خبر ونظر

پرواز رحمانی
سنگھ کا طریقہ کار
یونیفارم سول کوڈ کا شر پھیلانے کے لیے آر ایس ایس یا بی جے پی نے عین وہی طریقہ ڈھونڈ لیا ہے جو وہ دوسرے میدانوں میں شر و فساد پیدا کرنے کے لیے ڈھونڈ لیتی ہیں۔ اس کا مقصد 2024 کے الیکشن کسی طرح جیتنا ہے۔ موجودہ لہر میں سب سے پہلے اس کا شوشہ وزیر اعظم مودی نے مدھیہ پردیش کے ایک بھاشن میں چھوڑا تھا۔ اس کے بعد سے یہ عام بحث کا موضوع بن گیا۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ کام کر رہا ہے گودی میڈیا یعنی سرکار کی گود میں بیٹھے ہوئے اینکر اور جرنلسٹس۔ یہ لوگ ہر روز نئی نئی اسٹوریاں نکال کر لا رہے ہیں، چنانچہ ایک چینل نے یہ شوشہ چھوڑ دیا کہ اس کے تازہ سروے کے مطابق ترسٹھ فیصد مسلمانوں نے یونیفارم سول کوڈ کی حمایت کی ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس دعوے کو فی الفور مسترد کر دیا ہے۔ چینل پر مقدمہ قائم کرنے کی آوازیں بھی سنائی دے رہی ہیں۔ حالانکہ یونیفارم سول کوڈ بھارت میں قابل عمل ہے ہی نہیں، بی جے پی صرف الیکشن جیتنے کے لیے ماحول کو اپنے حق میں بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہندوؤں میں ایک طبقہ ہے جو ان باتوں سے بہت خوش ہوتا ہے۔ بی جے پی اسی کو خوش کرنے اور ہندوؤں میں دائرہ کو وسیع کرنے کی خاطر یہ سب کر رہی ہے۔ جبکہ یہ چیز قابل عمل ہے ہی نہیں۔ اگر قابل عمل ہوتی تو وہ بہت سکون اور پیار سے اسے ملک کے سامنے پیش کرتی۔ جب ایسی کوئی چیز ہے ہی نہیں تو پیش کیا کرے گی؟ در حقیقت ملک کی معاشی ترقی اور مضبوطی کے لیے اس پارٹی کے پاس کوئی ایجنڈا ہے ہی نہیں۔ ہوتا تو اسے شر انگیز مسائل چھیڑنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ رام مندر کی بالجبر تعمیر، دفعہ 370 کے خاتمے اور گائے کی رکھشا کے نام پر لوگوں کو مارنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔

اسلام کو سمجھنے کی کوشش کیجیے
درست ہے کہ مسلم شہریوں کو اس وقت تک یکساں سول کوڈ کی بحث میں نہیں الجھنا چاہیے جب تک اس کا کوئی خاکہ سامنے نہیں آجاتا۔ البتہ شرارتوں کا جواب ضرور تیار رکھنا چاہیے۔ جیسا کہ چار بیویاں چالیس بچوں کے عنوان سے کی جا رہی ہیں۔ حالانکہ ان تمام شرارتوں کے جوابات مسلمانوں اور غیر مسلم دانشوروں کی جانب سے ماضی میں دیے جاچکے ہیں لیکن کوئی نہ کوئی شوشہ اب بھی چھوڑا جاتا ہے جیسا کہ ایک چینل نے چھوڑا ہے جس کا جواب مسلم پرسنل لا بورڈ دے چکا ہے۔ حیرت ہوتی ہے آر ایس ایس کے طرز زعم پر اور افسوس بھی، ترس بھی آتا ہے کہ اس نے اتنی بڑی قوت اکٹھا کرلی، سو سال میں کئی کام کیے لیکن اس کے مقاصد کماحقہ حاصل نہ کر سکی۔ کوئی اچھا اور تعمیری کام نہیں ہوا۔ وہ چاہتی تو اپنی قوت کو انسانوں کی امداد اور ملک کی خوشحالی کے لیے استعمال کرتی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ سنگھٹن انسانی زندگی کی حقیقت، اس زندگی کے بعد آنے والی زندگی یعنی زندگی بعد الموت کی حقیقت کو خود بھی سمجھتا اور اپنے لوگوں کے سامنے پیش کرتا، اس پر بحث کرواتا اور کسی نتیجے پر پہنچتا۔ اس ملک میں اسلام اس کے لیے پہلے دن سے مسئلہ بنا ہوا ہے تو اسے کھلے دل و دماغ سے اسلام کی حقیقت پر بھی غور کرنا چاہیے تھا۔ اس نے اپنے پہلے دن سے اسلام کو دشمن قرار دے لیا ہے اور اسی غلط سوچ میں ایک سو سال گزار دیے۔ موقع آج بھی ہے کہ وہ اسلام کی حقیقت کو سمجھے، پھر اسے یہاں مسلمانوں کی موجودگی بھی سمجھ میں آجائے گی۔ مسلمانوں کی زندگی، ان کا طرز عمل، مسائل میں ان کی شدت وغیرہ سب کچھ سمجھنا آسان ہو جائے گا۔
مسلم آبادی کا شوشہ
بی جے پی نے ایک اور شر انگیز بات پھیلا رکھی ہے، وہ یہ کہ مسلمانوں کی آبادی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور عنقریب ہندووں سے بڑھ جائے گی اور اس طرح بالآخر مسلمان ملک پر قبضہ کرلیں گے۔ مسلمان چار چار بیویاں رکھتے ہیں جن کے چالیس بچے ہوتے ہیں۔ سیدھے سادھے اور نا خواندہ لوگوں کے ہی نہیں پڑھے لکھے لوگوں کے ذہنوں میں بھی یہ بات بٹھادی گئی ہے۔ حالانکہ تعلیم یافتہ اور دانشور غیر مسلموں کی جانب سے اس جھوٹ کا پول بارہا کھولا جا چکا ہے جبکہ مسلمان تو اس کی تردید زور و شور سے کرتے آ رہے ہیں۔ حالانکہ آر ایس ایس یا اس کے کسی گروپ نے اعداد و شمار کبھی پیش نہیں کیے۔ مسلمان کئی بار چیلنج کر چکے ہیں کہ اگر سنگھ کے پاس کوئی ٹھوس جانکاری ہو تو ملک کے سامنے پیش کرے اور آج بھی کہتے ہیں کہ کوئی معلومات ہوں تو سب کے سامنے بتائے۔ ان لوگوں سے بحث و مباحثہ بھی کئی بار ہو چکا ہے لیکن ان کے پاس بتانے کو کچھ نہیں ہے۔ وہ یہ بتائیں کہ ملک میں کتنے مسلمان ہیں جن کی چار بیویاں ہیں یا دس بچے ہیں؟ اور اس سوال کا جواب بھی دیں کہ بالفرض کچھ مسلمانوں نے چار چار بیویاں رکھی ہوئی ہیں، لیکن اگر وہ نہ کرتے یعنی ایک مرد چار عورتوں سے نکاح نہ کرتا صرف ایک ہی پر اکتفا کرتا تو باقی تین کہاں جاتیں؟ وہ تین بھی تو آخر دوسرے مردوں سے نکاح کرتیں اور ان کے بچے بھی ہوتے۔ اس وقت سنگھ کے لوگ کیا کریں گے؟ یکساں سول کوڈ پر قدغن لگانے کے پیچھے یہ جھوٹ بھی ہے کہ مسلم آبادی اس طرح سے بڑھ رہی ہے۔