کشمیر میں بےروزگاری کا بحران گہرا ہورہا ہے
2.5 لاکھ تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار۔ پی ایچ ڈی اسکالرس،ایم فل اور پوسٹ گریجویٹس شامل:سروے
ندیم خاں ، بارہمولہ کشمیر
سرکاری و نجی اداروں سے روزگار کی فراہمی اور نوجوانوں کو ہنرمند بناکر خانگی شعبہ سے جوڑنے کی ضرورت
بے روزگاری ہمارے معاشرے کا ایسا روگ ہے جو بےشمار برائیوں اور طرح طرح کے جرائم پھیلنے کا سبب بن رہا ہے۔ اگر نوجوانوں کو اچھی تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ بہتر روزگار بھی فراہم کیا جائے تو جرائم کی شرح میں کافی حد تک کمی آ سکتی ہے مگر افسوس کہ ریاست جموں و کشمیر میں بے روزگاری کی شرح میں مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ آج کل جس طرف دیکھیے بےروزگاری کا رونا رویا جا رہا ہے۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ کئی نوجوان تو نامور تعلیمی اداروں سے پڑھ کر بھی چہرے پر بے یقینی اور ناکامی کا لیبل سجائے باہر آتے ہیں۔ بقول شاعر
کالج کے سب بچے چپ ہیں کاغذ کی اک ناؤ لیے
چاروں طرف دریا کی صورت پھیلی ہوئی بے کاری ہے
بے روزگاری ایک ایسا مسئلہ ہے جو دوسرے بہت سارے مسائل کو جنم دیتا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق کشمیر میں بہت سارے اعلیٰ تعلیم یافتہ طلبا بےروزگار ہیں۔ سرکاری ادارے ہوں یا نجی دفاتر، بیشتر اعلیٰ دماغ نوکری کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اپنی حاصل کردہ ڈگریوں کو وہ حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ محنت سے کمایا ہوا پیسہ، طاقت اور دوسرے وسائل کو بروئے کار لاکر نوجوانوں نے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کی تھیں، مگر اب حالات ایسے ہیں کہ وہ خود اپنا پیٹ بھی نہیں پال سکتے ہیں۔ ان جوانوں پر کیا گزر رہی ہے صرف وہی جانتے ہیں۔ اپنی فکر، ماں باپ کی فکر، بھائی بہنوں کی فکر اور سماج کے توقعات پر کھرا اترنا، یہ سب چیزیں ایک نوجوان کو چین سے جینے نہیں دیتیں۔ کب تک ایک نوجوان ماں باپ کی کمائی پر پلتا رہے گا؟ کب اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا خواب پورا ہوگا؟ کب وہ اپنی کمائی سے ماں باپ کو خوش کرے گا؟
ایسے کتنے ہی سوالات ہیں جو آج کے نوجوان کی زندگیوں کو بد سے بدتر بنا رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ اب مایوسی اور ذہنی تناؤ کی شکلوں میں نکل کر آیا ہے۔ مستقبل کی فکر نوجوان کو کھائے جارہی ہے۔ ایک فارم کو بھرنے کے لیے پانچ سو روپے وہ ماں باپ سے لیتا ہے۔ اب جہاں فارم بھرنا ہے وہاں تک جانے کے لیے بھی کرایہ والدین سے مانگتا ہے۔ امتحان کے دنوں بھی کرایہ کا خرچہ والدین کے کندھوں پر ہوتا ہے۔ پھر جب نتائج آتے ہیں تو وہ امیدوار کامیاب ہوتے ہیں جن کے پاس رشوت اور اثرورسوخ ہوتا ہے۔ ہاں مگر وہ غریب نوجوان امتحان میں کامیاب تو ہوتا ہے مگر نتائج آنے کے بعد امتحان کو ہی رد کیا جاتا ہے کیونکہ امتحان دھاندلیوں کا شکار ہوا تھا۔ تو اس صورتحال میں اب یہ امید لگائے بیٹھنا کہ نوجوان اپنی توانائیاں کارآمد کاموں میں صرف کریں گے ایک سراب کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
حال ہی میں چھ لاکھ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے 1800 اکاؤنٹ اسسٹنٹ آسامیوں سمیت دس ہزار درجہ چہارم ملازمتوں کے لیے درخواستیں دی ہیں، جس سے جموں وکشمیر میں بے روزگاری کی صورتحال کا پتہ چلتا ہے۔ حکومت ہند کو ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ بے روزگارنوجوانوں میں مایوسی کی سطح کا تصور کرنا چاہیے۔ حالیہ سروے کے مطابق ڈھائی لاکھ تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوان نے جن میں پی ایچ ڈی اسکالر، ایم فل طلبا اور پوسٹ گریجویٹ شامل ہیں، گزشتہ برس محکمہ روزگار کی طرف سے جموں وکشمیر میں بے روزگار افراد کی تعداد کا پتہ لگانے کے لیے شروع کی گئی مہم کے دوران اپنا اندراج کرایا ہے، اس میں کثیر تعداد میں وہ گریجویٹ اور انڈر گریجویٹ شامل نہیں ہیں جنہوں نے اپنا رجسٹریشن نہیں کرایا تھا۔
ہم نے اسی حوالے سے اعلیٰ تعلیم یافتہ جاوید احمد ڈار ولد محمد سبحان ڈار سے بات چیت کی جن کا تعلق بارہمولہ کے چندوسہ علاقے سے ہے۔ انہوں نے کہا وہ اپنا ایم اے بی ایڈ سال 2017 میں مکمل کر چکے تھے لیکن کہیں ملازمت نہیں پا سکے۔ درجنوں فارم اور امتحانات میں حصہ لیا لیکن اگرچہ انہوں نے بہت بار امتحان میں کامیابی حاصل کی تھی، لیکن کہا گیا کہ اس امتحان میں دھاندلی ہوئی ہے اور امتحان کو رد کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ کئی بار پیسے اور اثر رسوخ والوں کو ہی جگہ ملی، وہ غریب تھے ان کے پاس وہی فارم بھرنے کے پانچ سو روپے تھے، اس کے بعد انہوں نے ریڑھی پر سبزی بیچنا شروع کیا کیوں کہ وہ گھر والوں پر بوجھ بننا نہیں چاہتے تھے آخر کار وہ ایم اے بی ایڈ ریڑھی والے بن گئے۔اس کے ساتھ ایک اور بے روزگار تعلیم یافتہ نوجوان سے بات چیت ہوئی جس کا نام سجاد احمد لون اور تعلق سوپور سے ہے۔ ان کا بھی حال کچھ ایسا ہی تھا۔ تین مضامین سے ایم اے کر چکے ہیں لیکن نوکری انہیں بھی نہیں مل سکی۔ انہوں نے ڈھابے پر ویٹر کی نوکری شروع کر دی۔ جاوید اور سجاد جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ بےروزگار نوجوانوں کی لاکھوں مثالیں آپ کو ہماری ریاست میں دیکھنے کو ملیں گی، لیکن کوئی ان ہونہار طالب علموں کی روداد سننے کو تیار نہیں۔
بے روزگاری ایک ایسی لعنت ہے جو اپنے ساتھ دوسری بہت سی مصیبتیں لے کر آتی ہے۔ بے روزگاری، مفلسی، بھوک اور بیماری کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ان کا اثر ایک طرف تو بے روزگار شخص اور کنبے کے تمام افراد کی جہالت، بد حالی اور پریشانی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے تو دوسری طرف بے روزگاری اور غریبی کی وجہ سے طرح طرح کی اخلاقی اور سماجی برائیاں پیدا ہوتی ہیں جیسے عصمت فروشی، چوری، ڈاکہ زنی، بے ایمانی وغیرہ۔ واقعات کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ ان جرائم کا ایک بڑا سبب بے روزگاری اور مفلسی ہوتی ہے۔ بے روزگاری کے انفرادی اور سماجی نقصانات کے علاوہ سب سے بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ بے روزگاری کا اثر ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔ دنیا کی نظر میں وہ ملک پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ سمجھا جاتا ہے جو اپنے باشندوں کی ایک بڑی تعداد کو نوکریاں بھی فراہم نہیں کر سکتا۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بیروزگاری کا مطلب ہے ملک کے تعلیمی منصوبوں سے جو ملک کو ترقی اور فائدہ ہونا چاہیے تھا وہ سب بیکار اور ضائع ہو رہا ہے۔
معاشرے میں بے روزگاری ایک سماجی برائی تصور کی جاتی ہے جس سے خطرناک حالات جنم لیتے ہیں اس سے فاقہ طاری ہوتا ہے، بیماریاں پھیلتی ہیں جو موت کے منہ میں لے جاتی ہیں۔ یہ معاشی زہر پورے معاشرے میں پھیل جاتا ہے اس سے ملک کی سیاسی صورت حال بھی متاثر ہوتی ہے۔ بے روزگاری قانون کا احترام کرنے والے اچھے شہریوں کو بھی مجرم اور ڈاکو بنا دیتی ہے۔ اس سے بدعنوانی پھیلتی ہے جھوٹ بڑھتا ہے، برائیاں پھیلتی ہیں اور انسانی کردار کا تاریک پہلو سامنے آجاتا ہے۔ بے روزگار آدمی سے شرافت اور ایمانداری کی توقع کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے بیوی بچوں کے لیے دو وقت کا کھانا اور بیماری میں دوائی فراہم نہیں کرسکتا تو اس سے اچھے امور کی توقع کرنا کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتا جارہا ہے اور غربت کا سب سے بڑا طبقہ مزید نچلی سطح عبور کررہا ہے۔ اور یہی حقیقت ہے۔ آئے دن سننے میں آتا ہے کہ فلاں جگہ دو وقت کی روٹی میسر نہ آنے پر ماں نے اپنے بچوں سمیت خود سوزی کرلی ہے۔ باپ اپنے بیوی بچوں سمیت دریا برد ہوگیا۔ اگر غربت کم کرنے پر سچے دل سے کام کیا جائے اور غریب طبقے کو ہنر مندی سکھا کر روزگار دیا جائے تو بے روزگاری میں آہستہ آہستہ کمی آسکتی ہے۔
پھر سوالات آتے ہیں کہ کیا جموں و کشمیر میں غربت کو مٹایا جاسکتا ہے؟ میرا جواب ہوگا کہ ہاں! ضرور مٹایا جا سکتا ہے اگر حکمران منصوبہ سازی سے کام لیں کہ جموں و کشمیر کو غریبوں سے نہیں غربت سے پاک کرنا ہے تو کچھ منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ کشمیر میں تعمیر نو ہو، بے روزگار اور بے گھر لوگوں کو گھر بنا کر دیے جائیں، اور ساتھ ہی ہنر مندی کا کام سکھایا جائے، مرد و خواتین کو ہنر مند بنایا جائے۔ خواتین گھریلو سطح پر کام کرکے اپنی غربت میں کمی لاسکتی ہیں اور ہنر مند افراد کو ان کی صلاحیت کے اعتبار سے روزگار دیا جائے، اس کے علاوہ تعلیم اور علاج مفت ہو۔ حکومت اور نجی شعبہ کے ملازمین کے لیے مفت رہائش اور زمیندار طبقہ کو گزارے کے لائق اراضی دی جائے۔ کاروبار کے لیے لوگوں کو آسان اقساط پر بلا سود قرضے دیے جائیں۔ غربت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ موجودہ معاشی اور سیاسی نظام بھی یکسر تبدیلیاں آتی جائیں گی۔ وہ بھی پوری طرح آئین و قانون کے تحت جمہوریت وسیع ترین شکل میں آئیں گی۔ جب ریاست کشمیر میں الیکشن کا وقت ہوتا ہے اور حکمران ووٹ مانگنے آتے ہیں تو وہ بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں۔ پہلے وہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو جال میں پھنساتے ہیں کہ ہم آپ کو نوکریاں دیں گے آپ ہمیں ایک بار موقع دیں۔ مگر افسوس کہ جب عوام کے ووٹوں سے جیت کر اقتدار میں پہنچتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے انہی ووٹروں اور حمایتیوں کو بھول جاتے ہیں۔ اور حقیقت یہی ہے کہ آج تک عوام کو صرف ووٹ کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے، اور اقتدار تک پہنچ کر عوام کو بھلایا جاتا رہا ہے۔ امیر کے پڑوس میں بھوک رقص کرتی ہے مگر امیر کبھی غریب کے گھر میں جھانکنا پسند نہیں کرتا۔ کیا ہمارے معاشرے میں صرف گوشت پوست کے انسان رہ گئے ہیں؟ انسانیت مر گئی ہے؟ ہم اتنے بے حس کیسے ہوگئے؟ ہم تو مسلمان ہیں پھر اتنی بے حسی کیوں ہے؟ ہمیں اپنے سوا دوسرا کیوں نظر نہیں آتا؟
اگر جموں و کشمیر میں بھی نجی سیکٹر کو فروغ دیا جاتا اور بڑے بڑے کار خانے لگائے جاتے تو بے روزگاری پر قابو پایا جا سکتا تھا۔ اب ضرورت ہے کہ حکومت اس ضمن میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں زیادہ سے زیادہ نوکریوں کے مواقع پیدا کرے۔ سیاسی یا مذہبی مسائل کو نظر انداز کر کے پوری انسانیت کی ترقی کے بارے میں سوچے۔ اگر ہم واقعی نوجوانوں کی موجودہ صورتحال پر سنجیدہ ہیں تو ہمیں جلد سے جلد کوئی حل ڈھونڈنا پڑے گا۔ ہم ریاست جموں و کشمیر کے نوجوانوں کو مایوسیوں کے دلدل میں جاتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے۔ میری دعا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر سے غربت کا خاتمہ ہوجائے۔ ہمارے پڑھے لکھے نوجوانوں کو روزگار ملے اور پھر کوئی بھوک کی وجہ سے اپنے بچوں سمیت خود کشیاں نہ کرے اور ہمارے ملک سے غربت ختم ہو اور ریاست کے سارے لوگ سکون و راحت کی زندگی بسر کریں اور ان کی آنکھوں میں سجے سب خواب پورے ہوں۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مارچ تا 18 مارچ 2023