق وفرائض میں توازن نظر نہیں آتا ۔ کسی رشتہ کے ساتھ بے جا رعایت اور کسی رشتہ کی حق تلفی ہوجاتی ہیں ۔ مثلا کہیں ساس، سسر، دیور، جیٹھ کی خدمت میں لگادیا جاتا ہے تو کہیں ساس سسر کی خدمت بہو پر فرض قرار نہ دے کر غیر ضروری چھوٹ دی جاتی ہے اور اس عام اخلاقی فرض سے بھی بہو آزاد ہو جاتی ہے۔ بعض لڑکیاں شوہر کے والدین کی ذمہ داری بیٹے پر رکھ کر ذمہ داری سے دامن بچاتی ہیں۔’’صفحہ 30) آخر میں وہ امت مسلمہ کو کچھ عملی اقدامات کی طرف توجہ دلاتی ہیں ملت کے ہر فرد کو اپنے گھر کو صحیح معنوں میں اسلامی خاندان بنانے کی فکر وکوشش کرنا چاہیئے جس سے وہ نہ صرف اپنے رشتہ داروں، پڑوسیوں اور تحریکی و دینی حلقوں بلکہ برادران وطن کو بھی حقیقی اور مثالی اسلامی خاندان کی جیتی جاگتی تصویر نظر آئےاور وہ جان لیں خواتین کا امپاورمنٹ اور ان کے تمام مسائل کا حل صرف اسلام میں ہی ہے‘‘۔(صفحہ 32)
کل ملا کر مصنفہ نے ان موضوعات پر قلم اٹھایا ہے جن پر کم لکھا گیا ہے، اور ان پانچ مضامین کو خوبصورت ترتیب دیا جو اخلاقی صورتحال سے شروع ہوکر وومن امپاورمنٹ پر ختم ہوئے ہیں۔کتاب کی زبان آسان ہے۔ کتاب کا مخاطب زیادہ تر نوجوان ہے اور کتاب میں کہیں گنجلک اسلوب نہیں، اردو کے مشکل الفاظ کی جگہ انگریزی الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اردو زبان کے لیے اس طریقہ کےنقصانات بھی ہیں مگر بعض دفعہ اس کے فوائد بھی نظر آتے ہیں اچھی کتاب کی ایڈیٹنگ کسی پروفشنل سے کرانے کی ضرورت ہے، پیج سٹنگ میں بھی غلطیاں ہیں، کہیں کہیں پروف کی غلطیاں بھی دیکھنے ملتی ہیں ، البتہ کتاب اپنے موضوع کے لحاظ سے منفرد ہے۔امید ہے کہ اس کتاب سے استفادہ کیا جائے گا اور مصنفہ مسلسل لکھا کریں گی۔
***
***
وومن امپاورمنٹ کے اگرچہ بڑے بڑے دعوے ہیں لیکن یہ کڑوی حقیقت ہے کہ خواتین زمانہ جاہلیت کی طرح آج بھی مظلومیت کی شکار ہیں، دختر کشی، زنا بالجبر، جہیز، وراثت سے محرومی آج بھی خواتین کے مسائل ہیں ، اسی طرح خواتین کے حق میں جو قوانین بنائے جاتے ہیں ان پر بھی عمل نہیں کیا جاتا، بدقسمتی سے دیندار طبقہ کے گھروں میں بھی بہت سے مسائل ہیں۔ مصنفہ لکھتی ہیں کہ’’عام مسلم گھرانے ہی نہیں بلکہ بعض دیندارلوگوں کے یہاں بھی بیوی، بہو، ساس جیسے سسرالی رشتوں کو لے کر بے اعتدالی اور ان کے ایک دوسرے کے تئیں حقوق وفرائض میں توازن نظر نہیں آتا ۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 27 فروری تا 05مارچ 2022