قابومیں ہے بیرونی قرض، مگر خطرات برقرار

دنیا کی بڑی معیشت کو شرح نمو میں جمود کا خطرہ درپیش

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

وزارت مالیات کے معاشی امور کے مشیر کے ذریعہ جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق مارچ2022تک ہمارے ملک پر غیر ملکی قرض 620.7ارب ڈالر تھا جو گزشتہ سال کے اعداد و شمار 573.7 ارب ڈالر سے 8.3 فیصد زائد ہے۔ ہماری جی ڈی پی میں بیرونی قرض کا تناسب جو گذشتہ سال 21.3فیصد تھا اس سے گھٹ کر 19.9 فیصد ہوگیا ہے۔ اس طرح ہمارے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخیرہ میں کچھ کمی ہوئی ہے۔ بھارت کا بیرونی قرض میں 53.4فیصد امریکی ڈالر میں ہے جبکہ روپے میں لیے گئے قرض کا تناسب 31.2 فیصد ہے۔ اسی طرح طویل مدتی قرض کی مقدار تقریباً 499.2ارب ڈالر بتائی جاتی ہے جو کل قرض کا 80.5فیصد ہے اسے طویل مدت میں ادا کرناہے جبکہ قلیل مدتی قرض جس کی کھپت 121.7ارب ڈالر ہے جو غیر ملکی قرض کا 19.5فیصد ہے۔ آر بی آئی کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ پندرہ سالوں میں بیرونی قرض کا بوجھ لگاتار بڑھتا گیا ہے 2006میں یہ قرض 139.1ارب ڈالر تھا جو فی الحال 620 ارب ڈالر سے زیادہ ہوگیا ہے۔ اس مدت میں بھارت کی جی ڈی پی میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔ اسی مناسبت سے جی ڈی پی کے تناسب میں خارجی قرض کی مقدار بھی بڑھی ہے۔ معاشی سرگرمیوں کے بڑھنے سے باہر کے قرض میں اضافہ فطری ہے۔ اس کے ساتھ ہی معاشی سرگرمیوں اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہمیشہ ادھار میں ہوتا ہے۔ اس ادھار کا ایک حصہ عالمی بازار سے لیا جاتا ہے۔ ایسے قرض کو چکانے کے لیے کسی بھی ملک کے پاس اچھی خاصی مقدار میں غیر ملکی زر مبادلہ کا ذخیرہ ہونا چاہیے2008 میں کل قرض کی مناسبت میں خارجی زر مبادلہ کے ذخیرہ کا تناسب 1.38فیصد ہوگیا تھا جبکہ وہ 2014 میں کم ہوکر 68.2فیصد پر آگیا تھا لیکن 2021میں یہ 100.6فیصد اور 2022میں 97.8فیصد پر پہنچ گیا ہے۔ اس بنیاد پر موجودہ حالت میں قرض کی ادائیگی کے لیے ہمارے پاس اچھی خاصی مقدار میں خارجی زر مبادلہ کا ذخیرہ ہے۔ سری لنکا ہو یا پاکستان غیر ملکی زر مبادلہ کا ذخیرہ وہاں بہت ہی کم ہے۔
موجودہ حالات میں تشویش کی کوئی بڑی وجہ نہیں ہے مگر عالمی معیشت میں افراتفری کو دیکھتے ہوئے بھارت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا نہیں رہ سکتا ہے کیونکہ حالیہ دنوں میں ڈالر کے مقابلے میں روپیے کی قدر تیزی سے گر رہی ہے۔ اگر حالات یہی رہے تو مستقبل میں بیرونی قرض اور اس کی ادائیگی کا بڑھنا یقینی ہے۔ روپے کی قدر کو برقرار رکھنے کے لیے آر بی آئی دخل اندازی کرتا رہتا ہے۔ جس سے ریزرو وغیر ملکی زر مبادلہ کے ذخیرہ میں لگاتار کمی دیکھی جارہی ہے۔ ساتھ ہی بھارتی معیشت مالیاتی خسارہ کے دور سے گزر رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں مالیاتی خسارہ کو قابو میں رکھنے کے لیے آر بی آئی نے شرح سود میں اضافہ کیا ہے۔ اگر مالیاتی خسارہ میں اچھال کی حالت یہی رہی تو شرح سود میں مزید اضافہ کرنا پڑسکتا ہے۔ جس سے ممکن ہے کہ شرح نمو سست پڑجائے۔ نتیجتاً جی ڈی پی کے مقابلے خارجی قرض کا تناسب بڑھ سکتا ہے اور یہ ایک تشویش کی بات ہے کہ باہری قرض میں غیر سرکاری شعبوں کی شراکت بڑھتی جارہی ہے۔ جس سے ادائیگی میں مزید چیلنجز بڑھ سکتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کی بڑی معیشت کے سامنے شرح نمو میں جمود کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ اس سے بھارتی برآمدات کے لیے طلب کم ہوسکتی ہے۔ برآمدات سے ہونے والی آمدنی میں کمی سے قرض کی ادائیگی کے تناسب پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ فیڈرل بینک مالیاتی خسارہ کو قابو میں کرنے کے لیے گھریلو شرحوں میں اضافہ جاری رکھے گا۔ اس لیے ہماری معیشت سے سرمایہ کی بے دخل تسلسل سے جاری رہ سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو بھارتی غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخیرہ میں کمی ہوجائے گی۔
کسی بھی ملک کے قرض کی ادائیگی کا تناسب وہ اعداد و شمار ہیں جن میں قرض (راس المال اور سود) کی ادائیگی ملک کے برآمدات کی آمدنی سے کی جاتی ہے۔ بھارت کا یہ تناسب 2006 میں 10.1فیصد تھا جو 2011میں 4.4اور 2016 میں 8.8فیصد پر آگیا امسال اس کے 5.2فیصد رہنے کا امکان ہے۔ اس لیے فی الحال بھارت کے لیے چیلنج بہت زیادہ نہیں ہے مگر قلیل مدتی رقم کی بطور قرض ادائیگی کسی معیشت کے لیے خطرناک ہوسکتی ہے۔ سال 2006 میں غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخیرہ کے مقابلہ میں بھارت پر قلیل مدتی قرض کا تناسب 12.9فیصد تھا اور کل غیر ملکی قرض میں ایسے قرض کا تناسب 14فیصد تھا۔ 2013میں یہ اعداد و شمار 33.1اور23.6فیصد ہوگئے۔ مگر 2021میں اس کی مقدار بالترتیب 17.5اور17.6فیصد رہ گئی جبکہ 2022میں اس میں کچھ اضافہ ہوکر 20 اور 19.6کی سطح پر پہنچ گئی جو ثابت کرتی ہے کہ فوری طور پر بھارت کے سامنے خطرہ نہیں ہے فی الحال بھارت کے غیر ملکی قرض میں غیر سرکاری قرض کی مقدار زیادہ ہے۔ 2022میں کل غیر ملکی قرض میں حکومت کی شراکت تقریباً 21فیصد تھی جبکہ غیر سرکاری شراکت 79فیصد تھی۔
اکتوبر 2022کے ورلڈ اکنامک آوٹ لک میں شائع شدہ ایک نوٹ میں آئی ایم ایف نے بڑی تیزی سے آنے والی عالمی مندی کے متعلق متنبہ کیا ہے ساتھ ہی افراط زر کے اوپر جانے کا عندیہ بھی دیا ہے اور 2023کے عالمی شرح نمو کو ریوائز کرتے ہوئے تیزی سے تنزلی کا اشارہ دیا ہے عالمی شرح نمو کو 2021 میں 6.1فیصد سے کم کرکے 2022 میں 3.2 فیصد اور 2023 میں 2.7فیصد کردیا گیا ہے اس کے ساتھ ہی عالمی افراط زر (Inflation 2021)کے 4.7فیصد سے بڑھ کر 8.8فیصد 2022 میں ہوجانے کا امکان ہےاور 2023میں6.1فیصد سے تھوڑا کم ہوکر 2022میں 6.8فیصد پر آجانے کا امکان ہے اور 2023 میں 6.1فیصد تک متوقع ہے۔ واضح رہے کہ مندی شرح نمو کو زخم دیتی ہے اور روزگار ناپید ہوجاتاہے۔ ایسے حالات میں افراط زر کا چیلنج عوام الناس کو متاثر کرتا ہے۔ خاص طور سے ان لوگوں کو جن کی آمدنی متعین ہوتی ہے۔ یہ دونوں مل کر سماجی اور سیاسی صورتحال تقریباً تباہ کردیتے ہے۔ گرچہ بھارت کا شرح نمو خوشنما لگ رہا ہے مگر افراط زر بھی اونچائی پر ہے۔ روپے میں ڈالر کے مقابلے میں گراوٹ اور توانائی میں غیر ملکوں پر انحصار ہماری پوزیشن کو ابتر کررہا ہے۔ اس سے یوروزو ن، امریکہ چین سے طلب میں کمی ہوگی جس سے برآمدات کو نقصان پہنچے گا ویسے بھی ہمارا تجارتی خسارہ بہت زیادہ ہے۔ دوسری طرف ہماری گھریلو طلب بھی زور دار نہیں ہے جو شرح نمو کو تیز گام کرے۔ سست رو سرمایہ کاری، اشیا کی قیمتوں میں اضافہ شرح سود میں زیادتی کی وجہ سے صنعتکار مزید سرمایہ کاری سے گریز کررہے ہیں۔ بھارت میں مائکرومعیشت بہتر نہیں ہے کہ روزگار کے مواقع فراہم کرے۔ کورونا قہر نے غربت و افلاس میں بہت زیادہ ہی اضافہ کردیا ہے اور نتیجتاً جس نے مائیکرو اسمال اور میڈیم صنعتوں کا بھٹہ بٹھادیا ہے ۔یوکرین اور روس کی مسلسل جنگ نے وبا سے پیدا شدہ افراط زر کو طوفانی بنادیا ہےاور 2023تک عالم انسانیت کے لیے غیر یقینی صورتحال پیدا کردی ہے۔ ایسے حالات میں بھارت اپنی اچھی منصوبہ بندی کے ذریعہ گھریلو طلب کو بڑھا سکتا ہے اور سرمایہ کاری کے لیے زمین ہموار کرسکتا ہے۔
***

 

***

 یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کی بڑی معیشت کے سامنے شرح نمو میں جمود کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ اس سے بھارتی برآمدات کے لیے طلب کم ہوسکتی ہے۔ برآمدات سے ہونے والی آمدنی میں کمی سے قرض کی ادائیگی کے تناسب پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ فیڈرل بینک مالیاتی خسارہ کو قابو میں کرنے کے لیے گھریلو شرحوں میں اضافہ جاری رکھے گا۔ اس لیے ہماری معیشت سے سرمایہ کی بے دخلی تسلسل سے جاری رہ سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو بھارتی غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخیرہ میں کمی ہوجائے گی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 نومبر تا 12 نومبر 2022