کرناٹک: سری رام سینا کا کہنا ہے کہ وہ ’’غیر قانونی‘‘ گرجا گھروں اور مساجد کی فہرست تیار کر رہی ہے
نئی دہلی، مئی 18: ہندوتوا تنظیم سری رام سینا نے کہا ہے کہ وہ کرناٹک میں ایسے گرجا گھروں اور مساجد کی فہرست تیار کر رہی ہے جو ان کے دعوے کے مطابق غیر قانونی ہیں۔
تنظیم کے سربراہ پرمود متھالک نے الزام لگایا کہ کچھ شہریوں نے صلیبیں لگا کر اور وہاں عبادت کر کے اپنے گھروں کو گرجا گھروں میں تبدیل کر دیا ہے۔ انھوں نے الزام لگایا کہ ایسے مقامات کو مذہب کی تبدیلی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
متھالک نے دعویٰ کیا کہ کرناٹک میں اس طرح کے 500 سے زیادہ غیر رسمی چرچ ہیں۔
دی کوئنٹ کی خبر کے مطابق 13 مئی کو سری رام سینا کے سربراہ نے ایسے گرجا گھروں کو بلڈوزر سے گرانے کا مطالبہ کیا تھا۔ میسور میں ایک تقریب میں انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ہر روز ہزاروں ہندوؤں کو عیسائی بنایا جا رہا ہے۔
متھالک نے کہا ’’تبدیلی دھوکے سے اور زبردستی کی جا رہی ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کا واحد طریقہ تبدیلیٔ مذہب کے خلاف سخت قانون لانا اور غیر قانونی گرجا گھروں کو بلڈوز کر کے منہدم کرنا ہے۔‘‘
منگل کو کرناٹک کے گورنر تھاورچند گہلوت نے جبری تبدیلیٔ مذہب کے خلاف بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کی طرف سے متعارف کرائے گئے آرڈیننس کو منظوری دی۔ آرڈیننس ایک عارضی قانون ہے جو صدر یا گورنر کے ذریعہ اس وقت منظور کیا جاتا ہے جب پارلیمنٹ یا ریاستی اسمبلی کا اجلاس نہیں ہوتا ہے۔
قانون ساز اسمبلی نے دسمبر میں کرناٹک پروٹیکشن آف رائٹ ٹو فریڈم آف ریلیجن بل 2021 منظور کیا تھا۔ تاہم اسے قانون ساز کونسل میں پیش نہیں کیا گیا، جہاں بی جے پی کی اکثریت نہیں ہے۔
دریں اثنا ایک اور ہندوتوا تنظیم نریندر مودی سوچر منچ نے کرناٹک میں مساجد کے سروے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ ان مقامات پر ہندو یادگاروں کے شواہد تلاش کیے جا سکیں۔ تنظیم کے مطابق ایسے شواہد میں مورتیاں، کلیانیاں یا مندر کے ٹینک یا مندروں کے دروازے شامل ہو سکتے ہیں۔
پچھلے کچھ مہینوں میں کرناٹک میں ہندوتوا گروپس نے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے کئی مہمات شروع کی ہیں۔
فروری میں ہندو طلبا اور مردوں کے ہجوم نے کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں مسلم خواتین کے حجاب پہننے کے خلاف احتجاج کیا۔ کچھ کالجوں میں مسلم طالبات سے بدتمیزی کی گئی، جب کہ ایک اور معاملے میں کچھ لوگ زعفرانی جھنڈا لگانے کے لیے کھڑکیوں پر چڑھ گئے اور کلاس رومز میں گھس گئے۔
15 مارچ کو کرناٹک ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ حجاب پہننا اسلام کے لیے ضروری نہیں ہے۔ اس نے 5 فروری کے کرناٹک حکومت کے اس حکم کو برقرار رکھا تھا جس میں ایسے کپڑوں پر پابندی عائد کی گئی تھی جو ‘‘مساوات، سالمیت اور امن عامہ کو خراب کرتے ہیں۔‘‘
اپریل میں ایک ہندوتوا گروپ نے ہندوؤں پر زور دیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے ذریعہ چلائے جانے والی ٹیکسی خدمات اور ٹرانسپورٹ آپریٹرز کو ملازمت نہ دیں۔ ہندوتوا گروپس نے مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر بھی پابندی لگانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ یہ آواز کی آلودگی کا باعث بنتے ہیں۔