کرناٹک: حجاب پر پابندی کے معاملے میں ہائی کورٹ پہنچنے والی ایک درخواست گزار کے والد کی ملکیت والے ہوٹل پر ہجوم کا حملہ
نئی دہلی، فروری 22: دی ہندو کی خبر کے مطابق پیر کو نامعلوم افراد کے ایک گروپ نے اُڈوپی کی ان چھ لڑکیوں میں سے ایک کے والد سے تعلق رکھنے والے ایک ریستوراں پر پتھراؤ کیا جس نے کرناٹک ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے اور مطالبہ کیا کہ طالبات کو تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے کا حق ہونا چاہیے۔
ہجوم نے لڑکی کے بھائی پر بھی مبینہ طور پر کرناٹک میں حجاب پر پابندی پر بحث کے دوران حملہ کیا جب وہ ریستوراں بند کر رہا تھا۔ بعد میں اسے علاج کے لیے اسپتال لے جایا گیا۔
پچھلے مہینے سے کرناٹک میں مسلم طالبات حجاب پہننے کے اپنے حق کے لیے احتجاج کر رہی ہیں۔ 5 فروری کو کرناٹک حکومت نے ایسے کپڑوں پر پابندی لگانے کا حکم جاری کیا تھا جو ’’مساوات، سالمیت اور امن عامہ کو خراب کرتے ہیں۔‘‘
10 فروری کو کرناٹک ہائی کورٹ نے ایک عبوری حکم میں ریاست کے طلبا کو اسکولوں اور کالجوں میں ’’مذہبی لباس‘‘ پہننے سے اس وقت تک روک دیا جب تک کہ وہ تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر فیصلہ نہیں دیتی۔
پیر کو ہوئے اس واقعے کے دوران پولیس نے کہا کہ وہ موقع پر پہنچی اور مزید مسائل سے بچنے کے لیے لوگوں کے گروپ کو منتشر کیا۔ مالپے پولیس اسٹیشن میں غیر قانونی اجتماع کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
دی ہندو کے مطابق اڈوپی کے پولیس سپرنٹنڈنٹ این وشنو وردھن نے کہا کہ ریستوران کی کھڑکی کو نقصان پہنچا ہے۔
مالپے پولیس اسٹیشن کے ایک نامعلوم پولیس افسر نے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ اس گروپ میں تقریباً 20-30 لوگ تھے۔ افسر نے مزید کہا کہ ان میں سے زیادہ تر لڑکی کے بھائی سے واقف تھے۔
افسر نے کہا ’’فساد کا محرک یہ تھا کہ سیف کے والد نے حجاب کے تنازعہ اور زعفرانی شال پہننے والوں سے متعلق ایک مقامی کنڑ چینل پر تبصرہ کیا تھا۔ ان کے بیانات اور الفاظ کے چناؤ نے گروپ کو متحرک کر دیا، جو ہوٹل پہنچ گئے اور پتھراؤ کیا۔‘‘
اس دوران طالبہ نے ٹویٹر پر اس حملے کے بارے میں بات کی۔ اس نے لکھا ’’میرے بھائی پر ایک ہجوم نے وحشیانہ حملہ کیا۔ صرف اس لیے کہ میں اپنے #حجاب کے لیے کھڑی ہوں جو کہ میرا حق ہے۔ ہماری املاک بھی تباہ ہوگئیں۔ کیوں؟؟ کیا میں اپنا حق نہیں مانگ سکتی؟ ان کا اگلا شکار کون ہوگا؟‘‘