خبرونظر
پرواز رحمانی
مسلم مجلس مشاورت
1963-64ء میں مسلم رہنماوں کے مابین جب یہ مشورہ ہوا کہ تمام مسلم جماعتوں اور تنظیموں پر مشتمل ایک مضبوط متحدہ فورم قائم کیا جانا چاہیے۔ اس تجویز پر عام اتفاق رائے کے بعد لکھنو میں ایک مشاورتی اجلاس طلب کیا گیا جو بعد میں مشاورت کا اساسی اجلاس ثابت ہوا۔ تبادلہ خیال اور بحث وتمحیص کے دوران کچھ مخالف آوازیں بھی اٹھیں، بعض نے کچھ پہلوؤں سے اختلاف کیا، بعض نے ایسی باتیں کہیں جن سے خدشہ پیدا ہوتا تھا کہ اتحاد شاید قائم نہ ہونے پائے۔ اس موقع پر اجلاس کے داعی ڈاکٹر سید محمود نے درد مندانہ آواز میں کہا تھا ’’یاد رکھیے کہ آج کا یہ اجلاس کئی ہفتوں کے غور و خوض اور انتہائی گہرے مشوروں کے بعد طلب کیا گیا ہے۔ ہر پہلو پر غور کیا گیا ہے اور ہر زاویہ نظر سامنے رکھا گیا ہے۔ یہ سب آپ کے سامنے بیان کیا جا چکا ہے۔ اگر آج ہم اتحاد قائم کرنے میں ناکام ہو گئے تو آئندہ صدیوں تک کوئی اتحاد و اتفاق کا نام نہیں لے گا‘‘ کوئی ایک پلیٹ فارم کی بات نہیں کرے گا۔ ڈاکٹر صاحب کا خطاب بہت اثر انگیز تھا، اس کے بعد پھر کسی نے مخالفت میں آواز نہیں اٹھائی۔
اتحاد و اتفاق کا پیغام
اور اس طرح آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت قائم ہو گئی۔ اس میں سبھی مسلم جماعتوں کے رہنماؤں نے گروپوں کی شکل میں پورے ملک کا دورہ کیا۔ ان دوروں میں بعض برادران وطن اور مجاہدین آزادی بھی شریک ہوا کرتے تھے۔ جن میں پنڈت سندر لال کا نام نمایاں تھا۔ جنوبی ہند کا دورہ تاریخی نوعیت کا حامل رہا۔ دو ہفتوں کے دورے میں ہر جگہ بڑے بڑے اجلاس ہوئے۔ ہر جلسے میں برادران وطن کی تعداد قابل لحاظ ہوتی تھی۔ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی بڑے بڑے شہروں میں بڑے بڑے اجلاس ہوئے۔ غرض پورے ملک میں مشاورت کی آواز اور اس کا پیغام دیکھتے ہی دیکھتے پھیل گیا۔ مجلس مشاورت صرف مسلمانوں ہی میں اتحاد و اتفاق نہیں چاہتی تھی بلکہ وہ ہندو-مسلم اتحاد کی بھی داعی تھی۔ ہندو بھائیوں نے ہر جگہ مشاورت کے وفود اور اس کے جلسوں کا خیر مقدم کیا۔ البتہ کانگریس پارٹی اور اس کے وفادار مسلمان مجلس مشاورت کے اول روز سے خلاف تھے۔
اتحاد و اتفاق کی دعا کیجیے
مسلم مجلس مشاورت میں اختلافات 1967ء میں شروع ہو گئے تھے جب مرکزی حکومت نے لوک سبھا کے عام انتخابات کا اعلان کیا۔ مشاورت میں کانگریس کی حمایت پر دو واضح حلقے پیدا ہو گئے تھے۔ ایک اس کی حمایت کر رہا تھا تو دوسرا مخالف تھا۔ سب سے پہلے جمیعۃ علما بحیثیت جماعت مشاورت سے الگ ہوئی۔ پھر کچھ اہم افراد نے ساتھ چھوڑا۔ جمعیۃ علما کے اخبار الجمیعت نے تو مشاورت کے خلاف باقاعدہ محاذ کھول لیا۔ مشاورت کے لوگ کانگریس کو ہرا تو نہیں سکے البتہ اس کی قوت بہت کمزور ہو گئی۔ عام انتخابات میں وہ پہلی بار کم نشستوں سے جیتی۔ مشاورت میں دوسرا بڑا بحران اب تین چار سال سے پیدا ہوا ہے۔ یہ بحران خواہ مخواہ کا ہے۔ اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ پرانے تجربہ کار لوگ تو اب مسلم جماعتوں میں رہے نہیں۔ نئے آنے والے اپنی مرضی سے جماعتوں کو چلانا چاہتے ہیں۔ مشاورت میں موجودہ بحران کی وجہ بھی یہی ہے۔ حالانکہ وہ لوگ بھی مشاورت کی خدمت ہی کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے کام لینا چاہتے ہیں لیکن صلاح و مشورے کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ من مانی کا رجحان زیادہ ہے۔ دعا کیجیے کہ اللہ اس اجتماعی ادارے پر رحم و کرم کرے۔ اس میں اتحاد و اتفاق قائم کرے اور جن مقاصد کے لیے اس کا قیام عمل میں آیا تھا اس پر وہ یکسوئی کے ساتھ واپس آجائے۔