کرناٹک: تبدیلی مذہب مخالف بل پر بحث سے پہلے میڈیا کو اسمبلی میں داخل ہونے سے روک دیا گیا

نئی دہلی، دسمبر 23: انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق بدھ کو ریاست کے تبدیلی مذہب مخالف بل پر بحث سے پہلے صحافیوں کو کرناٹک اسمبلی میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔

بدھ کی صبح اسمبلی کے عہدیداروں نے صحافیوں کو بتایا کہ اسپیکر وشویشور ہیگڑے کاگیری نے انھیں ایوان کے اندر نہ جانے دینے کی ہدایت دی ہے۔ انھوں نے اس فیصلے کی کوئی وجہ نہیں بتائی۔ تاہم ہیگڑے نے کہا کہ انھوں نے ایسی کوئی ہدایت نہیں دی ہے۔

مذہبی آزادی کے حق کے تحفظ کا بل2021، اپوزیشن کے احتجاج کے درمیان منگل کو اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ ریاستی کابینہ نے پیر کو اس بل کو منظوری دی تھی۔

مسودہ بل میں خواتین، نابالغوں اور درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے لوگوں کا زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر 10 سال قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ’’غلط بیانی، زبردستی، دھوکہ دہی، غیر ضروری اثر و رسوخ، جبر، رغبت یا شادی کے ذریعے ایک مذہب سے دوسرے مذہب میں تبدیلی‘‘ ممنوع ہے۔

بعد میں صحافیوں کو اسمبلی کی عمارت میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی لیکن بدھ کو بل پر بحث نہیں ہوئی۔

اسمبلی میں کانگریس لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ سدارامیا نے کہا کہ شمالی کرناٹک سے متعلق معاملات کو ترجیح دی جانی چاہیے اور تبدیلی مذہب مخالف بل کے مسودے پر دوسرے دنوں بھی بحث کی جاسکتی ہے۔ انھوں نے اسپیکر سے کہا کہ بل پر بحث کے لیے اجلاس کو مزید کچھ دن بڑھایا جائے۔

کرناٹک کے وزیر قانون جے سی مدھوسوامی نے اسپیکر سے کہا کہ اگر اسے اسمبلی سے منظوری مل جاتی ہے تو انھیں ریاستی قانون ساز کونسل کے سامنے مسودہ بل پیش کرنے کے لیے وقت درکار ہے۔ پھر ایک مختصر بحث کے بعد کاگیری نے کہا کہ بل پر جمعرات کو پہلے نصف میں بحث کی جائے گی۔

بعد ازاں صحافیوں نے ایوان میں داخلے سے منع کیے جانے پر اسمبلی کی عمارت کے باہر احتجاج کیا۔

دریں اثنا بدھ کو بنگلورو میں اس بل کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ اس میں بنگلورو کے آرچ بشپ پیٹر ماچاڈو نے شرکت کی، جنھوں نے ماضی میں بھی اس مجوزہ قانون کی مخالفت کی تھی۔ آرچ بشپ نے اکتوبر میں کہا تھا کہ اس بل میں صرف عیسائی برادری کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

کانگریس اور جنتا دل (سیکولر) بھی مجوزہ قانون کی مخالفت کر رہے ہیں۔

اگر یہ بل کرناٹک اسمبلی میں منظور ہوتا ہے تو اسے ریاست کی قانون ساز کونسل سے منظوری دینی ہوگی۔ تاہم 75 رکنی ایوان بالا میں بی جے پی کے پاس اکثریت نہیں ہے۔

قانون ساز کونسل میں بی جے پی کے پاس 32، کانگریس کے پاس 29، جے ڈی (ایس) کے پاس 12 اور ایک آزاد امیدوار ہے۔