خبرونظر
پرواز رحمانی
پولیس اور ججوں کی باتیں
ریاست اتراکھنڈ میں پچھلے دنوں جو نام نہاد دھرم سنسد ہوئی تھی۔ اس کے سلسلے میں سپریم کورٹ نے اتراکھنڈ سرکار سے کہا تھا کہ اپنی اسٹیٹس رپورٹ عدالت میں داخل کرے۔ یہ رپورٹ ابھی داخل نہیں کی گئی۔ البتہ اسی دوران دلی کے گووند پوری علاقے میں ہندو یووا واہنی نامی ایک سنگھٹن نے دھرم سنسد کا انعقاد کیا تھا۔ اس میں بھی پچھلی ’’دھرم سنسدوں‘‘ کی طرح انتہائی اشتعال انگیز بھاشن دیے گئے۔ ہندو راشٹر کے قیام کے لیے ایک خاص مذہبی فرقے کے قتل عام کی بات کی گئی۔ لیکن دلی پولیس نے سپریم کورٹ میں جو حلف نامہ پیش کیا ہے اس میں ان باتوں کا کوئی ذکر نہیں بلکہ کہا ہے کہ اس دھرم سنسد میں اشتعال انگیز تقریریں کی ہی نہیں گئیں۔ قتل عام کی وضاحت دلی پولیس نے یہ کی کہ یہ دھارمک خصوصیات بتانے کا ایک عمل تھا ، گویا لوگوں کو معلوم ہوسکے کہ دھرم کے تقاضے کیا ہیں۔ خوب۔ یعنی وہ مسلمانوں کے خلاف لوگوں کو مشتعل کرنے کا عمل نہیں تھا۔ اس پر ان جج صاحب کی بات یاد آئی جنہوں نے مسلمانوں کو بی جے پی کے لیڈروں کی مغلظات کے بارے میں کہا تھا کہ اگر بھاشن دینے والے نے یہ مسکرا کہا ہے تو اسے گالیاں دینا نہیں کہا جائے گا۔ کیا بات ہے۔ یہ سن کر گالیاں بکنے والا بھی دنگ رہ گیا ہوگا۔ یہ جج کی بات ہے، کسی ایرے غیرے کی نہیں ۔
پردھان سیوک کی پوزیشن
سیاسی لیڈروں کا اپنا انداز اپنا پیشہ ہوتا ہے۔ ایک گروہ کا پیشہ مخالفوں کو گالیاں دینا ہے حالانکہ جنہیں وہ مخالف کہتے ہیں وہ فی الحقیقت مخالف نہیں ہیں۔ انہیں مخالف بھی یہی سیاسی لیڈر کہتے ہیں۔ اس لیے کہ انہیں اپنی سیاست میں رنگ بھرنے کے لیے ایک مخالف کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر جسے وہ مخالف قرار دے لیں اس کے خلاف کچھ بھی کہتے ہیں بد سے بدتر زبان استعمال کرتے ہیں۔ اگر کہیں کا سیاسی اقتدار ان کے ہاتھ آجائے تو کیا کہنے پھر ان کے چیلے چپاٹے بھی وہی زبان بولتے ہیں اور ان سے بڑھ کر بولتے ہیں۔ دھرم سنسدوں میں جو زبان بولی جارہی ہے ۔ بولنے والوں کو وہ آج کے برسر اقتدار طبقے نے ہی سکھائی ہے۔ آج کے پردھان سیوک کی وہ باتیں کسی کو یاد نہیں ٹیوب ٹائر کے پنکچر بنانے والے، میاں مشرف کے پیرو کار وعیرہ وغیرہ۔ اسی لیے آج جب وہ کسی کو کوئی اچھی نصیحت کرتے ہیں تو خود ان کے اپنے لوگ ان کا مذاق اڑاتے ہیں وہ کہتے ہیں ’’ہم نے یہ سب آپ ہی سے سیکھا ہے‘‘۔ اس لیے پردھان سیوک کسی کو کوئی اچھی بات کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
شہریوں کی اکثریت؟
برسر اقتدار لوگوں کی نقالی ان کے لوگ تو کرتے ہی ہیں، سرکاری افسران بھی بغرض تحفظ ملازمت کچھ نہ کچھ رعایت ان کی کرتے ہیں لیکن اس بار دیکھا جارہا ہے کہ بیورو کریٹس یعنی سرکاری حکام کچھ زیادہ ہی چاپلوسی کررہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے کردار پرایک عرصے سے انگلیاں اٹھ رہی ہیں لیکن اسے اس کی کوئی پروا نہیں۔ پانچ ریاستوں کے حالیہ انتخابات میں الیکشن کمیشن کا جو رنگ دیکھا گیا اس سے پہلے نہیں دیکھا گیا ہوگا لیکن سب سے افسوس ناک طرز عمل عدلیہ کے ذمہ داروں کا رہا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے رام مندر والوں کے انتہائی کمزور اور بے جان مقدمے میں ان کے حق میں فیصلہ دیا۔ پھر اسی شام ساتھی ججوں کی فائیو اسٹار ہوٹل میں دعوت کی ۔ پھر فوراً ہی راجیہ سبھا کے ممبر بنادیے گئے۔ اس کے بعد اپنی خود نوشت میں ان تمام باتوں کا کھل کر ذکر کیا۔ گویا چیف جسٹس نے ایک روایت قائم کردی۔ اب بعد کے جج صاحبان اسی کو بنیاد بناکر یہ سب کرتے رہیں گے اور بہت سے سرکاری نمک خوار ہیں جو وقت ضرورت حق نمک ادا کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے کچھ چینلوں میں ایسے بہت سے لوگوں کا ذکر ہوتا رہتا ہے۔ دھرم سنسدوں میں گالیاں بکنے والے ان کے سامنے پھیکے پڑجاتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شہریوں کی اکثریت اس صورت حال کو کب تک برداشت کرتی ہے۔ اس کے اندر حرکت کب پیدا ہوتی ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 24 تا 30 اپریل 2022