کشمیری صحافی آصف سلطان کے خلاف ضمانت ملنے کے ایک دن بعد پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا
نئی دہلی، اپریل 11: دی اسکرول ڈاٹ اِن کی خبر کے مطابق کشمیری صحافی آصف سلطان کے خلاف اتوار کو جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ ایک دن قبل ہی انھیں سرینگر کی خصوصی عدالت نے ضمانت دی تھی۔
جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ حکام کو اجازت دیتا ہے کہ وہ افراد کو بغیر کسی مقدمے کے دو سال تک حراست میں رکھ سکیں تاکہ انھیں کسی بھی ایسے طریقے سے کام کرنے سے روکا جا سکے جو ’’ریاست کی سلامتی یا امن عامہ کی بحالی‘‘ کے لیے نقصان دہ ہو۔
35 سالہ صحافی کو اگست 2018 میں گرفتار کیا گیا تھا جب پولیس نے الزام لگایا تھا کہ وہ کالعدم عسکریت پسند گروپ حزب المجاہدین کے لیے کام کرتا تھا۔
5 اپریل کو سرینگر میں خصوصی جج کی ایک خصوصی قومی تحقیقاتی ایکٹ عدالت نے اس کیس میں سلطان کو 2 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
ضمانت نامے میں کہا گیا ہے ’’ریکارڈ پر نہ تو کوئی براہ راست ثبوت ہے اور نہ ہی کوئی ٹھوس ثبوت ہے جس سے ملزم/درخواست گزار کو مبینہ جرم سے جوڑا جا سکے‘‘
تاہم سلطان کے وکیل کے مطابق ضمانت کا حکم جاری ہونے کے بعد بھی صحافی کو رہا نہیں کیا گیا۔
سلطان کے وکیل عادل عبداللہ پنڈت نے کہا کہ ’’ہم انتظامیہ کی جانب سے عدالت کے حکم کی تعمیل کا انتظار کر رہے تھے۔ لیکن اسے رہا نہیں کیا گیا اور ان تمام دنوں اسے غیر قانونی حراست میں رکھا گیا۔‘‘
پنڈت کے مطابق سلطان کو جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں اس لیے لیا گیا ہے کیوں کہ عدالتی حکم کے مطابق ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے۔
پنڈت نے کہا ’’عدالت کی طرف سے دیا گیا حکم کافی ہے اور اس نے واضح طور پر کہا ہے کہ اس پر بغیر کسی ثبوت کے مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اب یہ واضح طور پر ثابت ہو گیا ہے کہ اس پر پہلے مقدمہ کیوں درج کیا گیا تھا اور کیوں اس کی حراست کو تقریباً چار سال تک طول دیا گیا تھا۔‘‘
وکیل نے یہ بھی کہا کہ انھیں اور سلطان کے اہل خانہ کو صحافی کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ کے بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا۔
جنوری کے بعد سے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کسی صحافی کو حراست میں لینے کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔
جنوری میں ایک مقامی کشمیری صحافی سجاد گل کو مجرمانہ سازش کے مقدمے میں ضمانت ملنے کے ایک دن بعد اس ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
مارچ میں نیوز پورٹل دی کشمیر والا کے چیف ایڈیٹر فہد شاہ پر بھی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ شاہ کے خلاف درج تین مقدمات میں سے دو میں انھیں ضمانت مل گئی۔