خبر ونظر
پرواز رحمانی
ابھی کئی مسائل ہیں
کرناٹک میں خاطر خواہ کارکردگی کے بعد وزیر اعلیٰ کے سوال پر کانگریس ایک بڑے پیچ میں الجھ گئی تھی۔ پارٹی کے ریاستی صدر ڈی کے شیو کمار نے اپنی دعویداری پیش کردی تھی۔ پانچ دن کی لگاتار تگ و دو اور صلاح ومشورے کے بعد سدا رامیا کے نام پر اتفاق ہوگیا۔ ان کا نام پہلے سے لیا جا رہا تھا۔ ان سے کسی کو کوئی شکایت نہیں تھی، لیکن کانگریس کے آل انڈیا صدر ملکارجن کھرگے کے لیے ناراض لیڈر کو مطمئن کرنا بھی از حد ضروری تھا، بصورت دیگر اندیشہ تھا کہ بی جے پی شیو کمار کو اپنے پالے میں لے کر وزیر اعلیٰ کے طور پر ان کے نام کا اعلان کر دیتی۔ اس پارٹی کی قوت خرید بہت مضبوط ہے۔ بہر حال 18 مئی کی شام دلی میں اتفاق رائے ہوگیا اور 20 کو بنگلور میں سدا رامیا نے حلف لے لیا۔ اس طرح کانگریس کا اندرونی بحران تو ختم ہوگیا لیکن اسے اور اس کی حکومت کو ابھی کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ اسے اپنے وہ پانچ وعدے پورے کرنے ہیں جو اس نے اپنے انتخابی منشور میں کیے تھے۔ اس کے بعد اس کے سامنے رہے گا بجرنگ دل پر پابندی کا سوال، ہر چند کہ اس نے منشور میں یہ نہیں کہا تھا کہ ہم چارج لیتے ہی یہ کام کرلیں گے اور کچھ لیڈروں نے تو پابندی کے اعلان سے ہی انکار کیا ہے۔
ترپ کا پتہ محفوظ ہے
لیکن منشور میں پابندی کی بات کسی نہ کسی درجے میں بہرحال کہی گئی ہے۔ ادھر شکست خوردہ پارٹی بھی اپنے داو پیج، ہتھکنڈوں اور سیاسی جملوں کے ساتھ وزیر اعلیٰ کو پریشان کرنے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔ بی جے پی نے ہار تسلیم نہیں کی ہے، وہ اپنے مدھیہ پردیش، گوا اور کرناٹک کے پچھلے تجربات آزمانے کی کوشش ضرور کرے گی، جیسا کہ بہت پہلے سے کہا جا رہا تھا، کرناٹک کے انتخابات بی جے پی اور کانگریس دونوں کے لیے زندگی اور موت کا سوال ہوں گے۔ بی جے پی اگر ہارگئی تو 2024 بھی ہار جائے گی، اس کے بعد اس کے لیے اٹھنا مشکل سے مشکل تر ہوجائے گا۔ کانگریس ہاری تو پھر وہ کبھی نہیں سنبھل سکے گی۔ ایک مبصر نے کہا ہے کہ بی جے پی کرناٹک میں جان بوجھ کر ہاری ہے۔ وہ دو تین ریاستوں میں اور ہارے گی، ای وی ایم یعنی مشین کے ذریعے ووٹ ڈالنے کے طریقے کو وہ 2024 کے لیے بچا کر رکھنا چاہتی ہے۔ اگر کرناٹک میں وہ بڑی اکثریت کے ساتھ جیتتی تو 2024 میں اس کی تکنیک بے نقاب ہو جاتی۔ لوگ کہتے ہیں کہ ریاستوں کے الیکشن بھی وہ اسی طرح جیتی ہوگی۔
اب کیا ہوگا؟
کانگریس کے منشور میں بجرنگ دل کے حوالے کو بی جے پی نے بہت بڑا مسئلہ بنالیا تھا، اس نے کرناٹک میں تو کام نہیں کیا لیکن شمالی ہند میں جہاں بعض ریاستوں کے انتخابات ہونے والے ہیں، پارٹی اس سے ضرور کام لے گی، کیوں کہ اس کے لیے زمین پہلے سے ہموار ہے۔ ایک نمونہ پارٹی نے اس دوران دکھا بھی دیا تھا، جس دن بنگلورو میں کانگریس کا منشور شائع ہوا، اسی دن مدھیہ پردیش کے جبلپور میں بجرنگ دل نے کانگریس کے دفتر پر حملہ کر دیا اور توڑ پھوڑ کی۔ ویسے بھی شمالی ہند میں پارٹی کے پٹارے میں کئی شرارتیں ہیں۔ کرناٹک کے الیکشن نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ الیکشن جیتنے کے لیے بی جے پی کے پاس سوائے اقلیت دشمنی اور تخریب کاری کے اور کوئی کام نہیں ہے۔ وہ کوئی اچھا کام کرنا بھی چاہے تو نہیں کرسکتی۔ لوگ اس کے اچھے کام کو بھی شک کی نظروں سے دیکھیں گے، اس لیے کہ اس نے 70 سالوں میں اپنا کردار ہی ایسا بنالیا ہے۔ اب مذہبی اقلیتوں کو ہر لحاظ سے محتاط رہنا ہوگا۔ سنا ہے کہ پارٹی مسلم شہریوں کو بھی اعتماد میں لینے کی کوشش کررہی ہے، لیکن اس کے کسی پروگرام پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا الا کہ اس کا کوئی ٹھوس عمل سامنے آئے۔