خبر و نظر
پرواز رحمانی
مساجد کا تقدس
مساجد میں عبادت کے لیے خواتین کا داخلہ کہیں بھی ممنوع نہیں ہے۔ قدیم تاریخی مساجد کے معائنہ کے لیے غیر مسلم خواتین بھی جاتی ہیں۔ امریکہ میں تو غیر مسلم مردوں اور خواتین کو مساجد کے معائنہ کی دعوت دی جاتی ہے۔ لوگ بہت شوق سے آتے ہیں، انہیں پورے احترام کے ساتھ معائنہ کرایا جاتا ہے۔ یہ تجربہ جماعت اسلامی ہند نے بھی کیا اور وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے۔ دلی کی شاہی جامع مسجد کو غیر ملکی سیاح بڑی تعدا دمیں دیکھنے آتے ہیں۔ ملکی مسافر مرد و خواتین بھی تقریباً روزانہ آتے ہیں۔ مسلم خواتین دن بھر آتی جاتی ہیں۔ شام کو خاص طور سے آتی ہیں۔ نماز بھی پڑھتی ہیں۔ احترام کے ساتھ رہتی ہیں۔ مگر کچھ عرصے محسوس کیا جا رہا تھا کہ کچھ غلط قسم کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی آجاتے ہیں اور غلط حرکات کرتے ہیں جس سے مسجد کا تقدس متاثر ہوتا ہے۔ اس لیے مسجد کی انتظامیہ نے اس اعلان کا بورڈ مسجد کے گیٹ پر لگا دیا کہ ’’مسجد میں لڑکیوں کا تنہا داخلہ ممنوع ہے‘‘۔
ہنگامہ کیوں تھا برپا
اس پر کچھ عناصر نے ہنگامہ برپا کرنے کی کوشش کی۔ دلی خواتین کمیشن کی سربراہ سواتی مالیوال نے مسجد انتظامیہ کے نام اپنے نوٹس میں بورڈ ہٹانے کی بات کی۔ اس کی وجہ بھی پوچھی۔ دلی کے لفٹننٹ گورنر نے شاہی امام سید احمد بخاری سے فون پر بات کی۔ ہندو مہا سبھا کے صدر نے بورڈ پر اعتراض کیا اور معافی مانگنے کو کہا۔ کچھ اور افراد نے بھی اس مسئلے کو ایک بڑا ایشو بنانے کی کوشش۔ معاملہ اس وقت سرد ہوا جب شاہی امام نے 23 نومبر کو ایک وضاحتی بیان میں واضح کیا کہ جامع مسجد میں نماز یا زیارت (معائنے) کے لیے داخلے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ البتہ مسجد کا تقدس پامال رکنے والی کسی بھی حرکت کی اجازت ہرگز نہیں دی جا سکتی۔ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کا یہی اصول ہے۔ بعض لڑکیاں تنہا آکر ہاتھ میں گلاب کا پھول لیے اپنے بوائے فرینڈ کا انتظار کرتی ہوئی پائی گئیں۔ شاہی امام نے کہا کہ یہ حرکات کسی بھی عبادت گاہ میں قابل برداشت نہیں ہیں۔ دلی میں آج کل میونسپل کارپوریشن کے انتخابات کا شور برپا ہے۔ کچھ لوگ اس ایشو سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مساجد کے تعارف کا کام کیجیے
اکھل بھارتیہ ہندو مہا سبھا کے صدر سوامی چکراپانی کا اس معاملہ میں کود پڑنا بتاتا ہے کہ ہندوتوا کی ذہنیت ابھی اس سیریز سے باہر نہیں نکلی جو دو سال قبل اس نے مسلم خواتین کو ہراساں کرنے سے شروع کی تھی۔ اس ذہنیت کا کام یہی ہے۔ کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں مسلم بچیوں کے نقاب پر پابندی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ دہلی میں حکومت عام آدمی پارٹی کی ہے لیکن بعض اہم امور میں لفٹننٹ گورنر کی چلتی ہے۔ لفٹننٹ گورنر مرکزی حکومت کے تحت کام کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے مسجد میں لڑکیوں کے مسئلے پر شاہی امام سے بات انہوں نے مشیروں میں کسی کے مشورے پر کی ہو لیکن سید احمد بخاری نے ان سے مدلل گفتگو کر کے انہیں مطمئن کر دیا ورنہ یہ معاملہ اور طول پکڑتا۔ میونسپل کارپوریشن کے انتخابات کے موقع پر اس کا قوی امکان تھا۔ ہندوتوا کی شر انگیز باتوں کا جواب مسلم امیدواروں کی طرف سے ضرور دیا جاتا۔ عام مسلمانوں کو اس معاملہ میں اب بالکل خاموش ہوجانا چاہیے۔ مساجد کے تقدس کا کام کرنا ہے تو وہ کام کیجیے جو امریکہ میں کیا جا رہا ہے اور جو یہاں بھی جماعت اسلامی کر رہی ہے۔ یہ مساجد کے تعارف کا کام ہے۔