کرناٹک سے کانگریس کے ایم پی یہ کیا کہہ گئے ۔۔

جنوبی ہند سے سوتیلا برتاو ایک حقیقت لیکن علیحدگی کا مطالبہ معقولیت سے عاری

زعیم الدین احمد حیدرآباد

ملک کی سالمیت کی خاطر حکم راں مختلف ریاستوں کو سیاسی فائدے کی عینک سے نہ دیکھیں
پارلیمنٹ میں کانگریس کے ایک ایم پی ڈی کے سریش جن کا تعلق ریاست کرناٹک سے ہے انہوں نے جنوبی ہند کو الگ ملک بنانے کا مطالبہ کردیا۔ ان کے اس مطالبے کو دیکھ کر ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا واقعی اس طرح کا مطالبہ عوام کے اندر بھی پایا جاتا ہے؟ کیا موجودہ حکومت جنوبی ہند اور شمالی ہند کو الگ نگاہوں سے دیکھتی ہے؟ میرے خیال میں عوام میں شاید اس طرح کا رجحان نہیں پایا جاتا اور اگر کہیں کوئی اس طرح کی بات کرتا ہے تو وہ ناقابلِ قبول ہے۔ ہمارا ملک وسیع و عریض ملک ایک ہے، اس ملک میں کئی طبقات، کئی زبانیں اور مختلف قسم کی تہذیبیں پائی جاتی ہیں، لیکن یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ موجودہ حکومت نے جنوبی ہند کے ساتھ سوتیلا رویہ اختیار کر رکھا ہے۔
ہمارا ملک ایک ہے اسی لیے علیحدہ ملک کے مطالبات کرنا غیر عقلی باتیں ہیں، بے شک ہمارے اندر اختلاف رائے ہوسکتا ہے، لیکن ملک کی سالمیت کے خلاف کوئی گفتگو نہیں ہوسکتی، کیوں کہ ہمارا ملک ہندوستان دستور کی دفعہ ایک کے مطابق یہ مختلف ریاستوں کو مل کر بنا ہے یعنی یہ یونین آف اسٹیٹ ہے۔ اگر کوئی دستور کی اس بنیادی روح کے خلاف بات کرتا ہے تو اسے قبول نہیں کرنا چاہیے۔ اگر یہ مطالبہ کسی کونے سے بھی اٹھتا ہے تو وہ کسی ایک مقام پر جاکر نہیں رکے گا، آج جنوبی ہند کا مطالبہ اٹھا ہے تو کل شمال مشرق سے اٹھے گا، پھر جنوب سے ہی علیحدہ تمل ناڈو کا مطالبہ اٹھ سکتا ہے، اسی طرح علیحدہ کیرالا کا بھی مطالبہ اٹھے گا، یہ تو نہ ختم ہونے والی کہانی ہو جائے گی، اسی لیے اس طرح کے مطالبات کو سرے سے خارج کردیا جانا چاہیے۔ کانگریس کے ایم پی کی جانب سے کیے گئے مطالبے کو کسی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا، اسی لیے کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے مطالبے کو معاف نہیں کیا جاسکتا۔
جہاں ہم اس طرح کے مطالبات کو سرے سے خارج کرتے ہیں وہیں ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ آخر اس طرح کے مطالبے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیوں آخر ایک ایم پی کو اس طرح کی بات کرنی پڑی؟ کہیں جنوبی ہند سے برتا جانے والا سوتیلا رویہ تو اس کی وجہ نہیں بنا؟ اگر ہم اس کی گہرائی میں جائیں تو ہم پر واضح ہوگا کہ علیحدہ ہونے کی بات یوں ہی زبان سے نہیں نکلی ہے، اس کے پس پردہ جنوبی ہند کے ساتھ برتا جانا والا سوتیلا رویہ ہے، جنوبی ہند سے برتا جانے والا امتیازی سلوک ہے، اگر ملک کے کسی علاقے کے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے تو وہ بھی ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ بن جائے گا۔ محض قومی گیت گانے سے ملک کی سالمیت برقرار نہیں رکھی جاسکتی، ملک کی سالمیت کے لیے ساری ریاستوں کو مساوی طور پر دیکھنا ضروری ہے، سالمیت کی روح کے مطابق اصول و ضوابط بھی ہونے چاہئیں، ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ جہاں سے آپ کو زیادہ سیٹیں حاصل ہوں وہیں آپ کی نگاہِ کرم ہو، آپ کے سارے ترقیاتی منصوبے ان ہی علاقوں کے لیے ہوں جہاں سے آپ نے جیت درج کی ہو۔ یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ جنوبی ہند کو سیاسی طور پر دیوار سے لگانے کی کوششیں جاری ہیں، واضح طور پر دکھائی دیتا ہے کہ جنوبی ہند کو حاشیہ پر لگانے کی کوششیں ہو رہی ہیں، اس کو سیاسی طور پر پسماندہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ حکومت پارلیمانی نشستوں کو بڑھانے کی تیاری میں ہے، اسی لیے ڈی لیمیٹیشن کا ارادہ رکھتی ہے، اس وقت پارلیمانی نشستوں کی تعداد 1971 کے مردم شماری کے مطابق طے کی ہوئی ہیں، یعنی اس وقت جو آبادی تھی اس کے مطابق، لیکن مودی کا ارادہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ریاستوں کو نشستیں تفویض کرنے کا ہے، اگر ڈی لیمیٹیشن 2011 کی مردم شماری کے مطابق ہوتا ہے تو اس میں جنوبی ہند کو بھاری نقصان ہوگا، کیوں کہ حکومت کے آبادی کنٹرول قانون پر جنوبی ہند کی ریاستوں نے بھر پور عمل کیا، اس لیے یہاں آبادی کنٹرول میں ہے، وہیں شمالی ہند کی ریاستیں اور خاص طور پر ’گائے پٹی‘ یا ہندی پٹی کی ریاستوں نے حکومت کے اس قانون پر صحیح طریقے سے عمل درآمد کیا ہی نہیں، جس کے نتیجے میں وہاں آبادی کنٹرول میں نہیں رہی، اگر اس حساب سے ڈی لیمیٹیشن کی جاتی ہے تو شمالی ہند میں پارلیمانی نشستیں زیادہ ہوں گی اور جنوبی ہند میں کم ہوجائیں گی، پہلے ہی سے جنوبی ہند سیاسی پسماندگی کا شکار ہے، اگر اس طرح ڈی لیمیٹیشن ہوجاتا ہے تو وہ اور بھی سیاسی پسماندگی کا شکار ہو جائے گا اور اس کی سیاسی نمائندگی بری طرح سے کم ہو جائے گی۔ یعنی جس نے قانون کی پاسداری کی اسے سزا اور جس نے قانون کی دھجیاں بکھیریں اسے انعامات و اعزازات، یہ کیسا انصاف ہے؟ بی جے پی چاہتی بھی یہی ہے، کیوں کہ اسے جنوبی ہند سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہے۔ اگر اس مسئلے کا بہتر حل نہیں نکالا گیا تو بعید نہیں کہ جو مطالبہ کرناٹک کے ایک ایم پی نے کیا وہ عوام کی طرف سے بھی ہو جائے۔ یہ تو رہا سیاسی پہلو۔معاشی اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو جنوبی ہند کے ساتھ وہی سوتیلا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ 2014 تک مرکزی حکومتیں اپنے بجٹ میں ریاستوں کو جو فنڈز مختص کرتی تھیں وہ 1971 کی مردم شماری کے مطابق کرتی تھیں، لیکن مودی حکومت نے 2011 کی مردم شماری کی بنیاد پر فنڈز کو مختص کرنا شروع کیا ہے، تو اس میں بھی جنوبی ہند کی ریاستوں کو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے، یہ ہے جنوبی ہند سے امتیازی سلوک، جنوبی ہند کی ریاستیں نقصان اٹھا رہی ہیں، اس کی وجہ سے کرناٹک کو 8 ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے، تمل ناڈو کو 20 ہزار کروڑ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا، یعنی آبادی کو کنٹرول کرنے کی وجہ سے معاشی طور پر بھی جنوبی ہند کو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے، یہ معاملہ صرف فنڈز مختص کرنے کا ہی نہیں ہے، اس میں ایک اور مسئلہ بھی پوشیدہ ہے، وہ یہ کہ جنوبی ہند کی ریاستیں شمالی ہند یا ہندی پٹی کی ریاستوں کے مقابلے میں مرکزی حکومت کو اپنی اچھی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے زیادہ تعاون کرتی ہیں جبکہ ہندی پٹی کی ریاستوں کی بہ نسبت جنوبی ہند کی ریاستوں کو کم فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں ، اس طرح جنوبی ہند کی ریاستیں یہاں بھی نقصان اٹھا رہی ہیں۔ جب اس طرح کی غیر منصفانہ تقسیم ہوگی، اس طرح کا امتیازی سلوک روا رکھا جائے تو عوام میں علحیدگی پسند خیالات کا پنپنا ضروری ہے، لہذا غیر منصفانہ تقسیم اور غیر مساویانہ تقسیم کو ختم کیا جائے تاکہ اس طرح کے خیالات ذہن میں آنے ہی نہ پائیں۔ ایسا نہیں کہ پسماندہ علاقوں کو زیادہ نہیں دینا چاہیے، دیا جاسکتا ہے کیونکہ ہر ریاست ہمارے ملک کی ہی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ایسی ریاستیں جو مستقلاً بہتر مظاہرہ نہیں کررہی ہیں، جو قانون کی پاسداری میں بھی پچھڑی ہوئی ہیں، ایسی ریاستوں کو مراعات دینا، وہاں پر فنڈز زیادہ صرف کرنے میں کیا معقولیت ہوسکتی ہے؟ مودی حکومت ایسی ریاستوں کے لیے محض اس لیے زیادہ فنڈز مختص کر رہی ہے کیوں کہ ان ریاستوں میں بی جے پی کو زیادہ نشستیں ملی ہیں، یہ کوئی معیار نہیں ہونا چاہیے، دیکھنے میں تو یہی آ رہا ہے کہ جنوبی ہند کی ریاستوں کو فنڈس واجب الادا ہیں وہ بھی ایسی ہی ریاستوں میں صرف کیا جارہا ہے۔
جنوبی ہند کی ریاستوں سے سوتیلا پن ہر سطح پر نظر آئے گا، کبھی کوئی وزیر کہتا ہے کہ ہندی زبان ہی ملک کی سرکاری زبان ہے، امیت شاہ کہتے ہیں کہ ہندی لازمی زبان ہونی چاہیے، ہندی ہر ایک کو سیکھنی چاہیے، ایک وزیر کہتا ہے کہ ریلوے کے امتحانات صرف ہندی اور انگریزی زبانوں میں ہوں گے، اس سے جنوبی ہند کی ریاستیں نقصان اٹھا رہی ہیں، کیا یہ ہندی کو دوسروں پر تھوپنے کے مترادف نہیں ہے؟ آپ دیکھیں گے کہ مرکزی سطح کے اداروں میں صرف ہندی زبان ہی کو ترجیح دی جا رہی ہے، چند سال پہلے تک دیگر زبانوں کو بھی ان اداروں میں جگہ تھی لیکن پچھلے دس سال میں دیگر زبانوں کا چلن بالکل ختم ہو کر رہ گیا ہے، کیا یہ عدم مساوات نہیں ہیں؟ کیا اسے امتیازی سلوک نہیں مانا جائے گا؟
اس قسم کے امتیازی سلوک کی وجہ سے ہی شاید علحیدگی پسند رجحانات پیدا ہوتے ہیں، لہٰذا مرکزی حکومت کو چاہیے کہ ہر ریاست کو چاہے وہ جنوب کی ہو یا شمال کی، یا پھر شمال مشرق کی ریاستیں ہوں سب کو ایک ہی نظر سے دیکھے، ورنہ اس قسم کے رجحانات کو پنپنے سے روکنا مشکل ہوجائےگا۔

 

***

 ’’محض قومی گیت گانے سے ملک کی سالمیت برقرار نہیں رکھی جاسکتی، ملک کی سالمیت کے لیے ساری ریاستوں کو مساوی طور پر دیکھنا ضروری ہے، سالمیت کی روح کے مطابق اصول و ضوابط بھی ہونے چاہئیں، ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ جہاں سے آپ کو زیادہ سیٹیں حاصل ہوں وہیں آپ کی نگاہِ کرم ہو، آپ کے سارے ترقیاتی منصوبے ان ہی علاقوں کے لیے ہوں جہاں سے آپ نے جیت درج کی ہو۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ جنوبی ہند کو سیاسی طور پر دیوار سے لگانے کی کوششیں جاری ہیں، واضح طور پر دکھائی دیتا ہے کہ جنوبی ہند کو حاشیہ پر لگانے کی کوششیں ہو رہی ہیں، اس کو سیاسی طور پر پسماندہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ حکومت پارلیمانی نشستوں کو بڑھانے کی تیاری میں ہے، اسی لیے ڈی لیمیٹیشن کا ارادہ رکھتی ہے‘‘
(ملک ارجن کھرگے)


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 فروری تا 17 فروری 2024