کشمیری پنڈتوں نے جموں و کشمیر کی انتظامیہ پر انھیں وادی چھوڑنے سے روکنے کا الزام لگایا
نئی دہلی، جون 2: بحال شدہ کشمیری پنڈتوں میں سے درجنوں ملازمین نے بدھ کے روز جموں و کشمیر انتظامیہ پر انھیں وادی سے باہر جانے کی اجازت نہ دینے کا الزام لگایا۔ منگل کے روز انھوں نے حکومت کو ان کی کشمیر سے جموں منتقلی کا بندوبست کرنے کے لیے 24 گھنٹے کی ڈیڈ لائن دی تھی۔
وزیر اعظم کے خصوصی بحالی پیکیج کے تحت تقریباً 4000 کشمیری پنڈت کام کر رہے ہیں۔ 12 مئی کو بڈگام ضلع کے چاڈورہ علاقے میں ایک کشمیری پنڈت راہل بھٹ کو اس کے دفتر میں گولی مار کر ہلاک کرنے کے بعد نقل مکانی کا مطالبہ کرنے والے مظاہروں نے زور پکڑا ہے۔
جمعرات کو کولگام میں ایک غیر مقامی ہندو بینک مینیجر کے قتل کے بعد احتجاج نے مزید شدت اختیار کر لی۔ مقتول کی شناخت راجستھان کے وجے کمار کے طور پر ہوئی ہے، وہ دوسرا ہندو تھا جسے عسکریت پسندوں نے گزشتہ تین دنوں میں گولی مار کر ہلاک کیا ہے۔
جمعرات کو وادی میں تارکین وطن کشمیری پنڈتوں کی کالونیوں کے باہر بڑی تعداد میں سیکورٹی فورسز کو دیکھا گیا۔ زیادہ تر تارکین وطن ملازمین نے اپنی حفاظت کے خدشات کی وجہ سے کام بھی چھوڑ دیا ہے۔
جنوبی کشمیر کے اننت ناگ ضلع میں مہاجر کشمیری پنڈتوں نے حکومت اور سیکورٹی فورسز پر الزام لگایا کہ وہ انھیں وادی چھوڑنے سے روک رہے ہیں۔
بڈگام میں ایک کشمیری پنڈت نے اسکرول ڈاٹ اِن کو بتایا ’’ہم یہاں مزید محفوظ محسوس نہیں کرتے۔ جس طرح سے ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے، ہم پریشان ہیں۔ اگر حکومت ہماری مدد نہیں کرنا چاہتی تو ٹھیک ہے۔ وہ ہمیں بانہال تک سیکورٹی دیں اور ہم خود چلے جائیں گے۔‘‘
دریں اثنا مہاجر کشمیری پنڈتوں نے جموں میں شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف بھی مظاہرے کیے۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ کشمیر میں ان کے رشتہ داروں کو ان کی حفاظت کے لیے جموں منتقل کیا جائے۔
جنوری سے لے کر اب تک کشمیر میں کم از کم 18 ٹارگٹ کلنگ کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں پولیس اہلکار، اساتذہ اور گاؤں کے سربراہان شامل ہیں۔ ان میں سے 12 شہری تھے – پانچ ہندو اور سات کشمیری مسلمان۔
ان میں سے بہت سے لوگوں کو ان کے گھروں یا کام کی جگہ پر گولی مار دی گئی۔